اترپردیش میں انتخابی بگل اسی دن بج گیا تھا جس دن الیکشن کمیشن نے 7مراحل میں اسمبلی انتخابات کرانے اور ضابطہ اخلاق کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ رہی بات سیاسی پارٹیوں کی تو وہ گزشتہ ایک برس سے الیکشن کی تیاری کررہی تھیں۔ پارٹیاں روڈ شو اور ریلیاں کررہی تھیں۔ جلسے ہورہے تھے، ممکنہ امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں لوگوں سے مل رہے تھے۔ اب پہلے مرحلے کی پولنگ کے لئے نوٹیفکیشن کے اجرا کے ساتھ انتخابی عمل کا باقاعدہ آغاز ہوگیا جو 10مارچ کو ووٹوں کی گنتی کے ساتھ پائے تکمیل کو پہنچے گا۔اس سے قبل کورونا کے دور میں مغربی بنگال اور دیگر ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے لیکن ملک میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ 5ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی روڈ شو ، انتخابی ریلیوں اور جلسوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ انتخابات لڑنے والی سیاسی پارٹیوں کو بھیڑ جمع نہ کرنے اور ورچوئل ریلی کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ ابھی یہ پابندی 22جنوری تک نافذ ہے۔ اگر کووڈ کے حالات ایسے ہی رہے تو شاید سیاسی پارٹیوں کو ورچوئل انتخابی مہم سے کام چلانا پڑے گا۔ کیونکہ کورونا کے معاملوں کو دیکھتے ہوئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس طرح کے حالات میں انتخابات ہورہے ہیں، یہی بہت بڑی بات ہے۔ ایسی بات نہیںہے کہ سیاسی پارٹیاں اس طرح کی بندشوں سے باخبر نہیں تھیں۔ ان کو بھی پتہ تھا، اسی لئے انتخابات کے اعلان سے پہلے ہی انہوں نے اپنی مہم بڑے پیمانے پر چلائی تاکہ بندشوں کی وجہ سے کوئی کمی نہ رہ جائے۔
دیگر ریاستوں کی طرح اترپردیش میں بھی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے امیدواروں کے ناموں کا اعلان شروع ہوچکا ہے۔ ابھی تک بی جے پی نے 107، کانگریس نے 125، سماجوادی- آرایل ڈی اتحاد نے 36اور بہوجن سماج پارٹی نے 53امیدواروں کا اعلان کیا ہے۔ یہ چاروںریاست کی اہم پارٹیاں ہیں، جن کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا۔ علاقائی پارٹیوں کے امیدوار بھی سامنے آرہے ہیں۔ ذات پات اور مذہب کے اردگرد گھومنے والی ریاست کی انتخابی سیاست کی چھاپ سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کی فہرست پر صاف صاف نظر آرہی ہے۔ بی جے پی اوبی سی کارڈ کھیلتی نظر آرہی ہے۔ شاید اس کی وجہ گزشتہ دنوں کئی اوبی سی لیڈران کا پارٹی سے استعفیٰ اور سماجوادی پارٹی میں شمولیت ہو۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بی جے پی نے اپنی پہلی فہرست میں اوبی سی کو 40فیصد ٹکٹ دیا ہے جبکہ ٹھاکروں اور دلتوں کو 19فیصد، برہمنوں کوصرف 11فیصد ۔ ابھی تک کسی مسلم کو ٹکٹ نہیں دیا ہے۔ دوسری طرف دلتوں کی سیاست کے لئے مشہور بہوجن سماج پارٹی نے 25فیصد ٹکٹ مسلمانوں کو اور 22فیصد دلتوں کو دیا ہے۔ لیکن سماجوادی پارٹی- آر ایل ڈی اتحاد کے 31فیصد امیدوار مسلمان ، 24 فیصد دلت اور اوبی سی صرف 10فیصدہیں، کانگریس نے 36فیصد ٹکٹ دلتوں کو اور 12فیصد مسلمانوںکو دیا ہے۔ برہمنوں کو سبھی پارٹیوں نے کم وبیش یکساں ٹکٹ دیا ہے۔
ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں کوئی پارٹی ڈیمیج کنٹرول کررہی ہے تو کوئی کسی ذات وبرادری یا کمیونٹی کو خوش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ سیاسی پارٹیاں دعوے خواہ کچھ کریں ہر پارٹی ذات ومذہب کی سیاست کرتی نظر آرہی ہے۔ سبھی انتخابی حلقوں میں آبادی کے تناسب اور اپنے حامی رائے دہندگان کا حساب لگاکر امیدواروں کا اعلان کررہی ہیں۔ کوئی کسی ذات وبرادری پر دائو لگارہی ہے تو کوئی مذہب کا کارڈ کھیل رہی ہے۔ ایسے میں انتخابی وعدوںاور منشور کودکھاوا ہی کہا جائے گا۔ اصلی سیاست اور انتخابی حکمت عملی ٹکٹوں کی تقسیم میں نظر آرہی ہے جس کی بات کرنے سے سیاسی پارٹیاں کتراتی ہیں۔ یہی سوچ اور نظریہ لوگوں میں پھوٹ ڈالتا ہے اور وہ اپنے حقیقی مسائل سے بہک جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ حل نہیں ہوپاتے۔ ایسے میں رائے دہندگان کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ اس کھیل کو سمجھیں اوراپنے سیاسی شعور کا استعمال کرکے صحیح امیدواروں کاانتخاب کریں ۔
[email protected]
ٹکٹوں کی تقسیم کا کھیل
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS