عام طور پر دنیا بھر میں لوگوں کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو وہ خریداری کرتے ہیں چاہے کھانے پینے کی چیزیں لیں یا پہننے اوڑھنے کی چیزیں لیں ان کو استعمال کرتے ہیں اور جب وہ چیزيں پرانی ہو جاتی ہیں تو ان کو پھینک کر دوبارہ سے نئی خرید لیتے ہیں-اس کے برخلاف ہمارے ملک میں ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو کہ خریداری تو ضرور کرتے ہیں مگر ان کو استعمال نہیں کرتے ہیں بلکہ چیزوں کو سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں اور اس طرح سے خود کو بہت ساری خوشیوں سے محروم کر کے ترس ترس کر زندگی گزارتے ہیں اور ایک دن قبر میں جا کر سو جاتے ہیں اور ان کی سنبھالی ہوئی چیزيں دوسرے لوگ یا تو غریبوں میں بانٹ دیتے ہیں یا پھر مزے سے استعمال کرتے نظر آتے ہیں-
: نئے کپڑے الماریوں کی زینتگھر میں پرانے دو رنگ کے کپڑے پہنے اکثر خواتین نظر آتی ہیں اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہوتا ہے ان کے پاس اچھے اور نئے کپڑے نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ خوبصورت ترین ملبوسات کی مالکن یہ خواتین وہ نئے کپڑے سنبھال سنبھال کر رکھتی ہیں تاکہ کسی فنکشن کے موقع پر یا دعوت میں یا لوگوں کے سامنے پہنیں گی اور اکثر الماری میں لٹکے لٹکے یہ کپڑے آؤٹ آف فیشن ہو جاتے ہیں اور دل بھر کر ان کو پہننا بھی نصیب نہیں ہوتا ہے-
خوبصورت ڈنر سیٹ شوکیس کے لیے:گھر میں چائے کے لیے سستے مٹی کے مگ یا پھر رنگ برنگی پلیٹوں میں کھانا کھانے والے افراد کے خوبصورت ترین ڈنر سیٹ شو کیس کی زینت بننے کے لیے ہوتا ہے- یہاں تک کہ جہیز کا مہنگا ڈنر سیٹ نسلوں تک چلتا ہے- ماں اپنا ڈنر سیٹ اپنی بیٹی کو جہیز میں دیتی ہے اور بیٹی اس کو اپنی بیٹی کے لیے سنبھال کر رکھ لیتی ہے جبکہ خود پرانے ٹوٹے پھوٹے برتنوں میں ساری عمر کھاتے رہتے ہیں-
مشروبات کی خالی بوتلیں بھی نہیں پھینکتے:متوسط طبقے کے ان لوگوں کو چیزوں کو سنبھالنے کی اتنی عادت پڑ جاتی ہے کہ وہ مشروبات کو پینے کے بعد اس کی خالی بوتلیں کچن میں تھیلوں میں بھر بھر کر سنبھال کر رکھتے ہیں- جبکہ جام کی خالی بوتلیں بھی جو دنیا بھر کے لوگ کچرے میں پھینک دیتے ہیں ہمارے ہاں اس کو بھی سنبھالنے کا رواج ہوتا ہے پرانے شاپنگ بیگ، کپڑوں کے پرانے ٹکڑے، یہ سب چیزیں کچن میں کہیں نہ کہیں چھپی ہوئی سنبھالی ہوئی پڑی ہوتی ہیں اور ان کو کچرا کہہ کر گرانے کی ہمت کسی میں نہیں ہوتی-
تحائف خود استعمال نہیں کرنے:ایک اور کمزوری جو متوسط طبقے میں پائی جاتی ہے وہ کسی کے دیے ہوئے تحفے کو اس خیال سے سنبھالتے ہیں کہ کسی دوسرے کو دینے کے کام آتا ہے- یہاں تک کہ اگر گھر میں کوئی کیک تحفے کے طور پر لے آئے تو یہ خواتین یہ سوچنے لگتی ہیں کہ اس کیک کو لے جا کر کسی کے گھر چلے جاتے ہیں اور ان کو تحفے کے طور پر دے دیں گے تاکہ پیسے بچ سکیں- یہی حال تحفے میں ملنے والے جوڑوں پرفیوم یہاں تک کہ تسبیح اور جائے نمازوں کا بھی ہوتا ہے-
گوشت قیمہ فریز کر دو:متوسط طبقے کی خواتین کا ایک اور سب سے بڑا مسئلہ ان کی ناک اور عزت کا ہوتا ہے جو کہ فوراً ہی کم ہونی شروع ہو جاتی ہے- یہی وجہ ہے کہ اگر مرد حضرات ایک کلو گوشت پکانے کے لیے لائيں گے تو اس میں سے ایک حصہ خواتین لازمی فریزر کی زینت بنا دیں گی تاکہ کسی برے وقت میں کام آسکے- خود دال کھائیں گی اور کباب فریز کر کے کسی برے وقت کے لیے رکھ لیں گی- پڑوس سے آنے والا حلیم فریز کر لیا جائے گا کیونکہ آج تو اچھا سالن پکا ہے کسی دن سبزی پکے گی تو نکال لیں گی-
بچت اچھی عادت ہے مگر اپنی خوشیوں کی قیمت پر نہیں:یہ تمام باتیں اگرچہ کسی بھی متوسط طبقے کی خواتین کو سگھڑ ثابت کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے مگر اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ خود کو ہر طرح کی خوشیوں سے محروم کر دیں اور سب کچھ چھپا چھپا کر رکھیں اور خود ساری عمر آسائش آرام اچھے کپڑوں اور اچھے کھانوں کے لیے ترستے رہیں-
متوسط طبقہ کی وہ عادات جو انہیں کبھی خوش نہیں ہونے دیتیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS