انل پرکاش جوشی
مانسون نے پھر کروٹ لے لی ہے۔ محکمہ موسمیات کا یہ دعویٰ کہ اس مرتبہ بہتر درجہ کا مانسون ملک کو ملے گا، دھرا کا دھرا رہ گیا۔ بہار میں کہیں سیلاب کی حالت پیدا ہوگئی ہے تو دہلی، پنجاب میں لوگ بارش کے لیے ترس رہے ہیں۔ اصل میں مانسون سائنس ایک پیچیدہ عمل ہے اور حساس مسئلہ بھی۔ سب کچھ آسان سا لگتا ہوگا، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔ اس مرتبہ ہی کہاں محکمہ موسمیات کی باتیں سچ ہوسکیں؟ اس کے اسباب سے متعلق قومی-بین الاقوامی سطح پر تمام طرح کی ریسرچ ہوتی رہی ہیں۔
ابھی حال ہی میں امریکہ کے محکمہ توانائی کے نارتھ ویسٹ نیشنل لیباریٹری کے محققین نے اپنی ریسرچ میں پایا کہ 1979سے لے کر 2019کے دوران بہت تیزی سے گرین ہاؤس گیسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ واضح طور پر یہ بھی سمجھ لیجیے کہ گزشتہ 150برسوں میں، جب سے صنعتی انقلاب ہوا ہے، دنیا میں کاربن ڈائی آکسائڈ میں 30فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ مانسون پیٹرن کو متاثر کرتا ہے۔ اس کا راست اثر درجہ حرارت پر پڑتا ہے، جس سے ٹراپیکل علاقوں میں بارش کا بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ اس مرتبہ ہوا ہے۔
اب ہمارا پانی کا مینجمنٹ دیکھئے۔ ایک طرف ملک گرمیوں میں پانی کی زبردست کمی جھیلتا ہے تو دوسری طرف مانسون میں سیلاب اور جگہ جگہ پانی جمع ہونے کا ہنگامہ رہتا ہے۔ یہ انسان کی سوچ و پالیسی سازوں کی ناسمجھی کی بہت بڑی مثال ہے کہ ہم دونوں ہی حالات میں پانی پانی کرتے ہیں۔ اگر ہمیں پانی کو پانا ہے تو اپنی روایات کے ساتھ منسلک ہوکر ہم اس کا بہتر مینجمنٹ کرسکتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم قدرتی مینجمنٹ و ماحولیات کو مسترد نہ کریں اور اپنے پانی کے راستہ کو مضبوط کریں۔ ہمیں اپنی پانی کی پالیسیوں پرپھر سے غور کرنا ہی ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ پانی ہے تو زندگی ہے اور زندگی ہے تبھی جہان ہے۔
جب جب کن ہی وجوہات سے فضائی آلودگی ہوتی ہے اور نمی پڑتی ہے، تب تب اس کا مانسون کے رُخ پر اثر پڑتا ہے اور آخر میں یہ وقت پر بارش نہ ہونے جیسا اثر دکھاتا ہے۔ عموماً یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ شہر آہستہ آہستہ برسات کے پانی سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ دہلی کو ہی بطور مثال لیجیے۔ اچانک بارش کے علاوہ مانسون کے نقطہ نظر سے بھی دہلی میں بہت بارش نہیں ہوتی۔ اگر آج پورے ملک کا سروے کرلیں تو یہی معلوم ہوگا کہ شہر مانسونی بارش سے محروم ہوچکے ہیں۔ سبب واضح ہے کہ جیسی ہلچل، ٹرانسپورٹیشن، تعمیراتی کام شہروں میں بڑھتے جارہے ہیں، اس کا اثر مقامی درجہ حرارت پر پڑتا ہے اور وہ سب مل کر مانسون کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔
پورے ایشیا کے مانسون کے پیچھے ایک بڑی آسان سی سائنس ہے۔ یہاں گرمیوں میں خاص طور سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے، جس کے سبب سمندر میں بھاپ بنتی ہے اور یہی ایک بڑے دباؤ کے ساتھ ان علاقوں میں پہنچتی ہے جہاں کم دباؤ ہے۔ پہلے مغربی گھاٹ ، اس کے بعد پورے ملک اور پھر ہماچل میں یہ مانسون پہنچتا ہے، جہاں اونچی پہاڑیوں میں برف کی شکل میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ مانسون جنوبی ہندوستان سے مختلف علاقوں کا تقریباً 4000کلومیٹر کا سفر کرتا ہے۔ اسی سفر کے دوران مقامی ہلچل کے سبب یہ بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ دوسری طرف انٹارکٹیکا براعظم (Antarctica continent)بھی ہمارے مانسون پر راست اثر ڈالتا ہے۔
ہماری زراعت بنیادی طور پر مانسون پر ہی منحصر ہے۔ یہ تقریباً 70فیصد کسانوں کو راست متاثر کرتا ہے اور دنیا میں تقریباً 2.5ارب لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں، وہاں مانسونی بارش 4,000 کلومیٹر کا سفر کرتی ہے اور اوسطاً 1,170ملی میٹر پانی زمین پر گراتی ہے(جو بہت بڑی مقدار ہے)، اور اس کا ایک بڑا حصہ سیدھے ندیوں اور سمندر میں چلا جاتا ہے، مگر باقی کا بچا پانی، جسے ہمیں سنبھال کر رکھنا چاہیے، ہم اسے بھی سنبھال نہیں پاتے کیوں کہ ہم نے فطرت اور سائنس کے راستے پانی کو سنجونے کا کام نہیں کیا۔ ہمیں جاننا چاہیے کہ قدرت نے ہمیں پانی کا مینجمنٹ دیا تھا۔ چھوٹے بڑے گڑھے، کنویں اور تالاب اس کے لیے معقول تھے۔ آج صورت حال اس حد تک تبدیل ہوچکی ہے کہ ہم اس مینجمنٹ کو سمجھنے میں پوری طرح ناکام ہیں۔
اب ہمارا پانی کا مینجمنٹ دیکھئے۔ ایک طرف ملک گرمیوں میں پانی کی زبردست کمی جھیلتا ہے تو دوسری طرف مانسون میں سیلاب اور جگہ جگہ پانی جمع ہونے کا ہنگامہ رہتا ہے۔ یہ انسان کی سوچ و پالیسی سازوں کی ناسمجھی کی بہت بڑی مثال ہے کہ ہم دونوں ہی حالات میں پانی پانی کرتے ہیں۔ اگر ہمیں پانی کو پانا ہے تو اپنی روایات کے ساتھ منسلک ہوکر ہم اس کا بہتر مینجمنٹ کرسکتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم قدرتی مینجمنٹ و ماحولیات کو مسترد نہ کریں اور اپنے پانی کے راستہ کو مضبوط کریں۔ ہمیں اپنی پانی کی پالیسیوں پرپھر سے غور کرنا ہی ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ پانی ہے تو زندگی ہے اور زندگی ہے تبھی جہان ہے۔
(مضمون نگار ماہرماحولیات ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)