ملک کی18ویں پارلیمنٹ کیلئے ووٹنگ ہونی ہے۔ میدان جنگ سج چکا ہے۔تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سپاہی اس جنگ میں اتار رہی ہیں۔19اپریل سے یکم جون تک 7مرحلوں میں ہونے والی اس انتخابی جنگ کا نتیجہ 4جون 2024کو منظرعام پرآئے گا۔ کامیاب ہونے والے ارکان 17جون2024سے 18ویں لوک سبھا کا حصہ ہوں گے۔نئی حکومت بنے گی، کامیابی کے نت نئے دعوے کیے جائیں گے۔یہی کچھ 17ویں لوک سبھا کیلئے بھی ہوا تھا جس کی مدت کار16جون2024کو ختم ہونی ہے۔ 18 ویں لوک سبھا کیلئے امیدوار منتخب کرنے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ 17 ویں لوک سبھا کیلئے ہندوستان کے لوگوں نے جن افراد کو ووٹ دے کر بھیجا تھا، ان کی کارکردگی کیارہی ہے اور انہوں نے غریب عوام کے مسائل پر کتنے سوالات حکمرانوں سے پوچھے تھے اور کتنی بحث میں حصہ لیا تھا۔یہ جائزہ لینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جمہوریت میں عوام کی نمائندگی کم ہوتی جارہی ہے۔ منتخب ہونے والے ارکان کی اکثریت عوام کی بجائے امرا کے اشرافیہ طبقہ سے آرہی ہے جنہیںعوام کے دکھ درد اور مسائل کا کوئی علم ہی نہیں ہوتا ہے اور نہ وہ جمہوریت میں سماج کے آخری فرد کی حصہ داری کے قائل نظرآتے ہیں۔
کم و بیش 5برس کا عرصہ گزارنے والی سابقہ لوک سبھا نے فقط274دن ہی کام کیا جو کہ ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ میں تمام لوک سبھا میں سب سے کم دن ہیں۔ملک کے پارلیمانی نظام کا قابل اعتماد تجزیہ فراہم کرنے والے رضاکار ادارہ پی آر ایس انڈیا کے پیش کردہ اعدادوشمار کے مطابق 17ویں لوک سبھا میں ارکا ن پارلیمنٹ کی حاضری79فیصد رہی تھی۔اس حاضری میں وزرااور لوک سبھا کے اسپیکر شامل نہیں ہیں۔17ویں لوک سبھا میں10فیصد ارکان ایسے بھی تھے جن کی حاضری60فیصد سے بھی کم رہی۔ایوان میں ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کا جائزہ بتاتا ہے کہ کچھ ریاستیں ایسی بھی رہیںجن کے ارکان پارلیمنٹ نے کوئی سوال کرنا تو درکنار انہوں نے اپنا منہ تک نہیںکھولا، ایسے ہی ارکان پارلیمنٹ میں مغربی بنگال میںآسنسول سے ترنمول کانگریس کے رکن شتروگھن سنہا اور پنجاب کے گرداسپور سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اداکار سنی دیول شامل ہیں۔ اداکار سے سیاست داں بننے والے یہ دونوں ہی لیڈر پانچ برسوںمیں لوک سبھا کی کسی بحث میں نظر نہیں آئے۔ ان کے علاوہ بھی بی جے پی کے پانچ دیگر ممبران پارلیمنٹ، ترنمول کانگریس کے ایک اور بی ایس پی کے ایک رکن پارلیمنٹ نے بھی کسی بحث میں حصہ نہیں لیا۔پی آر ایس کے تجزیہ کے مطابق چھتیس گڑھ کے بی جے پی ایم پی موہن مانڈاوی اور راجستھان کے اجمیر سے بی جے پی کے ہی ایم پی بھاگیرتھ چودھری ایسے ارکان پارلیمنٹ رہے جنہوں نے پانچ برسوں میں ایک بھی میٹنگ نہیں چھوڑی اور تمام274 دن ایوان میں موجود رہے۔ مختلف ریاستوں سے منتخب ہوکر آئے ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات بتاتے ہیں کہ اس فہرست میں مغربی بنگال، بہار اور اترپردیش کا نام ڈھونڈنے سے نہیں ملتا ہے۔ پی آر ایس کے تجزیہ کے مطابق سب سے زیادہ سوالات مہاراشٹرسے منتخب ارکان نے پوچھے اس کے بعد آندھراپردیش، راجستھان، کیرالہ، تمل ناڈو، جھارکھنڈ، کرناٹک، اڈیشہ اور گجرات کا نمبر ہے۔ سیاسی جماعتوں میں سب سے زیادہ سوالات کرنے والی پارٹی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی تھی، اس کے بعد شیوسینا، ڈی ایم کے، وائی ایس آر کانگریس، بی آر ایس، کانگریس، بیجو جنتا دل، بی جے پی، جے ڈی یو اور بی ایس پی تھے۔مرکزی حکومت اور وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسیوں کی سب سے بڑی ناقد کہی جانے والی ترنمول کانگریس اس فہرست سے بھی دور دور ہی رہی ہے۔
لوک سبھا پورے ملک کے منتخب نمائندوں کو ملا کر تشکیل دی جاتی ہے۔ہندوستان میں لکش دیپ سے لے کر اترپردیش تک کے منتخب رکن پارلیمنٹ 70ہزار سے لے کر25لاکھ افراد تک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ توقع کی جاتی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کے افکار وخیالات ان ووٹروں کے خیالات و افکار ہوں گے جن کی وہ نمائندگی کررہے ہیں، یہ ارکان ایوان اپنے ووٹروں کے مسائل پر ایوان کے توسط سے حکومت کی توجہ مبذول کرائیں گے اوران کے حل نکالیں گے۔لیکن جمہوریت کے مقدس ایوان میں منتخب ہوکر پہنچنے والے سیاسی جماعتوں کے نمائندے اگر عوام کے مسائل پر خاموش رہیں، ایوان کی کارروائی سے انہیں کوئی دلچسپی نہ ہوحتیٰ کہ ایوان میں حاضرہونا بھی ان کیلئے مشکل ہورہاہو تو پھر پارلیمانی عمل میں ان لاکھوں ووٹروں کی شرکت کس طرح ہوگی جن کی وہ نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں؟ ایوان میں بحث کے دوران اپنا منہ بھی نہ کھولنے والے شتروگھن سنہا، سنی دیول جیسے ارکان کی پارلیمنٹ میں پھر کیا ضرورت اور افادیت رہ جاتی ہے، فقط یہ کہ وہ اپنی سیاسی جماعت کی عددی برتری کا سبب بنیں؟ کیا ایسے نمائندے اپنے حلقہ کے ووٹروں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کر رہے ہیں؟ کیا ووٹروں کو اس پرغور نہیں کرنا چاہیے؟
[email protected]
ذرا سوچئے !
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS