وقت کرتا ہے پرورش برسوں…

0

زین شمسی

کہنے کو بہت کچھ ہے، مگر کچھ بھی کہنے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ بہت سارے لوگ تھے فیس بک پر، اخباروں میں، الیکٹرانک میڈیا پر جو کہتے بھی رہے اور لکھتے بھی رہے، لیکن جیسے جیسے سخت وقت آتا گیا لوگوں نے لکھنا چھوڑ دیا، کچھ کہنا چھوڑ دیا۔ ایسابالکل نہیں ہے کہ ان لوگوں نے کسی خوف کی وجہ سے خاموشی اختیا رکی ہے، بلکہ ان کی خاموشی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ان کے بولنے اور لکھنے کا نہ ہی معاشرہ پر اثر ہوا اور نہ ہی سیاست پر بلکہ جب انہوں نے دیکھا کہ جھوٹے اور مسخ تاریخی حقائق سچے اور پائیدار سبق کی طرح وہاٹس ایپ سے ہوتے ہوئے درسی کتابوں میں بھی اجاگر ہو نے لگے تو لوگوں نے اپنے قلم کی جنبش پر لگام لگا دی۔ فیس بک خاموش ہے اور اخبارات کے پنے مصلحت پسندی کا لبادہ اوڑھ چکے ہیں۔
چیزیں یکایک نہیں بدلتیں، برسوں اس کی پرورش و پرداخت ہوتی ہے۔ محنت ہوتی ہے اور مقصد ہوتا ہے تبھی زمانہ یکایک کروٹ لیتا ہے۔ صدیوں کی کاوشیں کام آتی ہیں۔تاریخی مقامات کا نام بدلنا، اسٹیشنوں اور شہروں کا نام بدلنا، کتابوں کے نصاب میں بدلائو لانا، حتیٰ کہ تہواروں کا رنگ بدل دینا، یہ سب یکایک کیا ہوا فیصلہ قطعی نہیں ہے، اس کا منصوبہ بہت پہلے بن چکا ہے۔ ابھی رام نومی کا تہوار منایا گیا۔ اس میں جس طرح کے لوگ شامل تھے، جس طرح کے نعرے بلند ہوئے، جس طرح کے ہتھیار لہرائے گئے، کیا یہ ان کے ریتی رواج کا حصہ تھے، نہیں بالکل نہیں تھے۔ شری رام جسے رامائن نے ’مریادا پرشوتم‘ اورعلامہ اقبال نے ’امام الہند‘ کہا، ان کے تیور ہی بدل ڈالے گئے۔ رامائن سیریل میں ارون گوول نے رام کا کردار نبھایا، اس کردار میں کرونا، محبت اور دوسروں کی عزت کا درس تھا۔ شری رام کی مورتیاں اور ان کے پوسٹر فرحت بخش احساس دلاتے تھے مگر اب اچانک ان کے چہرے پر جلال آگیا، ان کے دھنش، وان سے نکلنے کے لیے بیتاب نظر آنے لگے۔ سیتارام کا تصور دھومل ہو گیا اور جے شری رام کا فلک شگاف نعرہ ہندو مذہب کی نئی شکل میں سامنے آیا۔بہت چھوٹے چھوٹے تہوار بڑا آکار لے چکے ہیں۔ یہ سب اگر مذہب کے تئیں سچی عقیدت کے سبب ہوتا تو انتہائی مسرت کی بات ہوتی، مگر یہ سب تبدیلی مذہب کے لیے نہیں بلکہ نفرت کی سیاست میں تیل ڈالنے کے لیے کی جانے لگی۔
ہندوستان کی ترقی و استحکام کی بنیاد جس کثرت میں وحدت کے تصور میں تھی، اب اسی بنیاد کو اکھاڑنے کی ہر سو کوشش جاری ہے۔ ایسے میں امن پسند معاشرہ حیران ہے، کیسے اس طرح کے ماحول سے نجات ملے، اس کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ حیرت اس بات کی ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی دور رواں میں چل رہی سیاست کا حصہ بنتا جا رہا ہے، اس صورتحال سے نکلنے کا کوئی نسخہ سمجھ میں نہیں آتا۔ عدالتوں کے فیصلے بھی چونکانے والے ہوتے ہیں اور میڈیا کے مباحثے تو ڈرانے لگے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ جو کچھ چل رہا ہے اس سے کوئی ایک کمیونٹی ہی اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس سے تمام وہ لوگ پریشان ہیں جو امن کے داعی ہیں، لیکن ان کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے اور وہ کچھ بھی نہیں کر پا رہے ہیں۔ تاہم
کوئی ٹھہرتا نہیں یوں تو وقت کے آگے
مگر وہ زخم کہ جس کا نشاں نہیں جاتا
یہ درست ہے کہ وقت مرحم ہوتا ہے، لیکن وہ ایسے نشان چھوڑ جاتا ہے کہ پھر سب کچھ اچھا ہونے کے باوجود بہت ساری ٹیسیں دے جاتا ہے۔ آج جب پوری دنیا آگے کی طرف دیکھ رہی ہے، ایسے میں بھارت گزشتہ کل کی باتوں کو کریدنے میں مصروف ہے۔ مستقبل کو ماضی کے پیرایہ میں پرونے کی کوشش کہاں تک درست ہے اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا، لیکن جس طرح کی سیاست کا بول بالا ہے، اس سے سماج میں بے چینی تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ بھٹکائو کی راہ بھی استوار ہو رہی ہے۔ ہندوستان کی سیاسی پارٹیاں اپنے وجود کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی حکمراں پارٹی کانگریس بے دست و پا ہے۔ راہل کی شکل میں وہ اس سیاست سے آخری لڑائی لڑ رہی ہے۔ دیگر پارٹیاں کبھی نرم ہوتی ہیں کبھی گرم۔ مایاوتی کا دلت آندولن تقریباً آخری سانسیں لے رہا ہے۔ کمیونسٹ موومنٹ کی دھار کند ہو کر رہ گئی ہے۔ سماج وادی تحریک کے لوگ ہندوتو کی تشہیر کے آگے بدل گئے ہیں۔ امبیڈکر وادی اپنے ملازمتی ریزرویشن کے دفاع میں سرگرم ہیں۔ رہے مسلمان تو اس کمیونٹی میں بھی اتنی تبدیلیاں ہو چکی ہیں کہ وہ انتشار کے دہانے پر کھڑے ہوگئے ہیں۔ اسلام کے داعی اقبال کے شکوہ کے قابل ہی نہیں اور جواب شکوہ کو مذاقیہ انداز میں لینے کے اہل ہو چکے ہیں۔
سیاست نے سماج کی گردن اتنے زور سے کبھی اپنی گرفت میں نہیں لی تھی۔ مضبوط جمہوریت کے لیے عوام کا بیدار ہونا لازمی ہے۔ بیداری آتو گئی لیکن اپنی سمت کھو بیٹھی ہے۔آج سیاست کامرکز و محور صرف مسلمانوں اور اس کی تاریخ کے ارد گرد قائم ہے۔ مسلمانوں کوبرباد اور خاموش کرنے کی سیاست بھارت کو زبردست نقصان پہنچا رہی ہے۔چونکہ دنیا بھارت کو ایک بڑا مارکیٹ تسلیم کرتی ہے، اس لیے اسے کوئی مطلب نہیں ہے کہ بھارت کی سیاست کس نہج پر کام کر رہی ہے، اسے اپنا سامان بھارت میں بیچنا ہے، اس لیے انٹرنیشنل رلیشن میں بھی بھارت کی سیاست پر خاموشی حیران کن نہیں ہے۔ او آئی سی کبھی کبھی احتجاج کرتی نظر آتی ہے، مگر عالمی سیاست میں او آئی سی کا وہی مقام ہے جو بھارت سرکار میں اقلیتی وزارت کا ہوتاہے۔
ایسے میں ضروری ہے کہ اقلیتی طبقہ کو سیاسی نقطۂ نظر سے ایک مضبوط لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ اسے یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ قومی اور علاقائی پارٹیوں میں کون اس کے ساتھ دور تک اور دیر تک کھڑا ہو سکتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اقلیت کو ہمیشہ قومی پارٹی کے ساتھ ہی کھڑا ہونا چاہیے۔ علاقائی پارٹیاں اپنی ذات برادری کی وفا دار ہوتی ہیں۔ ان کا نظریہ محدود ہوتا ہے، وہ اپنی سیاست دور تک نہیں لے جا سکتیں۔یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ جب تک سیاست میں دخل اندازی نہیں ہوتی تب تک سماج کے کسی شعبہ میں سرخروئی نہیں ہوتی۔ آج کا ماحول اسی سیاست کا حصہ ہے کہ جس کے لیے زمینیں بہت پہلے سے تیار کی جا رہی تھیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS