’آج وہ کل ہماری باری ہے‘

0

صبیح احمد

’چاہ کن را چاہ درپیش‘۔ فارسی کا یہ مقولہ آج کل پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان پر صادق آ رہا ہے۔ عمران خان نے اسلام آباد میں ایک جلسہ کے دوران اپنی جماعت کے رہنما شہباز گل پر مبینہ طور پر ہونے والے تشدد کے معاملے میں دارالحکومت کی پولیس اور مجسٹریٹ کی سخت لہجے میں لعن طعن کرتے ہوئے انہیں دھمکی دی تھی کہ وہ ان کے خلاف کیس کریں گے۔ ان دھمکیوں کے بعد پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے ملک کے میڈیا پر سابق وزیراعظم عمران خان کی تقاریر لائیو نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس حوالے سے پیمرا کی جانب سے ایک تفصیلی نوٹیفکیشن جاری کیا گیاہے جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان اپنی اشتعال انگیز تقاریر میں ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کر کے نفرت پھیلا رہے ہیں اور اس قسم کی تقاریر آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان کی تقریروں پر پابندی دراصل آزادی اظہار رائے پر پابندی ہے، لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان میں کسی سیاستداں کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگائی گئی ہو۔ اس سے قبل الطاف حسین، نواز شریف، مریم نواز، مولانا فضل الرحمن بھی اس طرح کے فیصلے کا سامنا کرچکے ہیں۔ عمران خان پیمرا کی جانب سے پابندی کا سامنا کرنے والے پانچویں سیاسی لیڈر ہیں۔ خود عمران خان کے دور حکومت (2020) میں پیمرا نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی تقریر کی نشریات پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری کے انٹرویوز نشر کرنے پر بھی پابندی لگ چکی ہے۔ نواز شریف کے دور حکومت (2016) میں بھی لاہور ہائی کورٹ نے ریاست مخالف تقریر کے الزام میں متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔آج عمران خان کو ٹھیک اسی طر ح کی صورتحال کا سامنا ہے، جس کا بندوبست خود انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے لیے کیا تھا۔ ان کے سرپر بھی اب گرفتاری اور نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ یعنی جس کنواں کو انہوں نے نواز شریف کے لیے کھودا تھا، اب وہی کنواں ان کا بے صبری سے انتظار کر رہا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمن، نواز شریف، مریم نواز حتیٰ کہ زرداری کے انٹرویو تک آن ایئر ہونے سے روکا جا سکتا ہے اور ان کی تقریر پر پابندی لگ سکتی ہے تو عمران پر کیوں نہیں۔ اس وقت کوئی قیامت نہیں ٹوٹی تو اب کیوں قیامت آئے گی۔ جہاں تک اس طرز عمل کا سوال ہے، یہ کل بھی درست نہیں تھا، آج بھی درست نہیں ہے۔
بہرحال اقتدار کے کھلاڑیوں کی سیاسی جنگ میں ملک کے پہلے سے خستہ حال جمہوری اداروں میں سے ایک اہم ادارہ میڈیا اور اس کی آزادی کو زبردست پامالی کا سامنا ہے۔ پاکستان 2022 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 180 میں سے 157 ویں مقام پر ہے۔ خصوصاً 2018 میں جب سے عمران خان نے اقتدار سنبھالا، پاکستان اس رینکنگ میں 18 پوائنٹس نیچے پھسلا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر پابندیاں لگائی گئیں۔ صحافیوں پر حملے ہوئے، انہیں گرفتار کیا گیا اور ان پر طرح طرح سے پابندیاں عائد کی گئیں۔ میڈیا کی آزادی کو اب بھی جب عمران خان اقتدار سے بے دخل کر دیے گئے ہیں، خطرہ لاحق ہے۔ گزشتہ سال جب سینئر صحافیوں اسد طور اور ابصار عالم پر حملے ہوئے تھے تو اس وقت اپوزیشن کے لیڈر شہباز شریف خود چل کر ان کی عیادت کرنے گئے اور میڈیا کی آزادی کے حوالے سے اپنے عزائم کا اظہار کیا تھا۔ اب وہ ملک کے وزیراعظم ہیں اور ان کی حکومت نے عمران خان کے حامی ایک ٹی وی چینل ’اے آر وائی‘ پر قدغن لگا دیا ہے۔ یہاں تک خود سابق وزیراعظم عمران خان کی تقاریر کی راست نشریات پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ پریس کی آزادی جمہوریت کا ایک اہم اور لازمی ستون ہے۔ ایسی کسی بھی طرح کی جمہوریت کا تصور نہیں کیا جا سکتاجو سماجی اور سیاسی مسائل پر وسیع پیمانے پر تبادلہ خیال کی اجازت نہ دے۔ میڈیا اور صحافیوں کو محدود کرنے اور ان پر دبائو بنانے کی اس طرح کی چالیں ایک ادارہ کے طور پر میڈیا کو نہ صرف کمزور کریں گی بلکہ بالآخر پاکستان میں جمہوریت کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیں گی۔ حالانکہ اس طرح کی پابندیاں آزادی اظہار کی خلاف ورزی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے دور میں ایسی پابندی کا کوئی فائدہ نہیں۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے دور میں جس میں الیکٹرونک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا سبھی موجود ہیں، اس طرح کی پابندیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ انہیں گھیرنے کے لیے حکمراں طبقہ کوئی بھی حربہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا۔ ان کی تقاریر کے راست ٹیلی کاسٹ پر پابندی کے بعد اب ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ بھی درج کر دیا گیا ہے اور انہیں اس معاملے میں عدالت سے ٹرانزٹ ریمانڈ بھی لینا پڑا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں دہشت گردی کے مقدمہ میں 3 دنوں کی ٹرانزٹ ضمانت دی ہے اور انہیں 25 اگست کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی عمران خان کی جانب سے خاتون سیشن جج زیبا چودھری کو دھمکانے کے معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔ عدالت نے اس کے لیے لارجر بنچ تشکیل دے دی ہے۔ ہائی کورٹ کے تمام ججوں نے مشاورت کے بعد عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے پر اتفاق کیا ہے اور عمران خان کو جلد شوکاز نوٹس جاری ہونے کا امکان ہے۔ دراصل عمران خان نے ان کی پارٹی کے سینئر لیڈر شہباز گل کا ریمانڈ دینے والی خاتون مجسٹریٹ زیبا چودھری کو بھی نام لے کر دھمکی دی تھی۔ یعنی عمران خان کو سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرح کسی بھی وقت گرفتارکر کے جیل میں ڈالنے کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ دریں اثنا پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اپنے پارٹی سربراہ کی ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر ملک گیر احتجاج کا انتباہ دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ان کے رہنما ایک ’ریڈ لائن‘ہوں گے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں نے لوگوں سے اپنے اپنے شہروں میں مختلف مقامات پر جمع ہونے اور اسلام آباد پر قبضہ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے پولیس کوسیاسی جنگ کا حصہ نہ بننے کی وارننگ دی ہے۔ عمران خان کی گرفتاری پر اسلام آباد پر قبضہ کر لینے کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں پھر سے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
بہرحال اس طرح کے اقدامات ملک میں آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ یہی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو آزادی اظہار کی چمپئن ہوتی ہیں اور تنقید کو بھی مثبت سمجھتی ہیں لیکن جب حکومت میں آ جائیں تو حکمرانوں کی روش اپنا لیتی ہیں اور پھر انہیں تنقید نہیں صرف تعریف اچھی لگتی ہے۔ چونکہ مائنڈ سیٹ ابھی تک تبدیل نہیں ہوا ہے، اسی لیے عمران خان ہوں، شریف ہوں یا کوئی اور جماعت ہو، ان کی ایک ہی ایپروچ ہوتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS