روایتی آبی ذخائر کے طریقوں کو بچانا ضروری!

0

پنکج چترویدی
کسی سال بارش کا روٹھ جانا تو کبھی زیادہ ہی برس جانا ہمارے ملک کی تقدیر ہے۔ تھوڑی زیادہ برسات ہو جائے تو اسے سمیٹنے کے وسائل نہیں ہوتے اور کم برس جائے تو ایسا ریزرو اسٹاک نظر نہیں آتا جس سے کام چلایا جاسکے۔ تجربات سے یہ تو واضح ہے کہ بھاری بھرکم بجٹ، راحت، ٹیوب ویل جیسے الفاظ پانی کے بحران کا حل نہیں ہیں۔ کروڑوں، اربوں کی لاگت سے بنے ڈیم سو سال بھی نہیں چلتے جبکہ ہمارے روایتی علم سے بنے واٹر اسٹرکچرس میں انتہائی غفلت، لاپروائی کے باوجود آج بھی پانی موجود ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی کے خطرے کے سامنے جدید انجینئرنگ بے بس ہے۔ اگر ہندوستان کی دیہی زندگی اور کھیتی بچانا ہے تو بارش کی ہر بوند کو اسٹور کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہی ہمارے آباواجداد کی روایت بھی تھی۔
بندیل کھنڈ میں کروڑوں کے راحت پیکیج کے بعد بھی پانی کی قلت کی وجہ سے مایوسی، نقل مکانی و بے بسی کا عالم ہے۔ ملک کے بہت بڑے حصے کے لیے کم بارش نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی وہاں کے معاشرے کے لیے کم پانی میں گزارہ کرنا نئی بات ہے مگر گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران جدیدیت کی آندھی میں دفن ہوگئے ہزاروں چندیل-بندیلا قالین تالابوں اور روایتی پانی کے نظام کی وجہ سے یہ حالات پیدا ہوئے۔ مدھیہ پردیش کے برہان پور شہر کی آبادی تین لاکھ کے آس پاس ہے۔ نماڑ کا یہ علاقہ پانی کی کمی کی وجہ سے بدنام ہے لیکن آج بھی شہر میں کوئی 18 لاکھ لیٹر پانی روزانہ ایک ایسے سسٹم سے تقسیم ہوتا ہے جس کی تعمیر 1615 میں کی گئی تھی۔ یہ نظام پانی کو محفوظ اور تقسیم کرنے کی دنیا کی عجوبی مثال ہے جسے ’بھنڈارا‘ کہا جاتا ہے۔ ست پوڑ پہاڑیوں سے ایک ایک بوند پانی جمع کرنا اور اسے نہروں کے ذریعے لوگوں کے گھروں تک پہنچانے کا یہ نظام مغل دور میں ایرانی ماہر مائیات طبقۃ الارض نے تیار کیا تھا۔ وقت کی مار کی وجہ سے دو بھنڈارے پوری طرح تباہ ہوگئے۔ واضح رہے کہ ہمارے آباواجداد نے ملک کے حالات کے مطابق بارش کو سمیٹ کر رکھنے کے کئی سسٹم ڈیولپ اور محفوظ کیے تھے جن میں تالاب سب سے مقبول تھے۔ گھروں کی ضرورت یعنی پینے کے پانی اور کھانا بنانے کے لیے میٹھے پانی کا وسیلہ کنواں کبھی گھر-آنگن میں ہوا کرتا تھا۔ امیر لوگ عوامی کنویں بنواتے تھے۔ ہریانہ سے مالوا تک جو ہڑ یا کھال زمین کی نمی برقرار رکھنے کے قدرتی اسٹرکچر ہیں۔ یہ عام طور پر بارش کے پانی کے بہاؤکے علاقے میں پانی روکنے کے قدرتی یا مصنوعی ڈیم کے ساتھ چھوٹا تالاب کی مانند ہوتا ہے۔ تیز ڈھلان پر تیز رفتار سے پانی کے بہہ جانے والے گراؤنڈ فلور میں پانی کی لہر کو کاٹ کر روکنے کا طریقہ ’پاٹ‘ پہاڑی علاقوں میں بہت مقبول رہا ہے۔ ایک نہر یا نالی کے ذریعے کسی پکے ڈیم تک پانی لے جانے کا سسٹم ’ناڑہ یا بندھا‘ اب دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ کنڈ اور باوڑیا محض پانی کو محفوظ رکھنے کے ذریعہ نہیں بلکہ ہماری فن تعمیر کا بہترین نمونہ رہے ہیں۔ آج ضرورت ہے کہ ایسے ہی روایتی سسٹم کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے خاص منصوبے بنائے جائیں اور اس کی ذمہ داری مقامی سماج کی ہی ہو۔
یہ دنیا جب سے ہے تب سے پانی ایک لازمی شے رہی ہے اور کم بارش، صحرا جیسے مسئلے فطرت میں موجود رہے ہیں۔ یہ تو گزشتہ 200 سال میں ہی ہوا کہ لوگ بھوک یا پانے کی وجہ سے اپنے پشتینی گھروں-پنڈوں سے نقل مکانی کرگئے۔ اس کے پہلے کا معاشرہ تو ہر طرح کے پانی کے مسئلے کا حل رکھتا تھا۔ ابھی ہمارے دیکھتے دیکھتے ہی گھروں کے آنگن، گاؤں کے پنگھٹ اور قصبوں کے عوامی مقامات سے کنویں غائب ہوئے ہیں۔ باوڑیوں کو ہضم کرنے کا کام بھی آزادی کے بعد ہی ہوا۔ ہمارا قدیم معاشرہ گرمی کے چار ماہ کے لیے پانی جمع کرنے اور اسے کفایت سے خرچ کرنے کو اپنی تہذیب و ثقافت مانتا تھا۔ وہ اپنے علاقے کے موسم، موسمیاتی تبدیلیوں، زمین کے اندر، زمین کی ساخت، پانی کی مانگ اور سپلائی کا حساب بھی جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ کب کھیت کو پانی چاہیے اور کتنا مویشی کو اور کتنے میں حلق تر ہوجائے گا۔ وہ اپنی گاڑی کو صاف کرنے کے لیے پائپ سے پانی بہانے یا حجامت کے لیے چالیس لیٹر پانی بہادینے والی ٹونٹی کا عادی نہیں تھا۔ بھلے ہی آج اسے گزشتہ زمانے کی تکنیک کہا جائے لیکن آج بھی ملک کے قصبوں اور شہروں میں بننے والے عوامی منصوبوں میں پانی کی کھپت اور حصولیابی کا یہ حساب کوئی نہیں لگاپاتا ہے جو ہمارا پرانا معاشرہ لگانا جانتا تھا۔ راجستھان میں تالاب، باوڑیاں، کوئی اور جھالار صدیوں سے سوکھے کا سامنا کرتے رہے۔ ایسے ہی کرناٹک میں کیرے، تمل ناڈو میں ایری، ناگالینڈ میں جوبو تو لیہہ-لداخ میں جِنگ، مہاراشٹر میں پیٹ، اتراکھنڈ میں گل، ہماچل پردیش میں کل اور جموں میں کُہال کچھ ایسے روایتی پانی کو جمع کرنے کے طریقے تھے جو جدیدیت کی آندھی میں کہیں گم ہوگئے اور آج جب پاتال کا پانی نکالنے اور ندیوں پر باندھ بنانے کا جگاڑ ناکام ہوتا نظر آرہا ہے تو پھر ان کی یاد آرہی ہے۔ گجرات کے کچھ کے رن میں روایتی تاجر کھارے پانی کے اوپر تیرتی بارش کی بوندوں کے میٹھے پانی کو ’وِردا‘ کے تجربہ سے محفوظ رکھنے کا فن جانتے تھے، کیونکہ اس علاقے میں بارش بہت کم ہوتی ہے۔ برفانی صحرا لیہہ-لداخ میں صبح برف رہتی ہے اور دن میں دھوپ کی وجہ سے کچھ پانی بنتا ہے جو شام کو بہتا ہے۔ وہاں کے لوگ جانتے تھے کہ شام کو مل رہے پانی کو صبح کیسے استعمال کیا جائے۔ تمل ناڈو میں پانی کی ایک لہر کو کئی کئی تالابوں کی طرف موڑ کر ہر بوند کو بڑی ندی بنانے اور وہاں سے سمندر میں جاکر برباد ہونے سے روکنے کی انوکھی روایت تھی۔ شمالی اراکوٹ اور چینگل پیٹ ضلع میں پلار اینی کیٹ کے ذریعے اس ’طریقہ تالاب‘ سسٹم میں 317 تالاب وابستہ ہیں۔ رام ناتھ پورم میں تالابوں کے بین سلسلے بھی حیرت انگیز ہیں۔ پانی کی وجہ سے نقل مکانی کے لیے بدنام بندیل کھنڈ میں بھی پہاڑی کے نیچے تالاب، پہاڑی پر ہریالی والے جنگل اور ایک تالاب کے ’اونے‘ (اضافی پانی کی نکاسی کا منہ) سے نالی نکال کر اسے اس کے نیچے سطح پر بنے دوسرے تالاب سے جوڑنے اور ایسے پانچ پانچ تالابوں کی قطار بنانے کی روایت 9 ویں صدی میں چندیل راجاؤں کے دور سے رہی ہے۔ وہاں تالاب کی اندرونی وابستگی کو توڑا گیا، تالاب کے بند توڑے گئے، تالابوں پر کالونی یا کھیت کے لیے قبضے ہوئے، پہاڑیاں توڑی گئیں، درخت اجاڑ دیے گئے۔ اس کی وجہ سے جب ’جل دیوتا‘ روٹھے تو پہلے نل، پھر ٹیوب ویل کے ٹوٹکے کیے گئے۔ سبھی طریقوں سے جب مایوسی ہاتھ لگی تو آج پھر تالابوں کی یاد آرہی ہے۔
ہندوستان میں ہر سال کوئی 40 کروڑ ہیکٹیئر میٹر پانی ملتا ہے۔ اس کا خرچ تین طرح سے ہوتا ہے: سات کروڑ ہیکٹیئر میٹر بھانپ بن کر اڑ جاتا ہے، 11.5 کروڑ ہیکٹیئر میٹر ندیوں وغیرہ سے بہتا ہے، باقی 21.5 کروڑ ہیکٹیئر میٹر زمین میں جذب ہو جاتا ہے۔ پھر ان تینوں میں لین دین چلتا رہتا ہے۔ زمین میں جذب ہونے والے کل 21.5 کروڑ ہیکٹیئر میٹر پانی میں سے 16.5 کروڑ ہیکٹیئر پانی مٹی کی نمی قائم رکھتا ہے اور باقی پانچ کروڑ ہیکٹیئر میٹر پانی زیرزمین پانی کے ذرائع سے جا ملتا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران پیڑوں کی کٹائی اندھادھند ہوئی، لہٰذا بارش کا پانی راست زمین پر گرتا ہے اور مٹی کی اوپری پرت کو کاٹتے ہوئے وہ نکلتا ہے۔ اس سے ندیوں میں مٹی زیادہ پہنچنے کی وجہ سے اس میں طغیانی تو آرہی ہے، ساتھ ہی زیرزمین پانی کا ذخیرہ بھی متاثر ہوا ہے۔ اس کے برعکس ٹیوب ویل، کنوؤں وغیرہ سے زیرزمین پانی کو کھینچنے میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔
1944 میں تشکیل شدہ ’فیمن انکوائری کمیشن‘ نے واضح ہدایات دی تھیں کہ آنے والے برسوں میں پینے کے پانی کے ممکنہ بحران سے نبردآزما ہونے کے لیے تالاب ہی کارگر ہوں گے۔ کمیشن کی رپورٹ تو لال بستے میں کہیں دب گئی اور ملک کی آزادی کے بعد ان پشتینی تالابوں کی دیکھ ریکھ کرنا تو دور، ان کی حالت بری کرنا شروع کر دیا گیا۔ چاہے کالاہانڈی ہو یا پھر بندیل کھنڈ یا پھر تلنگانہ، پانی کے بحران والے ملک کے سبھی علاقوں کی کہانی ایک سی ہے۔ ان سبھی علاقوں میں ایک صدی پہلے تک کئی کئی سو بہترین تالاب ہوتے تھے۔ یہ تالاب صرف لوگوں کی پیاس ہی نہیں بجھاتے تھے، یہاں کی معیشت کی اصل بنیاد بھی ہوتے تھے۔ مچھلی، کمل گٹّا، سنگھاڑا، کمہار کے لیے چکنی مٹی، یہاں کے ہزاروں ہزار گھروں کے لیے کھانا پیدا کرتے رہے۔ تالابوں کا پانی یہاں کے کنوؤں کے پانی کی سطح بنائے رکھنے میں معاون ہوتا تھا۔ شہرآباد کرنے کی زد میں لوگ تالابوں کو ہی پی گئے اور اب ان کے پاس پینے کے لیے کچھ بچا نہیں ہے۔ اگر ملک کی محض پانچ فیصد زمین پر پانچ میٹر اوسطاً گہرائی میں بارش کا پانی جمع کیا جائے تو پانچ سو لاکھ ہیکٹیئر پانی کی کھیتی کی جاسکتی ہے۔ اس طرح اوسطاً فی شخص 100 لیٹر پانی فی شخص پورے ملک میں دیا جاسکتا ہے۔ اور اس طرح پانی جمع کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی سطح پر صدیوں سے معاشرے کی خدمت کرنے والے روایتی پانی کے نظاموں کو تلاش کیا جائے، انہیں سنبھالنے والے، چلانے والے معاشرے کو عزت دی جائے اور ایک مرتبہ پھر معاشرے کو ’پانی سے لبریز‘ بنایا جائے۔ یہ توجہ دینی ضروری ہے کہ زونل علاقے کے روایتی نظاموں کو آج کے انجینئر شاید قبول ہی نہیں کرپائیں، لہٰذا ضروری ہے کہ اس کے لیے معاشرے کو ہی آگے کیا جائے۔ واضح ہو کہ ہمارے آباواجداد نے ملک کے حالات کے مطابق بارش کو سمیٹ کر رکھنے کے کئی نظام ڈیولپ اور محفوظ کیے تھے جن میں تالاب سب سے مقبول تھے۔ گھروں کی ضرورت یعنی پینے کے پانی اور کھانا بنانے کے لیے میٹھے پانی کا وسیلہ کنواں کبھی گھر-آنگن میں ہوا کرتا تھا۔ امیر لوگ عوام کے لیے کنویں بنواتے تھے۔ واٹرہارویسٹنگ کے مقامی اور چھوٹے تجربات سے پانی کے تحفظ میں مقامی لوگوں کے کردار اور بیداری میں اضافہ ہوگا، ساتھ ہی اس سے زیرزمین پانی کا ری چارج تو ہوگا ہی جو کھیت اور کارخانوں میں پانی کی سپلائی کو یقینی بنائے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS