یوگیندر یادو
جس طرح فٹ بال میں گیند پر قبضہ ضروری ہے اسی طرح سیاست میں بھی گیند کس کے قبضے میں ہے یہ کافی اہم ہوتا ہے۔ یعنی جس کے قبضے میں گیند ہوگی وہی چیزیں طے کرے گا۔ راجستھان میں جو سیاسی اتھل پتھل مچی تھی اس کا اثر بھی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ پر نہیں پڑا۔
پچھلے دنوں راہل گاندھی کی وہ تصویر جس میں وہ بھارت جوڑو یاترا کے دوران بارش میں بھیگ رہے ہیںاور تقریر کر رہے ہیں، نے یہ احساس کرا دیا کہ بھارت جوڑو یاترا نے کیا اثرات پیدا کئے ہیں۔ اس تصویر میں راہل گاندھی زبردست بارش کے دوران اسٹیج پر کھڑے ہوکر اپنی تقریر جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہزاروںکی تعداد میں لوگ پلاسٹک کی کرسیوں کو اپنے سرپر رکھ کر تقریر توجہ سے سن رہے ہیں۔ اس تصویر نے وہ سب کچھ سمیٹ لیا جو سیکڑوں خبریں کور نہیں کرپائی ہیں۔ یہ یاترا وائرل نہیں ہوئی مگر یہ تصویر وائرل ہوگئی۔
یہ اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ عوام کے موڈ میں اس یاترا نے کیا تبدیلی پیدا کی ہے۔ بھارت جوڑو یاترا جو معمولی انداز سے شروع ہوئی تھی اور اس کی شروعات 7؍ستمبر کوکنیاکماری سے ہوئی تھی۔ ہم کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ کچھ لوگوں نے جاہل کہا تھا، کچھ نے ناسمجھ قرار دیا تھا اور کچھ نے اندیشوں کا اظہار کیا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ایک سینئر جرنلسٹ نے ہم سے پوچھا تھا کہ کیا واقعی یہ پدیاترا ہے۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اس یاترا میں کیا ہوگا اور اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ کئی لوگ سوال پوچھ رہے تھے کہ کیا واقعی اس یاترا میں کانگریس لیڈر شامل ہوںگے۔ یا یہ کہ راہل گاندھی اس یاترا میں کہیں کہیں بیچ بیچ میں شامل ہوجائیںگے۔ یا وہ پوری یاترا میں شامل رہیںگے۔ کئی لوگ پوچھ رہے تھے کہ کیا یہ یاترا ایک روڈ شو ثابت ہوگی جس میں سیاسی تماشے بازی ہوگی۔ یا اس سے بھی بری درگت بنے گی۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ یاترا میں شامل ہونے سے پہلے میں نے کچھ دوستوں سے ملاقات کی تھی۔ ان لوگوں کو شک تھا۔ انہوںنے پوچھا کہ آپ یاترا میں شامل ہوکر اپنا وقار خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ کانگریس میں شامل نہیں ہورہے ہیں لیکن اس پارٹی سے وابستہ ہونا اپنے آپ میں موت کی دعو ت دینا ہے۔
کچھ تو مثبت ہوگا
میرا کہنا ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کے پہلے مہینے میں ہی کچھ تو تبدیلی رونماہوئی ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس یاترا نے ملک کاموڈ بدل دیا ہے۔ مگر اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس یاترا نے کچھ نہ کچھ تومثبت کیا ہے۔ میں نے یہ بات کئی جگہ سنی ہے۔ اب میں ان چھ نکات کی طرف توجہ دلائوںگا جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ یاترا عام سیاسی تماشے سے الگ ہے۔
میں اس یاترا کو صرف ایک سرگرمی نہیں کہوںگا مگر یہ بہت مثبت ہے اور بہت زیادہ سرگرمی پیدا کرنے والا عمل ہے۔ بہت دن بعد ہندوستان کی سب سے بڑی اپوزیشن سیاسی جماعت نے زمینی سطح پر کوئی بڑا اور سرگرمی والا عمل انجام دیا ہے۔ یہ ایک نئے ایجنڈے کو بنانے کی کوشش ہے۔ جس کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی اس بات کے لئے مجبورہوئی کہ وہ اپنی سرگرمیاں بڑھا دے۔ یہ بھی کوئی محض اتفاق نہیں ہے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اپنے روایتی موقف سے آگے بڑھ کر مسلمان دانشوروںکے ساتھ مذاکرات کے لئے آگے آئی ہے اوراس نے بے روزگاری، غربت اور عدم مساوات جیسے اہم ایشوز کو جویاترا میں اٹھائے گئے ہیں، پر توجہ دینی شروع کی ہے۔ فٹ بال کی طرح سیاست میں بھی جس کے پاس گیند ہوتی ہے وہی سب کچھ طے کرتا ہے اور یہاں تک ہوا کہ راجستھان میں کانگریس کوجو مشکلات پیش آئیں وہ بھی بھارت جوڑو یاترا پراثرانداز نہیں ہوئیں۔
دوسری بات یہ کہ یہ محض ایک یاترا نہیں ہے بلکہ ایک پد یاترا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جہاں پیدل چلنا تہذیبی اور ثقافتی تاروں کو چھیڑنا ہے۔ پدیاترا میں آدمی کوتکلیف ہوتی ہے اور یہ اس کے عزم مصمم کا اظہار ہے۔ اس معاملے میں چاہے کانوڑ یاترا ہو، امر ناتھ یاترا ہو یا نرمدہ یاترا یا ایسے ہی سیکڑوں سوشل اورسیاسی پدیاترائیں جو ہندوستان میں ہوئیں ان سب یاترائوں میں پیدل چلنے والے اور دیکھنے والے ایک دوسرے کے رابطے میں آتے ہیں۔
ایسے حالات میں بظاہر تماش بین یا عوام اس جیسے پروگراموںمیں اپنے آپ کوشریک محسوس کرتے ہیں۔ اس سب سے بالاتر یہ کہ یہ پدیاترا عوام سے جوڑنے کا اور عوام سے مذاکرہ کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔
دوسری بات یہ کوئی مزاحمت نہیں ہے اس میں زمین پر آپ کے قدم ہوتے ہیں اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے جسم میں کتنی طاقت ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کا وجود ہی اس بات پرہے کہ ان کو عوامی حمایت حاصل ہے لہٰذا اس مکتب فکر کے خلاف مزاحمت کا اظہار بھی زمین پر دکھائی دینا چاہئے۔ نکتہ چینی کرنے والے تنہا دکھائی دیتے ہیں لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ عوامی حمایت ہجوم کی طرف سے آتی ہوئی دکھائی دے۔ ہزاروںلوگ جو اس یاترا کے ساتھ مارچ کرتے ہوئے سڑکوں پر دکھائی دے رہے ہیں یہ اپنے آپ میں ایک مضبوط استدلال ہے۔ جب پارلیمنٹ میں سناٹا چھا گیا ہے توآپ کو سڑک پر شورکرنا پڑے گا۔
چوتھی بات یہ کہ اس یاترا میں صرف بھیڑ ہی اکٹھی نہیں کی گئی ہے بلکہ اس یاترا سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی مزاج اور سوچ کیا کہتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس یاترا میں شامل ہونے والے اور یاترا کوحمایت دینے والے زیادہ ترلوگ کانگریس کے ہی ہیں، کانگریس کے لیڈر ہیں اوران میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو الیکشن لڑنے کے لئے ٹکٹ حاصل کرنا چاہتے ہوںگے۔ لیکن بھارت جوڑو یاترا میں تین ریاستوں میں پیدل چلنے کے بعد میں نے محسوس کیا ہے کہ اس میں ہر قسم کے، ہر رنگ کے لوگ شامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تبسم کی قوس وقزح افق پر دکھائی دے رہی ہے۔ ہر تبسم کے معنوںکو سمجھنا مشکل کام ہے۔ مگر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس یاترا نے عوام میں ایک امیدپیدا کی ہے۔ وہ لوگ جوکہ جسمانی طورپر اس یاترا میں شامل ہورہے ہیں اور لوگوں سے ملاقات کررہے ہیں ان کے علاوہ بھی ایک ایسا بڑاطبقہ ہے جو کہ اس کی پذیرائی کرتا ہے اور حمایت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا آئی ٹی سیل اس یاترا کو بدنام کرنے کی بے تحاشہ کوششوں کے باوجود اس میں ناکام ہے۔
پانچویں یہ کہ یہ صرف سیکولرازم کی بات نہیں ہے۔ اس بھارت جوڑو یاترا نے اتحاد اوریگانگت کی ایسے کئی تہیں کھولی ہیں جومختلف انداز سے اتحاد کا مظہر دکھائی دیتی ہیں ۔ آج ہم معیشت کو لاحق کئی ایشوزپر اپنی بات عوام تک پہنچا رہے ہیں۔ راہل گاندھی کی روزمرہ کی تقریریں جن میں وہ ذات، زبان اورمذہب کے خطوط پر آپسی اتحاد کی بات کرتے ہیں وہیں نریندرمودی کی سرکار پر نکتہ چینی کرتے ہوئے مسلمانوںکے تئیں ان کی نفرت کی سیاست کی طرف توجہ دلانے تک محدود نہیں ہیںبلکہ وہ مسلسل اور بڑی شدت کے ساتھ بے روزگاری، مہنگائی،نوٹ بندی ، جی ایس ٹی اور سرکاری کام کاج میں بدنظمی کی طرف بھی عوام کو توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ وہ ان گنے چنے سیاسی لیڈروںمیں شامل ہیں جو ان کے حواری صنعت کاروںکی نکتہ چینی کرتے ہیں۔ اس یاترا سے وہ اثرپڑ رہا ہے جوکہ بہت دن بعد دکھائی دیا ہے۔
یہ صرف کانگریس کی بات نہیں ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کو بہت ساری سیاسی تحریکوں، تنظیموں، عوامی دانشوروں اور بہت سارے ایسے شہریوں کی طرف سے حمایت مل رہی ہے جن کا کانگریس سے کوئی لینا دینانہیں ہے۔ (راقم الحروف ان شہریوںمیں شامل ہے جس کا کانگریس سے کوئی لینا دینا نہیں رہا ہے۔) وہ لوگ جو ماضی میں کانگریس کی حمایت نہیں کرتے تھے اس مرتبہ کانگریس کے ساتھ آگئے ہیں اور اس کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں۔ اس کو کانگریس کے ساتھ تعلق یا کانگریس قیادت کے تئیںوفاداری نہ سمجھا جائے۔ یہ بھارت جوڑو یاترا نے جو جذبہ پیدا کیا ہے اس کا اظہار ہے اوریہی اس یاترا کی اخلاقی نبض ہے۔
منگل کے روز میں نے ان دوستو ں سے ملاقات کی جنہوں نے مجھے اس یاترا میں شامل ہونے سے قبل آگاہ کیا تھا۔ مگر اس دفعہ وہ کچھ پرامن دکھائی دیے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ ’’کچھ توہورہا ہے۔ ‘‘ ان کے چہرے پر یہ تبسم ہزاروں الفاظ سے بہتر طریقے سے حقیقت بیان کر رہی تھی۔ میں نے کہا ہاں مجھے اتفاق ہے۔لیکن یہ جب تک ہے کہ اس سمندر کی تہہ میں اٹھنے والی لہربڑے طوفان میں نہ بدل جائے۔ ابھی پکچر باقی ہے۔
(مضمون نگار سوراج انڈیا کے بنیادگزار اور سیاسی تجزیہ نگار ہیں)