ہندوستانی فوج کے حوصلہ اور عزم سے ہندوستان کی شمالی سرحدیں اب مکمل طور پر پُرامن اور محفوظ ہیں۔ گزشتہ سال جون میں گلوان وادی میں جھڑپ کے بعد ہندوستانی اور چینی فوجیوں نے بغیر کسی اضافی نقصان کے پینگونگ سومیں ڈس انگیجمنٹ کے عمل کو پرا کرلیا ہے۔ حکومت تو اسے ہماری فوج کی کامیابی بتاہی رہی ہے، ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو یہ تسلیم کررہے ہیں کہ یہ ہار کے جبڑے سے جیت نکال لانے والا کرشمہ تھا۔ متنازع علاقہ سے واپس ہوتے چینی فوجیوں اور ٹینکوں کی تصویروں نے دنیا کو یہ سکھایا ہے کہ چین کی توسیع پسندی پر لگام کیسے لگائی جاسکتی ہے۔
کئی لوگوں کیلئے تو یہ ابھی بھی پہیلی بنی ہوئی ہے کہ کورونا دور میں جب گھریلو محاذ پر تمام طرح کی سپلائی چین ٹوٹ چکی تھیں، تب بھی ہماری فوج اسٹرٹیجک ٹھکانوں(Strategic bases) تک ضروری رسد پہنچانے کے ساتھ ہی چین کی چالاکی کا منھ توڑ جواب کیسے دے پارہی تھی؟ اس کا پیغام محض چین تک ہی محدود نہیں رہا، دنیا کے ان تمام حصوں تک بھی پہنچا جو چین کی گھات لگاکر مات(شکست) دینے والی حکمت عملی کے یا تو شکار ہوچکے ہیں یا اس کی کاٹ کی تلاش میں ہیں۔ جو ملک چین سے مقابلہ کی طاقت رکھتے ہیں، وہ کھل کر ہندوستان کی حمایت میں بھی آئے۔ بین الاقوامی حمایت کی قیادت امریکہ نے کی اور اس معاملہ میں ڈونالڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن سمیت امریکی کانگریس نے ایک آواز میں چین کی ’حرکت‘ کو ناقابل برداشت بتاتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ نزدیکی دفاعی تعاون کے ارادہ کا اظہار کیا تھا۔
اس پس منظر کو جاننا اس لیے ضروری ہے، کیوں کہ اب امریکہ نے اس ارادے کو رسمی جامہ بھی پہنا دیا ہے۔ اس ہفتہ امریکہ کی عبوری قومی سلامتی کی حکمت عملی(Interim National Security Strategy) کو جاری رکھتے ہوئے صدرجوبائیڈن نے اس پر قانونی مہر لگادی ہے۔ 24صفحات کے اس دستاویز میں امریکہ نے دنیا میں طاقت کے توازن کو بدلنے کی فکر کے ساتھ چین کو اس کا محرک بتایا ہے اور اس سے مقابلہ کے لیے ہندوستان جیسے اتحادی ممالک کی ضرورت کو اہم بتایا ہے۔ اس دستاویز میں اس کے تائیوان اور ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی حمایت اور شی نجیانگ کے ساتھ تبت میں انسانی حقوق کی پامالی کی مخالفت جیسی امریکی ترجیحات بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں امریکہ ون چائنا پالیسی سے متعلق حمایت پر بھی دوبارہ غوروخوض کررہا ہے۔ واضح طور پر اس سب سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکہ یہ یقینی بنانا چاہتا ہے کہ عالمی ایجنڈا چین نہیں، بلکہ وہ خود طے کرے گا اور یہ دستاویز اس کے ایکشن پلان کی بنیاد تیار کرے گا۔
اس دستاویز سے دو باتیں خاص طور پر نکل کر آئی ہیں پہلی یہ کہ اب امریکہ بھی تسلیم کررہا ہے کہ دنیا یک قطبی نہیں رہ گئی ہے اور دوسری یہ کہ براک اوباما کے وقت شروع کی گئی اس کی ’ایشیا کی دھری‘ بننے کی مہم ہندوستان کے بغیر پوری نہیں ہوسکتی۔ لیکن کیا یہ کوئی نئی شروعات ہے؟ شاید نہیں، لیکن یہ اس حکمت عملی کی عوامی منظوری کی شروعات ضرور ہے، جس پر امریکہ گزشتہ کچھ وقت سے خفیہ طریقہ سے کام کررہا تھا۔ دو ماہ قبل کا وقت یاد کیجیے، جب ہندوستان اور چین کے مابین کشیدگی عروج پر تھی اور امریکہ میں اقتدار کی منتقلی ہورہی تھی۔ اس وقت امریکہ نے ٹرمپ انتظامیہ کے وقت ہندبحرالکاہل کے علاقہ کے لیے تیار کی گئی مبینہ خفیہ رپورٹ کو عام کیا تھا۔ دس صفحات کی اس رپورٹ کا لب لباب بھی یہی تھا کہ چین اس علاقہ میں امریکی اتحاد کو کمزور کرکے خود بڑا پلیئر بننا چاہتا ہے اور فوجی، خفیہ اور سفارتی حمایت سے ہندوستان کو مضبوط بناکر چین کی بڑھتی طاقت کو متوازن کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے لحاظ سے جو بات زیادہ اہم ہے، وہ یہ کہ یہ حکمت عملی محض سوچ بن کر کاغذات میں قید نہیں رہی ہے، بلکہ امریکہ اسے مسلسل عملی جامہ پہنا رہا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں نئی دہلی میں دونوں ممالک کے دفاعی اور خارجی وزراء کی 2+2وزارتی سطح کی میٹنگ اس کا بڑا ثبوت ہے، جس میں بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ یعنی بیکا کے تحت امریکہ نے ہندوستان کی سرحدیں محفوظ رکھنے کی تکنیک شیئر کی تھی۔ اس کے بعد نومبر میں ایل اے سی کی نگرانی کے لیے سی-گارجین ڈرون اور دسمبر میں دنیا کے سب سے بڑے کارگوجہاز ہرکیولس کے ہارڈویئر اور خدمت سے وابستہ خرید پر مہر اسی حکمت عملی کی توسیع تھی۔ نومبر میں ہی سست پڑے کواڈ میں نئی جان پھونکنے کے لیے مالابار میں جنگی مشق ہوئی، جس میں پہلی مرتبہ چاروں ملک ہندوستان، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا ایک ساتھ شامل ہوئے۔ حالیہ اشارہ یہ ہے کہ امریکہ کی چین پالیسی میں کواڈ اب ایک فیصلہ کن کردار میں نظر آسکتا ہے۔ امریکی وزیردفاع اینٹنی بلنکین اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے آزاد اور خوشحال ہند بحرالکاہل کے لیے کواڈ کو ضروری بتا کر اس کا اشارہ بھی کردیا ہے۔ ایسے اشارے بھی ہیں کہ صدر جو بائیڈن اگلے ماہ کواڈ لیڈروں کے ساتھ چوٹی کانفرنس بھی کرسکتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک اہم واقعہ ہوسکتا ہے، کیوں کہ ایل اے سی پر کنٹرول کی بحالی کی قابل ستائش کامیابی کے باوجود سرحدوں کا پرامن نظر آنا سراب جیسا ہی ہوتا ہے۔ سرحدوں کی یہ تقریباً ابدی سچائی ہماری معاشی اور سماجی ترقی کے منصوبوں کے درمیان حائل ہوتی رہی ہے۔ اب تک اس کے لیے پاکستان اکیلا ذمہ دار ہوتا تھا، لیکن ڈوکلام سے لے کر گلوان کے بعد اب چین بھی اس میں حصہ داری کرتا نظر آرہا ہے اور وہ بھی اس حد تک کہ ڈس انگیجمنٹ کے اگلے مراحل میں معمولی سی غلطی بھی دونوں ممالک کو سرحد پر ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے لاسکتی ہے۔
حالاں کہ تحفظ کے ترازو پر ملک کی ہر سرحد کا اپنا خاص ’وزن‘ ہوتا ہے، لیکن مقابلتاً دیکھیں تو ایل او سی کے بجائے ایل اے سی اب زیادہ بڑا ہلچل والا علاقہ بن گیا ہے۔ ویسے بھی پاکستان جس طرح اپنی گھریلو سیاست میں الجھا ہوا ہے، ویسی حالت میں اس کا خود کا مستقبل غیریقینی نظر آرہا ہے۔ چین سے متعلق امریکہ کی نئی پالیسی اس کی مشکلات میں اضافہ کرے گی، کیوں کہ اب اس کے لیے دو کشتیوں کی سواری کرنا آسان نہیں رہ جائے گا۔ بائیڈن انتظامیہ نے واضح اشارے دے دیے ہیں کہ چین سے تعلق فی الحال تلخ رہیں گے اور ان ممالک اور گٹھ بندھنوں کو ترجیح حاصل ہوگی، جو چین کو روکنے میں اس کا ساتھ دیں گے۔ ایسے میں جو امریکہ کی ضرورت ہے، وہ کئی معنوں میں ہماری بھی ضرورت ہے۔ دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی ملک کے اندر خوشحالی لانے کے ساتھ ہی سرحدوں کو محفوظ رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ ان سب کے بیچ بڑی راحت اس بات کی ہے کہ نئی انتظامیہ میں ہند-امریکی تعلقات پر سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور وزیراعظم نریندر مودی کی دوستی کے اثر سے متعلق چھائے شکوک کے بادل بھی امریکہ کی نئی دفاعی پالیسی کے سامنے آنے کے بعد اب پوری طرح چھٹ گئے ہیں۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
رشتوں کی ڈور، نئی مضبوطی کی اور
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS