عابد انور
قرآن کریم کا اعجاز یہ ہے کہ رہتی دنیا تک اس کی تشریح ،تو ضیح اور تفسیر لکھی جاتی رہے گی اور پھر بھی قرآن کریم کا حق کما حقہ ادا نہیں ہوگا۔ قرآن کریم کی تفسیر کاسلسلہ صحابہ کرام سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے اور دنیاکی تقریباًتمام زبان میں قران کریم کا ترجمہ ہوا ہے اور ہورہا ہے اور ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ قرآن کریم کی توضیح و تشریح کرے لیکن یہ نعمت غیر مترقبہ ہر کسی کی قسمت کا حصہ نہیں بنتی۔ اللہ تعالیٰ خاص بند ے کو اس کے لئے منتخب کرتا ہے۔یہ افتخار مولانا سیدارشد مدنی کو حاصل ہوا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور قرآن ہرزمان اور مکان کے لئے دستور حیات ہے چنانچہ جیسے جیسے اسلام کا آفاقی پیغام غیر عرب دنیا میں پھیلا تو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس آفاقی پیغام کو ان کے مادری زبان میں بھی منتقل کیا جائے لہذا پوری دنیا میںاسلام تعلیمات اور پیغام کے عام کرنے کے لئے ہر ملک کے صاحب علم و فضل اور علمائے کرام نے اپنی بساط کے مطابق قرآن کریم کا ترجمہ مقامی زبانوں میں کیا ۔
ہندوستان میں بھی جب اسلام کی روشنی پھیلی اور لوگ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے تو علماء نے قرآن کا ترجمہ فارسی میں کیا ۔لیکن جب فارسی کا چلن کم ہونے لگا اور اردو کا فروغ ہونے لگا تو شاہ ولی اللہؒ کے صاحبزادے اور دوسرے علماء کرام نے قرآن کا اردو ترجمہ کرکے اس کے پیغام کو ہندی مسلمانوں میں عام کیا۔شیخ الہند اور مولانا تھانوی نے قرآن کا اردو ترجمہ کرکے اس کو مزید آسان اور سہل الحصول بنایا۔آج جب کہ لوگ ارود سے بھی نابلد ہوتے جارہے اور نئی نسل کا رجحان اردو کی طرف کم ہوتا جارہا ہے تو ضروت محسوس ہوئی کہ اس کا ترجمہ ہندی زبان میں بھی کیا جائے تاکہ اردو سے ناواقف لوگ بھی اسلام کے پیغام کو سمجھ سکیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے قرآن کی بعض آیات پر طرح طرح کے اعتراضات بھی ہمارے سامنے آتے رہے ہیں ظاہر ہے کہ ایسا قرآن کے مفہوم کو اس کے سیاق وسباق میں نہ سمجھنے کی وجہ سے ہورہا ہے، اور یہ چیز ان لوگوں کی طرف سے آئیں جو براہ راست قرآن سے استفادہ نہیں کرسکتے تھے بلکہ دوسروں کے اعتراضات سے متاثر ہوکر ان کے اندر غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں۔ اس لئے ان کے لئے بھی قرآن کے ہندی ترجمہ کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔
چنانچہ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین ، جمعیۃ علمائے ہند کے صدر اور امیر الہندمولانا سید ارشدمدنی صاحب نے قرآن کریم کے پیغام کوعام مسلمان اور عام ہندوستانی تک پہنچانے کے لئے قرآن کریم کا ہندی میں ترجمہ تفسیر کے ساتھ کیا ہے۔ اگر اس ترجمہ کو’ ہندوستانی زبان ‘میں ترجمہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔
اس کی خوبی یہ ہے کہ پہلے قرآن کریم کی آیت لکھی گئی ہے ، اس کے بعد اس کا ہندی میں آسان زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے اور پھر اس کی تشریح و توضیح کی گئی ہے۔ اس سے نہ صرف ہندی داں حضرات کو قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہوگی بلکہ اس کی تفسیر سے بھی آگاہی حاصل ہوگی۔ بہت سے غیر مسلم حضرات چاہتے ہیں کہ وہ ہندی میں قرآن پڑھیں اور اسے سمجھیں لیکن اس کی تفسیر نہ ہونے کی وجہ سے قرآن کو سمجھنے سے محروم رہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں قرآن پاک کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں خام اور غیر مصدقہ مواد کی بھرمار ہے قرآن کے بارے میں بھی طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔ اس ترجمہ اور توضیح و تشریح سے قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اورعام لوگوں کی رسائی بھی قرآن کریم تک ہوجائے گی۔
مولانا سید ارشد مدنی اپنے ترجمے اور تفسیر کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں ۔’’ہم نے پہلے ایڈیشن میں قرآن کے موضوعات کے سلسلے میں کوئی فہرست نہیں بنائی تھی، لوگوں کی خواہش تھی کہ دنیا کی دوسری کتابوں کی طرح قرآن کی تفسیر کی بھی ایک فہرست آنی چاہیے تاکہ دیکھنے والا اپنی خواہش کے مطابق جس موضوع کو دیکھنا چاہے دیکھ سکے۔قرآن کی تفسیر کی ایک فہرست ’’معارف القرآن‘‘ جو مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کی تفسیر ہے، میں ہر سورت کے آغاز میں دی گئی ہے۔مولانا عثمانی کی تفسیر میں کوئی فہرست نہیں تھی لیکن یہ فہرست مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کے بیٹے جناب محمد ولی رازی صاحب نے بنائی ہے، ہم کو وہ کام پسند آیا اس لیے ہم نے اسی فہرست کو قرآن کریم کے دونوں حصوں کے آغاز میں رکھا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کس سورت اور کس آیت میں کون کون سے مضامین بیان کیے گئے ہے پڑھنے والا اس کو سمجھ سکے اور مستفید ہوسکے۔اس وقت تک ہندی زبان میں قرآن کی آیتوں کا ترجمہ بہت سے لوگ کر چکے ہیں اور وہ چھپ کر بازار میں بھی آچکے ہیں لیکن ہماری یہ کوشش قرآن کے ترجمہ سے آگے بڑھ کر اس کی مخصوص تفسیر پیش کرنا ہے کیونکہ صحیح طریقے سے قرآن کا سمجھنا اس کی تفسیر کو پڑھے بنا نہیں ہو سکتا اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن کی تفسیر سے متعلق کچھ اصول و ضوابط مختصر طور پر آپ کے سامنے رکھ دیں۔ تو اس جگہ سب سے پہلے غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہ علم کی مکمل اور حیرت انگیز کتاب کس مقام پر، کس ماحول میں اور کس شخص پر نازل ہوئی؟ اور کیا وہاں کچھ ایسے علم کے ذرائع موجود تھے جن کی مدد سے ایسی مکمل کتاب تیار ہو سکے، جو اگلے پچھلے لوگوں کے علم کو جمع کرنے والی اور انسان کی ذاتی اور سماجی زندگی کے ہر جہت کے تعلق سے بہتر رہنمائی پیش کر سکے جس میں انسان کی جسمانی اور روحانی تربیت کا مکمل نظام موجود ہواور عائلی قوانین سے لے کر ملکی نظام کا بہترین اصول بیان کیا گیا ہو‘‘۔
اس کا ترجمہ نہایت آسان اور عام فہم زبان میں ہے ۔ ہندی بہت سخت نہیں ہے کہ لوگوں کو سمجھنے میں دشواری پیش آئے۔ عام ہندوستانی زبان ہے اردو اور ہندی کی آمیزش ہے۔ اس زبان کا استعمال کیا گیا ہے جو عام ہندی داں خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم اس کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ترجمہ اور تفسیر غیر مسلموں سے زیادہ مسلم نوجوانوں کو سامنے پر رکھ کر کی گئی ہے۔کیوں کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اردو زبان سے ناآشنا ہے۔ اس لئے ان کی رسائی قرآن تک نہیں ہے کیوں کہ قرآن ایک صرف تلاوت کی کتاب نہیں ہے بلکہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے، راہ ہدایت ہے، لائحہ عمل ہے، زندگی گزارنے کے قوانین ہیں، حکمرانی کے طریقے ہیں۔ مسلمان اس وقت دنیا میں اس لئے ذلیل خوار ہیں کیوں کہ انہوں نے قرآن کو صرف تلاوت یا اجر و ثواب کی کتاب سمجھ لیا ہے۔ اس ترجمے اور توضیح قرآن کو سمجھنے میںمدد ملے گی اور قرآن سے استفادہ کرکے وہ اپنی زندگی کے لائحہ عمل کو ترتیب دے سکتے ہیں۔
علمائے کرام نے قرآن مجید کی تفاسیر کو چار ادوار پر تقسیم کیا ہے ۔ پہلا دور حضور اکرمؐ کا زمانہ ہے۔ قرآنِ مجید عربی زبان میں اور لغتِ عرب کے اسلوب اور بیان کے مطابق نازل ہوا، اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان بھی عربی تھی لیکن علم و فہم فراست کے لحاظ سب ایک جیسے نہ تھے اس لئے جب بھی کسی لفظ یا کسی آیت کا مطلب سمجھنے میں پریشانی ہوتی تو وہ بارگاہ رسالت میں حاضری دے دیتے تھے اور پوری بات سمجھ میں آجاتی تھی ۔ یہیں سے قرآن کریم کی تفسیر کی ابتداء ہوتی ہے اور یہ پہلا دور ہے۔ دوسرا دور حضور اکرمؐ کے پردہ فرمانے کے بعد کا ہے۔ جب بڑے بڑے صحابہ کرام موجود تھے اور جنہوں نے قرآن و حدیث کے لئے اپنی زندگی وقف کردی تھی اور انہوں نے براہ راست حضورؐ سے کسب فیض کیا تھا۔ اس دور میں جب لوگوں کو قرآنی آیات کے معانی مفاہیم سمجھنے میں دشواری ہوئی تو انہوں نے صحابہ کرام سے براہ راست رابطہ کیا اور ان سے قران کے مطالب و مفاہیم سمجھے۔ صحابہ کرام کو پورے قرآن کی تفسیر کی حاجت نہیں تھی کیوں کہ وہ خود اہل زبان تھے۔ وہ قرآنی اسلوب اور لغت سے واقف تھے اس لئے پورے قرآن کی تفسیر کو ان کو ضرورت نہیں تھی۔ تیسرے دور میں صحابہ کرام کے بعد تابعی اور تبع تابعین کا زمانہ آیا تھا ۔اس دور میں اسلام اطراف کے ممالک میں اپنا دامن پھیلا چکا تھا۔ اس دور میں اگرچہ قرآن کا کریم کی تفسیر کا ایک ذخیرہ موجود تھا لیکن پورے قرآن کی تفسیر نہ تھی۔ اسلام نے اپنے دامن عرب سے عجم کی طرف پھیلا چکا تھا اب ضرور ت تھی قرآن کریم کی مکمل تفسیر ہو تاکہ اسلام میں داخل ہونے والوں کوقرآنی علوم کو بہرہ ور کیا جاسکے۔ اسی دور میں مختلف فتنے اٹھے، لوگوں کی آراء میں اختلاف ہوا اور فتاوی کی کثرت ہوئی تو تابعین نے حدیث، فقہ اور قرآن مجید کے علوم کی تدوین کی طرف توجہ فرمائی ۔ تفسیر قرآن کے سلسلے میں انہوں نے حضور اکرمؐ اور ان کے صحابہ کرامؓکے طریقے کی پیروی کی کہ سب سے پہلے قرآن مجید کی تفسیر قرآنی آیات سے بیان کی، پھر حضور اقدسؐ کی احادیث سے بیان کی اور مزید یہ طریقہ اختیار کیا کہ جہاں انہیں قرآن مجیدکی آیات اور نبی اکرمؐ کی احادیث سے قرآنی آیات کی تفسیر نہ ملی وہاں قرآن مجید کی تفسیر صحابہ کرام کے آثار سے بیان کی اور جہاں انہیں تفسیر قرآن سے متعلق صحابہ کرام کے آثارنہیں ملے وہاں انہوں نے اجتہاد و استنباط سے کام لیا اور اسی دور میں کتب تفسیر کا ایک ذخیرہ وجود میں آیا ۔
چوتھا اہم دور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے صاحبزادے کا آتاہے ۔یہاں عربی خاص کی زبان تھی اور عام لوگ عربی سے ناواقف تھے ۔بڑا عجمی خطہ جو جہاں بیشتر لوگ اسلام کا دامن تھام چکے تھے ،جس میں برصغیر کے ہمسایہ ملک ترکستان، افغانستان اور ایران وغیرہ ممالک شامل ہیں۔ یہاں کی زبان عربی نہیں تھی اس وقت شاہ ولی اللہ رحم اللہ نے قرآن کی تفسیر کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے فارسی میں ’المقدّمہ فی قوانین الترجمۃ‘ لکھا۔ یہ رسالہ اصول ترجمہ پر تحریر کیا گیا ہے جو مختصر ہونے کے باوجود بڑا بصیرت افروز اور عالمانہ ہے۔ اسے ہم دوسرے لفظوں میں اصول تفسیر، پر ایک جامع رسالہ قرار دے سکتے ہیں کیونکہ ترجمہ کئی لحاظ سے تفسیر ہی کی ایک قسم ہے۔ شاہ صاحب خود اس رسالہ کی ابتداء میں لکھتے ہیں:’’اللہ کرم والے کی رحمت کا فقیر ولی اللہ بن عبدالرحیم کہتا ہے کہ یہ رسالہ جس کا نام ترجمہ کے قوانین رکھا ہے،قواعدِ ترجمہ پر مشتمل ہے،کیونکہ درحقیقت قرآن کا ترجمہ اس وقت ضبطِ تحریر میں جاری ہے۔‘‘فتح الرحمن بترجمۃ القرآن (فارسی)محققین کے مطابق برصغیر کا پہلا فارسی ترجمہ باب الاسلام سندھ میں ہوااور مخدوم لطف اللہ بن مخدوم نعمت اللہ المعروف مخدوم نوح اللہ(م 998ھ/ 1589ئ) ساکن ہالہ (حیدر آباد) نے یہ شرف حاصل کیا۔(وکی پیڈیا)جو مقبولیت شاہ عبدالعزیز کے فارسی اور شاہ عبدالقادر کے اردو ترجمے کو حاصل ہوئی وہ کسی کے حصے میں نہیں آئی۔
شاہ ولی اللہ کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیزنے فارسی میں اور شاہ عبدالقادر نے اردو میں ترجمہ کیا۔ اس وقت ہندوستان میں انگریزوں کا قبضہ شروع ہوچکا تھا اور مغل بادشاہ محدود سے محدود تر ہوتے جارہے تھے۔ فارسی کے ساتھ اردو زبان رائج ہورہی تھی بلکہ عام لوگوں کی زبان اردو تھی ۔ اس لئے قرآن کریم کی افہام تفہیم کے لئے اردو میں ترجمہ ضروری تھا ۔ مولانا اسحاق بھٹیؒ لکھتے ہیں:’’اس (ترجمہ) کی اولیت کا سہرا شاہ ولی اللہ کے سر ہی بندھے گا۔ وہ پہلے عالم ہیں، جن کے ترجمے نے بے پناہ قبولیت حاصل کی اور لوگوں کی وسیع تعداد نے اس سے استفادہ کیا۔ اب بھی حوالے کے لیے اس ترجمہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاہ صاحب ان تمام اوصاف سے متصف اور ان تمام خصوصیات سے (بدرجہ اتم) مالا مال تھے جن سے قرآن کے مترجم کو ہونا چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک کسی مترجم میں وہ اوصاف جمع نہیں ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے شاہ صاحب میں جمع فرما دیے تھے۔‘‘
اس دور کے حالات کو دیکھا جائے تو شاہ صاحب کا کارنامہ محض یہ نہیں کہ قرآن کریم کا ترجمہ کیا بلکہ اصل کارنامہ تو یہ تھا کہ قرآن فہمی کے حوالہ سے عرصے سے چلے آرہے جمود کو توڑااور لوگوں کی غلط فہمی کو دور کرکے انھیں براہ راست قرآن سے جوڑا۔ اگر آپ اس فکر کا رد نہ کرتے کہ قرآن کو کوئی بہت بڑا عالم ہی سمجھ سکتا ہے، تو شاید آپ کے ترجمہ قرآن کو اتنی قبولیت حاصل نہ ہوپاتی۔ دوسرے یہ کہ شرعی و لغوی علوم سے گہری واقفیت کی بنا پر آپ کے ترجمہ قرآن کی ایک اہم خصوصیت علمی پختگی اور رسوخ تھا۔
مولانا سید ارشدمدنی کا قرآن کے سلسلے میں یہ کارنامہ قرآن فہمی تحریک کو مہمیز دے گا اور قران کو عربی زبان کے نہ جاننے والے بھی سمجھ کر اپنی زندگی میں اتاریں گے۔ بلاشبہ مولانا مدنی کا یہ کارنامہ ملک کے ایک بڑے طبقے کو قرآن فہمی کی طرف راغب کرے گا اور اس سے نہ صرف قرآن فہمی میں مدد ملے گی بلکہ قرآن کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمی اور مفروضہ کو بھی دور کرنے میں مددملے گی۔
q qq