تیسرا محاذ :بی جے پی کی جیت کی راہ آسان کرے گا

0

شاہد زبیری
2024کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے ملک کی چار اہم صوبائی اسمبلیوںمدھیہ پردیش،راجستھان ،چھتیس گڑھ اور کرناٹک کے انتخابات رواں سال میں ہونے ہیں لیکن ابھی تک بی جے پی کیخلاف اپوزیشن جماعتوں کا کو ئی محاذ تشکیل نہیں ہو پایا۔اس کی ضرورت کا احساس تو سامنے آتا رہا لیکن کوئی نتیجہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ،بی جے پی مخالف محاذ کی کوشش یوں تو بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنر جی کر چکی ہے اور تلنگانہ کے وزیراعلیٰ چندر شیکھر رائو بھی اس ایشو پر اپوزیشن جماعتوں کو مدعو کر چکے ہیں ،بہار کے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے اس مقصد کیلئے دہلی میں اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کی تھی جبکہ 18 فروری 2023کو بہار میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( مالے ) کے کھلے اجلاس میں بہار کے جہاندیدہ سیاستداں اور وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اسٹیج سے یہ مسئلہ زور وشور سے اٹھایا تھا ،اسٹیج پر موجود غیر بی جے پی لیڈروں جن میں کانگریس کے لیڈر سلمان خان بھی شامل تھے ان کی موجودگی میں بشمول کانگریس ایک مضبوط اپوزیشن محاذ کی بات کی تھی اور اس کی گیند کانگریس کے پالے میں ڈالدی تھی کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعت ہو نے کے ناطے کانگریس کو یہ فیصلہ کرناہے کہ 2024 کا کیاانتخابی روڈ میپ تیّار کیا جا ئے اور اس کیلئے کیا سیاسی حکمت عملی اختیار کی جا ئے انہوں نے اس اجلاس میں یہاں تک پیش گوئی کردی تھی کہ اگر اپوزیشن جماعتوں کا کوئی طاقتور محاذ وجود میں آتا ہے تو بی جے پی 2024کے پارلیمانی انتخابات میں محض 100سیٹوں پر سمٹ جائے گی۔بعد ازاں کانگریس کے رائے پور کے 85ویں سہ روزہ اجلاس کے آخری دن جو سیاسی قرارداد پیش کی گئی اس میں بھی بی جے پی مخالف محاذ کی گونج صاف سنا ئی دی تھی اس قراداد میں کانگریس نے ’اکیلا چلو‘کی پالیسی ترک کئے جانے کی منشا ء ظاہر کی تھی ۔سیاسی قرار داد میں صاف کہا گیا تھا کہ یکساں نظریات والی جماعتوں کے ساتھ کانگریس اپوزیشن محاذ کی تشکیل چا ہتی ہے ۔یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ نتیش کمار نے اپوزیشن محاذ کی بابت ایک تجویز یہ بھی پ کھلے دل سے پیش کی تھی کہ محاذ کی کمان کانگریس کے ہاتھ میں رہے اور وزیر اعظم کا کوئی چہرہ انتخابات سے پہلے پیش نہیں کیا جا ئے سیٹوں کی تعداد اور سیاسی طاقت کے لحاظ سے یہ مسئلہ انتخابات کی کامیابی اور حکومت سازی کے موقع پر چھوڑ دینے کی بات صاف طور پر کہی تھی اپوزیشن کی ان تمام کوششوں سے یہ امید بڑھی تھی کہ ملک میں ہو نے والے صوبائی انتخابات سے پہلے پہلے اپوزیشن کا محاذ تشکیل پا جا ئے گا لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘یہ ابھی تک ممکن نہیں ہو پایا شمال مشرقی ریاستوں کے انتخابات میں گر چہ بی جے پی کو اپنے دم پر وہ کامیابی نہیں ملی جس کا وہ ڈھول پیٹ رہی ہے اور اس کا ہمنوا میڈیا جس طرح بغلیں بجا رہا ہے یہ ضرور ہے کہ جس محاذ میں بی جے پی شامل ہے اس محاذ نے کا میابی حاصل کی ہے ایک طرح سے دیکھا جا ئے تو ان ریاستوں کی علاقائی پارٹیوں نے کا میا بی حاصل کی ہے اس کو مودی یا بی جے پی کی کامیابی نہیں کہا جا سکتا ۔
چار صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمانی انتخابات سے پہلے جس طرح ای ڈی اور سی بی آئی اپوزیشن لیڈروں کے پیچھے پڑی ہے اس سے ظاہر ہے کہ ان ایجنسیوں کی ڈور کہیں اور سے ہلا ئی جا رہی ہے ان چھاپوں اور ریڈ کا ایک ہی مقصد ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کی سیاسی شبیہ کو مجروح کیا جا سکے اسی لئے ان ایجنسیوں کی کار کردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں اور پو چھا جا رہا ہے کہ وجے مالیہ اورنیرو مودی کیخلاف یہ ایجنسیاں کیوں اتنی ایکٹو نہیں ہو ئی یا اب اڈانی گروپ کے معاملہ میں ان کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے ظاہر ہیکہ ان سرکاری طوطوں کی یہ اُڑان سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے زیادہ اور کرپشن کیخلاف کم دکھائی پڑتی ہے لالویادو کے خاندان پر یہ ایجنسیاں کچھ زیادہ مہربان ہیں گو کہ عام آدمی پارٹی کے نائب وزیرِ اعلیٰ منیش سسو دیا اور وزیر صحت ستیندر جین کیخلاف بھی ان ایجنسیوں کی کارروائی کی ہے ۔ مانا جا رہا ہے کہ یہ طے شدہ پالیسی پروگرام کے تحت سنگھ اور بی جے پی عام آدمی پارٹی کو ایک مصنوعی اپوزیشن کے طور پر ابھارنے کیلئے اور ایک تیسرا محاذ وجود میں لانے کیلئے کھیل کھیل رہی ہے ۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ اروند کجریوال یا ان کی جماعت کی طرف سے اپنے دو بڑے وزیروں کو جیل میں بھیجے جانے اور ان کیخلاف کی گئی کارروائی پر کوئی سخت ردِّ عمل سامنے نہیں آیا یا پھر یہ مانا جا ئے کہ اروند کجریوال نے سنگھ اور بی جے پی کی ایماپر ان دونوں وزیروں کو بلی کا بکرا بنا یا ہے ۔اس کو لے کر ایجنسیوں کیخلاف محاذ کھولنے کی بجا ئے اروند کجریوال کر ناٹک میں ریلی کرنے پہنچ گئے اور مدھیہ پردیش کے دنگل میں اتر نے کیلئے لنگوٹ باندھ رہے ہیں اور گجرات میں جو کھیل کھیل چکے ہیں وہ کھیل ان ریاستوں میں بھی کھیلنا چاہتے ہیں۔ کجریوال نے ڈگڈگی تو ہماچل میں بھی بجا ئی تھی لیکن ناکامی ہاتھ لگی ۔ اصولی طور پر تو کہا جا سکتا ہیکہ جمہوریت میں ہر لیڈر کو اپنی جماعت کو فروغ دینے اور انتخاب لڑنیکا اختیار ہے عام آدمی پارٹی کے لیڈر کجریوال کو بھی ہے لیکن یہ اختیار تو اسدالدّین اویسی کا بھی ہے ان کو اور ان کی جماعت کو ہی کیو ں موردِ الزام ٹہرایا جا تا ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے ووٹ کاٹ کر بی جے پی کی راہ آسان کرتے ہیں یہی کام تو اب تک عام آدمی پارٹی اور کجریوال بھی کررہے ہیں۔اصل میں کجریوال جس انّا ہزارے کی تحریک کی پیداوار ہیں وہ تحریک سنگھ پریوار اور بی جے پی کی دین تھی جس کا مقصد بی جے پی کو مرکزی اقتدار کی باگ ڈور سونپنا تھا اور بھارت کو کانگریس مکت بنا نا اور ہندو راشٹر کا قیام تھا یہ دوسرا کام ابھی باقی ہے اسی کیلئے عام آدمی پارٹی کو مصنوعی اپوزیشن کے طور پر ابھارا جا رہا ہے اور ملک کے ہر چھوٹے بڑے انتخاب میں ان کو اتارا جا رہا ہے کجریوال جس پیمانہ پر یہ کام کررہے ہیں اس کیلئے فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے ، کجریوال کانگریس مکت بھارت میں سنگھ اور بی جے پی کی کتنی مدد کر سکتے ہیں یہ تو وقت بتا ئے گا لیکن عام آدمی پارٹی نے خود کو بابائے قوم گاندھی جی سے تو مکت کرہی رکھا ہے پارٹی دفاتر سے لے کر سرکاری دفاتر تک سے گاندھی جی کی تصویر غائب کر دی گئی ہے کجریوال ملک کی کرنسی سے بھی گاندھی کی تصویر کو ہٹانے کا خواب پالے ہوئے ہیں اسی لئے توکچھ دن پہلے کجریوال نے کرنسی پر لکشمی اور گنیش کی تصویر کی تجویز مودی سرکار کے سامنے رکھی تھی ۔کجریوال لوک پال کی بات بھی اب نہیں کرتے اور وہ سب کچھ کررہے ہیں جو سنگھ اور بے جے پی چاہتے ہیں ۔اسی لئے وہ سی اے اے اور این آرسی پر خاموش رہے شاہین باغ کے دھرنے کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا ،دہلی کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کی بجائے گاندھی کی سمادھی پر سمادھی لگا کر بیٹھ گئے ۔
اب کجریوال کے راستہ پر ہی سماجوادی پارٹی کے ڈرائنگ روم لیڈر اکھلیش سنگھ یادو دوڑ لگاتے نظر آرہے ہیںآج ہی کی خبر ہے کہ اکھلیش سنگھ یادو تلنگانہ اور تاملناڈو کے بعد گجرات کے دورہ پر ہیں اور پھر بنگال میں ممتا بنر جی کے مہمان بنیں گے اور 17مارچ سے 19 مارچ تک کولکتہ میں قیام کریں گے ہر چند کہ وہ انتخابات سے قبل کسی بھی محاذ میں شامل ہو نے سے انکار کر چکے ہیں لیکن اس سے پہلے وہ تملناڈو اور تلنگانہ میں میں دگر اپوزیشن لیڈروں کیساتھ اسٹیج ساجھا کر چکے ہیں ان کی اس تگ ودو کو تیسرے محاذ کے قیام کی کوششوں کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے اگر تیسرا محاذ تشکیل پاتا ہے تو یہ بی جے پی کیلئے راحت کا باعث اور کامیابی کا ضامن ہو گا ۔انہی کالموں میں لکھا جا چکا ہے کہ کانگریس جہاں مضبوط ہے وہاں دگر سیاسی جماعتوں کو امیدوار نہیں اتار نے چاہئے کانگریس کی حمایت کر نی چا ہئے اور جہاں کانگریس مضبوط نہیں ہے کانگریس کو اپنے امیداوار نہیں اتانے چاہئے اوربے جے پی کے ساتھ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اور پارلیمانی انتخابات میں مقابلہ آمنے سامنے کا ہو نا چا ہئے اگر ایسا ہوتا ہے تو نتیش کمار کی پیش گوئی سچ ثابت ہو سکتی ہے اگر مقابلہ سہ رخی ہو گا تو بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کر نا کسی بھی جماعت کیلئے ممکن ہی نہ ہو گا ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS