وقت کی قدرحالات کاتقاضہ ہے

0

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ
کمال آدمیت کو داغ دار بنانے اورجوہرِ انسانیت کو بے رنگ و نور کردینے والے اسباب میں ایک جمود و تعطل بھی ہے، جو انسان سے حس و حرکت، جوشِ عمل اورجہدِ مسلسل کو ختم کردیتا ہے۔جمود صرف یہ نہیںہے کہ انسان فکر معاش سے غافل رہے،کھانے کمانے کے جائز وسائل اختیار نہ کرے اور بے وجہ دوسروں کے لیے  بوجھ بنارہے بلکہ یہ چیز بھی جمودمیں داخل ہے کہ آدمی کسب حلال سے فراغت کے بعد کسی دوسری مشغولیت سے جی چُرائے، اپنی ذات کو سنوارنے،باطن کو نکھارنے اور علم و عمل میںدرجۂ کمال حاصل کرنے کے لیے کسی طرح کی کوئی جدوجہد نہ کرے۔یہ تعطل و بے کاری انسانی صلاحیت واستعداد کو ناکارہ کردیتی ہے،قوت فکر وعمل کو فنا کے گھاٹ اتاردیتی ہے، اور عمر نوح پانے کے باوجود بھی انسان اپنے اندر چھپے انمول جواہرکی قیمت وصول نہیں کرپاتا، اور اللہ تعالی کی دی ہوئی صلاحیتوں سے فائدہ نہیںاٹھاتاہے۔
وقت کی اہمیت اورکتاب و سنت: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے جس سے وقت کی بے پناہ اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے سورہ الفجر میںوقت فجر اور عشرۂ ذوالحجہ کی قسم کھائی،سورہ الیل میں رات اور دن کی قسم کھائی، سورۃ الضحیٰ میںچاشت کے وقت اور رات کی قسم کھائی اورسورہ العصر میںزمانہ کی قسم کھائی۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جو مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے درحقیقت ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ اپنی زندگی کے اوقات کو معمولی اورحقیر نہ سمجھو، اس کے ایک ایک لمحہ کا تم سے حساب ہونا ہے۔آ ج ہمارے معاشر ے میں سب سے سستی اور بے قیمت چیز اگر ہے تو وہ نظم و ضبط اور فرصت و فارغ البالی ہے،اس کی قدر وقیمت کا ہمیں قطعاً احساس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے لمحات کی قدر نہ کرنے سے منٹوں ، گھنٹوں، ہفتوں، مہینوں، سالوں اورعمروں کا ضائع کر نا ہمارے لیے بہت آسان ہو گیا ہے۔ اگر زندگی میں وقت کی قدر نہ کی جائے،اسے غفلت، سستی و کاہلی میں گزارتے ہوئے برائی اور شر کی نذر کر دیا جائے تو کل مایوسی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔سورہ الفاطرمیں ارشاد ربانی ہے،قیامت کے دن بندے سے سوال ہوگا: کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا، وہ سوچ سکتا تھا اور (پھر) تمہارے پاس ڈر انے والا بھی آچکا تھا،پس اب (عذاب کا) مزا چکھو، سو ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہ ہوگا‘‘۔ ایک موقع پرحضور اکرمؐ نے فرمایا’’قیامت کے دن بندہ اس وقت تک (اللہ کی بارگاہ میں) کھڑا رہے گا جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے: 1: اس نے اپنی زندگی کیسے گزاری؟ ۔2: اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟۔ 3: مال کہاں سے کمایا اور کیسے خرچ کیا؟۔4: اپنا جسم کس کام میں کھپائے رکھا؟‘‘(جامع ترمذی)۔ اس حدیث میں ہر صاحب ِ ایمان کے لیے یہ تعلیم ہے کہ اس فانی زندگی کے اوقات کو بہت دھیان اور توجہ کے ساتھ گزارے، زندگی کو مرنے سے پہلے غنیمت سمجھے ۔ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا’’اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا سا پودا ہو تو اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ حساب کے لیے کھڑا ہونے سے پہلے اسے لگا لے گا تو اسے ضرور لگانا چاہیے‘‘(مسنداحمد بن حنبل)۔
عامر بن قیس ایک زاہد تابعی تھے،جب ایک شخص نے ان سے کہا :آؤ! بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں!تو انہوں نے جواب دیا کہ پھر سورج کو بھی ٹھہرالو۔ فتح بن خاقان مشہور عباسی خلیفہ المتوکل کے وزیر تھے،وہ اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے تھے اور جب انہیں سرکاری کاموں سے فرصت ملتی تو آستین سے کتاب نکال کر پڑھنے میں لگ جاتے۔ اسماعیل بن اسحاق القاضی کے گھر جب بھی کوئی جاتا تو انہیں پڑھنے میں مصروف پاتا۔ البیرونی کے شوق علم کا یہ عالم تھا کہ حالت مرض میں مرنے سے چند منٹ پہلے وہ ایک فقیہ سے (جو ان کی مزاج پرسی کے لیے آیا تھا)میراث کامسئلہ پوچھ رہے تھے۔علامہ ابن جوزی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک ہزارہے، وہ اپنی عمر کا کوئی لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے تھے،نیز اپنے قلم کے تراشے سنبھال کر محفوظ رکھتے تھے، چنانچہ ان کی وفات کے بعد ان تراشوں سے گرم کردہ پانی سے انہیں غسل دیا گیا۔ وہ اپنے روزنامچے ’’الخاطر‘‘ میں ان لوگوں پر افسوس کرتے ہیں جو کھیل تماشے میں لگے رہتے ہیں، ادھر ادھر بلامقصد گھومتے رہتے ہیں،بازاروں میں بیٹھ کر آنے جانے والوں کو گھورتے ہیں اور قیمتوں کے اتار چڑھاو پرتبادلۂ خیال کرتے رہتے ہیں۔امام فخر الدین رازی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک سو سے کم نہ ہوگی۔ صرف تفسیر کبیر تیس سے زائد جلدوں میں ہے، وہ کہا کرتے تھے کہ کھانے پینے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے میں ہمیشہ اس پر افسوس کرتا رہتا ہوں (ملخص از عملی زندگی:222)۔

موجودہ صورت حال میں ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا ایک نظام العمل مرتب کریں، صبح اٹھنے سے لے کر رات میں سونے تک ہر کام کے لیے ایک وقت اور ہر وقت کے لیے ایک کام طے کریں۔ ساراوقت خواب غفلت میں سوتے رہنے اور سوشل میڈیا وغیرہ پر ضائع کرنے کے بجائے، کتابوں کا مطالعہ،نوافل کی کثرت، تلاوت کلام پاک کا اہتمام، ذکرو اذکار اور توبہ و استغفارکا التزام کریں۔

نظام العمل بنائیں: وقت کی پابندی اور حرکتِ عمل انسان کی زندگی میںبہت اہمیت رکھتی ہے۔ آج وہی قومیں ترقی کی انتہا پر ہیں جنہوں نے وقت کی قدر کی،وقت کی قدر نہ کرنے والی قومیں ناکام اور نامراد رہتی ہیں۔ جو لوگ وقت کی اہمیت سے واقف ہیں وہ اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دیتے اور آج کا کام کل پرنہیں چھوڑتے۔اگر ہم اپنے اِرد گِرد ایک نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ ساری کی ساری کائنات پابندیٔ وقت کی زنجیر میں جکڑی ہوئی ہے، دن اور رات کا اپنے وقت پرنمودار ہونا، چاند اور سورج کا اپنے وقت پر طلوع اور غروب ہونا ،موسموں کاتبدیل ہونا اور کھیتوں میں فصل کا پکنا، سب کے مقررہ اوقات کار ہیں۔ فطرت کے ان تمام عناصر میں کبھی کوئی بے قاعدگی نہیں ہوتی۔ یہ سارا نظامِ کائنات ہمیں وقت کی پابندی کا ہی درس دیتا ہے۔لہٰذا موجودہ صورت حال میں ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا ایک نظام العمل مرتب کریں، صبح اٹھنے سے لے کر رات میں سونے تک ہر کام کے لیے ایک وقت اور ہر وقت کے لیے ایک کام طے کریں۔ساراوقت خواب غفلت میں سوتے رہنے اور سوشل میڈیا وغیرہ پر ضائع کرنے کے بجائے، کتابوں کا مطالعہ،نوافل کی کثرت، تلاوت کلام پاک کا اہتمام، ذکرو اذکار اور توبہ و استغفارکا التزام کریں۔ اس سے ان شاء اللہ حالات بھی درست ہوں گے اور اخروی نجات بھی حاصل ہوگی۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS