وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں

0

عبدالعزیز
طلحہ زبیر
مانسہرہ میں انجان راستے پر چلتا جا رہا تھا اور سوچ میں اقبالؒ حاوی تھے کہ سامنے ایک خوبصورت گھر نظر آیا، دیکھا اور ذہن میں یہی آیا کہ یہ ایک کافی امیر شخص کا گھر ہوگا، لیکن اور آگے چلنے سے پہلے میری نظر پڑی تو وہاں ایک قبر تھی، جس کے کتبے پر صلاح الدین کندہ تھا۔ ایک دم رک گیا اور سوچنے لگا کہ اقبال نے کامیابی کا جو معیار بتایا ہے کیا اس شخص نے کیا حاصل کی؟ یا اس کی کامیابی فقط پیسے کی تھی خوبصورت گھر، پیسہ اور ضروریات زندگی کے ساتھ کیا یہ کامیاب ہوا؟ اگر نہیں تو کیا فرق تھا اس صلاح الدین اور امت مسلمہ کے اس صلاح الدین کے درمیان جو کہ دنیا میں اپنا ایک مقام چھوڑ گئے، جن کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا!
وہاں سے واپس چل پڑا، لیکن میرے ذہن میں صلاح الدین اور اقبال دونوں جمع تھے اور میری عقل اس بات کو تسلیم نہیں کر رہی تھی کہ ہم اتنا پیچھے کیوں رہ گئے؟ ہمارے اس زوال کا سبب اقبال نے جو بیاں کیا وہ کچھ یوں تھا کہ ہم نے خودی اور مردِ درویش کی مشکل زندگی چھوڑ کر تن آسانی کی زندگی کو اپنانا شروع کر دیا، اسلاف کی میراث کو بھول گئے تو ’’ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا‘‘
اس میراث کو دوبارہ پانے کیلئے، جس کا نام خودی ہے، اقبال ہمیں شاہیں بننے کا درس دیتے ہیں۔ شاہیں فقط ایک پرندہ ہی نہیں مکمل زندگی کا نام ہے۔
شاہیں کی زندگی میں نہایت اہم پہلو تربیت ہوتاہے، جو کہ اس وقت دنیا فانی سے ناپید ہو رہے ہیں۔ اقبال اسی تربیت کا ذکر کرتے ہیں۔ شاہیں جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی تربیت کیلئے اس کو شاہینوں کے درویش اور بزرگ استاد کے پاس بھیجا جاتا ہے، جو اس کو تربیت دیتا ہے اور وہ تمام اصول سکھاتا ہے جو مرد درویش کا خاصہ ہوتے ہیں۔ اقبال نوجوانوں کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں ؎
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
بوڑھے بزرگ جو اہل علم ہوں، اہل نظر ہوں، امام برحق ہوں، اقبال ان سے علم حاصل کرنے کا کہتے ہیں کہ کسی ایسے نایاب جوہری کو تلاش کرو، جو تمہیں اس طرح تراشے کہ تم اس کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت بن جاؤ، ورنہ اگر تم اس معاشرے کے ایسے شکست خودرہ لوگوں کے پاس جاؤ گے جو زندگی میں فقط پیٹ کی خاطر زندہ ہیں تو وہ تمہیں بھی اپنی طرح کا بنا ڈالیں گے اقبال یہی کہتے ہیں کہ ؎
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کر گسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیاہے رہ رسم شاہبازی
اقبال نے پھر مکتب و مدرسہ پر فرمایا کہ ؎
شکایت ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
آج ہم جس بھی ادارے کا رخ کریں، ہمیں شکست خودرہ استاد جو فقط پیٹ کی خاطر اس مقدس پیشے کو اپنائے ہوئے ہیں، وہ کیا جانیں کہ ہیرا کیسے تراشہ جاتاہے؟ ان کو معلوم نہیں کہ کیسے کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا کرنا ہے؟ وہ فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو کا نعرہ لگاتے نظر آئیں گے یا یورپ کی مشینوں کا سہارا بن جائیں گے۔ اقبال نے ہمیں یہی کہا کہ ؎
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اورہے شاہین کا جہاں اور
اقبال کی حق شناس آنکھ اس چیز کی غمازی کرتی ہے کہ ہم نے اپنی حدود کو محدود کر لیا اور ہم بھول گئے کہ ہمارا جہاں کون سا ہے؟ ہم اس قوم سے تھے، جس نے ’’تاج سر دار‘‘ کو قدموں تلے روند دیا تھا۔ ہم نے اپنے پیٹ کو ملحو ظ خاطر رکھا اور ہم اپنی زندگی کے مقاصد سے ناآشنا ہوتے چلے گئے۔ ہم نے میراث جسے اقبال خودی کا نام دیتے ہیں وہ گنوا دی تو ہم زوال کی پستیوں میں جا گرے۔
ہم نے علم و عمل کی جگہ جب سے ایک کاغذ کے ٹکڑے کو دی۔ جب سے علم وفقہ نوکری کا حصول بن کر رہ گیا تو اللہ نے ہم سے ہماری پہچان بھی چھین لی اور ہمیں محکوم قوموں میں شامل کر دیا۔اقبالؒ ضربِ کلیم میں ہمارے مکتب کی کم نگاہی پر نالاں نظر آتے ہیں کہ ؎
اقبال! یہاں نام نہ لے علم خودی کا
موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات
اقبال کی دور اندیش آنکھ نے مکتب کے حال احوال دیکھ لیے تھے کہ یہاں شاہینوں کو کرگز بنایا جا رہاہے اور اسی پر اقبال نے فرمایا تھا کہ مکتب کے جواں کو کیا خبر کہ خودی کیا چیز ہے۔ کسی مدرسہ یا مکتب میں علم خودی کو پڑھایا ہی نہیں گیا، بلکہ آج بھی کسی ادارے نے اس ضروری موضوع کو شامل نصاب نہیں کیا۔ اس سے اگلے شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ ؎
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات
ان فریب خودرہ شاہینوں کو کیا معلوم کہ ان کی زندگی کیا تھی۔ ان کو بتا نے کی ضرورت نہیں کہ یہ کس غلط راہ پر ڈھکیل دیے گئے ہیں۔ اقبال ہی نہیں اس پر اکبرؒ الہ آبادی بھی فرماتے ہیں کہ ؎
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
تمام دوراندیش آنکھیں اس فرسودہ نظام تعلیم کی کوتاہیاں دیکھ چکی تھیں اور ان کو اپنے الفاظ میں بیان فرما گئیں۔ اگلی نظم میں اقبالؒ نے دوبارہ اسی موضوع کو جاری رکھا کہ ؎
زندگی کچھ اور شے ہے، علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوز جگر ہے، علم ہے سوز دماغ
علم میں دولت بھی ہے، قدرت بھی، لذت بھی
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ
اہل دانش عام ہیں، کم یاب ہیں اہل نظر
کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایا غ
شیخ مکتب کے طریقوں سے کشادہ دل کہاں
کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ
اقبال اس میں علم اور عمل کو علیحدہ کرتے ہیں علم ہونے کے باوجود آپ کی زندگی اگر تڑپ سے خالی ہے تو آپ کے علم کا کوئی فائدہ نہیں، جو آپ کو کچھ کرنے پر مجبور نہ کرے۔ بے شک آپ علم سے دولت اقتدار اور دنیا کی بے شمار چیزیں حاصل کر سکتے ہیں، لیکن آ پ اس سے اپنا سراغ حاصل نہیں کر سکتے، اپنی حقیقت اپنی معرفت کو نہیں جان سکتے، کیونکہ یہاں اہل علم بہت زیادہ ہیں، لیکن اہل نظر بہت کم ہیں اور اس میں کوئی بڑی بات نہیں کہ اہل نظر کی کم یابی نے تمہیں کوئی ایسا استاد ایسا جوہری نہیں دیا جو تمہیں تمہارے ہنر کو جان کر تمہیں اس کے مطابق زندگی گزارنے کے اصول بتا سکے۔ آج کل کی تعلیم کا میعاراس قابل نہیں کہ وہ خودی کو نوجوانوں میں بیدا ر کر سکے، اس نظام تعلیم سے خودی کی بیداری کی امید ایسے کی جاسکتی ہے، جیسے دیا سائی سے بجلی کے بلب کے روشن ہونے کی امید کرنا۔
اقبالؒ کے اشعار کے ساتھ اگر نظام تعلیم کے معیار کو دیکھا جائے تو کتابیں بھی کم پڑ جائیں۔ اس وسیع موضوع کو اک ہی تحریر میں پرونا ممکن نہیں ہمیں فقط عالم جانباز کی میراث کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے ایک بار پھر اسی مقام کی ضرورت ہے، جس کے بارے میں اقبال فرماتے ہیں کہ ؎
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اور
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے میرا مقام اے ساقی
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS