فضائی آلودگی سے نمٹنے کے اقدامات ضروری: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری
19مارچ 2024کوسوئٹزرلینڈ کی ٹیکنالوجی کمپنی ’آئی کیو ایئر‘ کے ذریعہ جاری کی جانے والی سالانہ عالمی رپورٹ میں برصغیر کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ 2023میںسب سے زیادہ 3آلودہ ممالک کا تعلق برصغیر سے ہے۔فضائی آلودہ ممالک میں بنگلہ دیش پہلے، پاکستان دوسرے، ہندوستان تیسرے، تاجکستان چوتھے اور برکینیا فاسو پانچویں مقام پرہے۔134ممالک کے سروے میں آسٹریلیا، ایسٹونیا، فن لینڈ،گرینیڈا، آئس لینڈ، ماریشس اور نیوزی لینڈ(7 ممالک) ہی ایسے ہیں،جو گاڑیوں،ٹرکوں اور صنعتی سرگرمیوں کے دوران خارج ہونے والے ننھے ذرات کو محدود رکھنے اور عالمی ادارہ صحت کے طے شدہ بین الاقوامی فضائی معیار کی کسوٹی پر کھرا اُترنے میں کامیاب رہے۔ بدقسمتی سے دُنیا کے سب سے زیادہ آلودہ 50 شہروں میں42کا تعلق ہندوستان سے ہے۔رپورٹ کے مطابق بیگو سرائے دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر ہے، جبکہ2022کی فہرست میں بیگوسرائے کا نام بھی نہیں تھا۔ گزشتہ برس دہلی میں پی ایم2.5کی سطح فی کیوبک میٹر میں92.7مائیکروگرام اور بیگوسرائے میں 118.9 مائیکروگرام تھی۔ بیگوسرائے کے بعد گوہاٹی، سیوان، سہرسا، گوشین گاؤں اور کٹیہاروغیرہ پہلے 10آلودہ شہروں میں شامل ہیں۔افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ دُنیا کی سب سے زیادہ آلودہ دارالحکومتوں میں دہلی پہلے مقام پر ہے۔ 2018 سے2023تک دہلی چوتھی مرتبہ سب سے زیادہ آلودہ دارالخلافہ ثابت ہوئی۔2022میں فضائی آلودگی میں ہندوستان آٹھویں مقام پر تھا، جو 2023 میں تیسرے مقام پر آ گیا۔
عالمی سروے رپورٹ میں کسی مقام کی فضا میں خطرناک ذرات کی مقدارکے معیار کا تعین، پھیپھڑوں کو نقصان پہنچانے والے ننھے پی ایم2.5ذرات کے تناسب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔پی ایم،پارٹیکولیٹ میٹر کا مخفف اور 2.5ذرے کا قطر ہے۔ ایک انسانی بال 100 مائیکرو میٹر کا ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ ایک بال کی چوڑائی میں 2.5 قطر کے40ذرات رکھے جا سکتے ہیں۔پی ایم10کے ذرات بڑے ہوتے ہیں۔پی ایم10ان کی سطح 100 مائیکروگرام فی کیوبک میٹراور پی ایم2.5 کی سطح 60 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر کو خطرے سے باہر رکھا گیا ہے۔ اس سے زیادہ سطح نقصان دہ ہے۔ آلودہ ذرات بچوں اور بزرگوں کے پھیپھڑوں میں گہرائی تک داخل ہو کر شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ان سے بچوں کی نشوونما کے علاوہ آنکھ، گلے اور پھیپھڑے وغیرہ متاثر ہوتے ہیں۔مسلسل آلودگی کے سبب پھیپھڑوں کا کینسربھی ہو جاتا ہے۔پی ایم 2.5 کے ذرات اتنے مہین ہوتے ہیں کہ انہیں برہنہ آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔یہ سانس لیتے وقت آکسیجن کے ساتھ پھیپھڑوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ ناک کے قدرتی بال ذرات کو روکنے میں اہم کردار نبھاتے ہیں،لیکن ننھے ذرات اندر چلے جاتے ہیں۔2023میں بنگلہ دیش کا فضائی معیار پی ایم2.5کا اجتماع 79.9مائیکروگرام فی کیوبک میٹر رہا،جو عالمی ادارہ صحت کے طے شدہ معیار سے15گُنا زیادہ ہے۔پاکستان کا فضائی معیار73.7 مائیکروگرام فی کیوبک میٹررہا،جو ڈبلیو ایچ او کے معیار سے14گنا زیادہ ہے۔ ہندوستان کا فضائی معیار 54.4 مائیکروگرام فی کیوبک میٹررہا،جو طے شدہ معیار سے10گنا زیادہ ہے۔ تاجکستان کا فضائی معیار 49 مائیکروگرام فی کیوبک میٹررہا،جو عالمی معیار سے 9گنا زیادہ ہے۔ برکینا فاسو کا فضائی معیار 46.6 مائیکروگرام فی کیوبک میٹررہا،جو ڈبلیو ایچ او کے معیار سے8گنا زیادہ ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق فضا میں پی ایم2.5 ذرات کی تعداد25مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ 2022 کی عالمی فضائی معیار رپورٹ میں131 ممالک، صوبوں اور خطوں کے 7,323 مقامات کا ڈیٹا شامل کیا گیا تھا۔2023میںیہ تعداد134 ممالک، صوبوں اور خطوں میں بڑھ کر 7,812 تک پہنچ گئی۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر برس تقریباً 70 لاکھ افراد آلودگی کے سبب قبل از وقت موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ہندوستان میں 96فیصد یعنی 1.33 اَرب افرادڈبلیو ایچ او کے سالانہ طے شدہ معیار سے7گنا خراب ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ملک کے66فیصد شہروں میں سالانہ پی ایم2.5کی سطح35مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ رہی۔ پی ایم 2.5فضائی آلودگی کی بنا پر دمہ، کینسر،فالج اور پھیپھڑوں کی بیماری سمیت کئی دیگر بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔
فضائی آلودگی کے اثرات عمر کے کس حصے میں پڑتے ہیں،اس کا اندازہ لگانا کافی مشکل ہے۔ آلودگی کی شرح انتہا پر ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ اہل خانہ کو محفوظ مقام پر لے جاسکتے ہیں،لیکن سبھی میں نقل مکانی کرکے محفوظ علاقوں میں جانے کی استطاعت نہیں ہے۔ کئی صاحب حیثیت لوگ اپنے گھروں اور گاڑیوں میں پیوریفائرز کا استعمال کر سکتے ہیں،لیکن یہ کام بھی ہر ایک کی دسترس سے باہر ہے۔ پینے کے پانی کی آلودگی کا کسی حد تک حل نکالا جا سکتا ہے، لیکن فضائی آلودگی کے حوالے سے ہمارے پاس اختیارات نہیں ہیں۔ صحت کے لیے پرائیویٹ اسپتالوں اور بچوں کی تعلیم کے بہتر بندوبست کے لیے نجی تعلیمی اداروں کا رُخ کیا جا سکتا ہے۔بازار سے پینے کا صاف پانی خریدا جا سکتا ہے، لیکن نجی ذرائع سے سانس لینے کے لیے صاف فضا کا حصول بڑامشکل ہے۔اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔گزشتہ کئی برسوں سے دنیا بھر کے ممالک آپسی مشوروں کے بعدآلودگی پر قابو پانے کے اقدام کر چکے ہیں،لیکن ’ آئی کیو ایئر‘ کی رپورٹ کے مطابق زمینی سطح پر کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ 2022میں فضائی آلودگی کے ذمہ دار پی ایم2.5کا اوسط معیارہندوستان میں53.3مائیکروگرام فی کیوبک میٹر تھا،جو2023میں بڑھ کر 54.4 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر ہوگیا۔ یہ عالمی ادارہ صحت کے طے شدہ معیار سے 7گنا سے زیادہ ہے۔ ملک کے96فیصد لوگوں کا زہریلی ہوا میں سانس لینا مسئلے کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔دارالحکومت دہلی کی حالت اور بھی بدتر ہے۔ یہ102.1مائیکروگرام فی کیوبک میٹر کے پی ایم2.5سطح کے ساتھ دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ دارالخلافہ بن گیا۔ اس کے لیے آس پاس کے کسانوں کے ذریعہ جلائی جانے والی پرالی، کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس،سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں کے اخراج اور گھروں میں کھانابنانے کی گیس ذمہ دار ہیں۔ صاف ہوا پروگرام کے تحت مرکزی حکومت نے2026تک سب سے زیادہ متاثر شہروں میں آلودگی کے ذرات کی سطح میں 40فیصد کمی کا ہدف مقرر کیا ہے۔حالاں کہ کوئلے کا استعمال ترک کرکے، صنعتوں کو شہر سے دور لے جاکر، گیسوں کے اخراج پر سخت معیارات نافذ کرکے، معیارات کی تعمیل نہیں کرنے پر بھاری جرمانہ عائد کرکے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو زہریلی گیسوں کا اخراج نہیں کرنے والے ذرائع پر منتقل کرکے فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے،لیکن یہ آسان نہیں ہے۔عالمی موسمیاتی ادارے’اسٹیٹ آف دی گلوبل کلائمیٹ‘ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس گرین ہاؤس گیسوں کی سطح میں جس تیزی سے اضافہ ہوا،اُس نے2023کو گزشتہ174برس کا سب سے گرم ترین سال بنا دیا۔ اقوام متحدہ نے اسے پوری دنیا کے لیے ایک سنگین انتباہ قرار دیا ہے۔گزشتہ 10برسوں میں زمین اور سمندر کے درجۂ حرارت میں اس سے قبل کی دہائی کے مقابلے دو گنا اضافہ ہوا ہے۔اس بنا پر مستقبل میں سیلاب اور خشک سالی کے خطرات سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔اس قسم کے حالات پہلے سے ہی غیریقینی صورت حال کا شکارعالمی معیشت کو تو نقصان پہنچائیں گے ہی، ہماری معیشت کو بھی متاثر کریں گے۔عالمی اوسط درجۂ حرارت میں اضافہ پیرس معاہدے کے ذریعہ طے شدہ 1.5ڈگری سیلسیس کی حد کے بہت قریب آنا خطرے کی جانب اشارہ ہے۔ ہوائیں اور موسم جس خطرناک انداز میں عام زندگی کے خلاف ہو رہے ہیں،اسے دیکھتے ہوئے تمام ممالک کو اپنی ترجیحات میں تبدیلی کے ساتھ دوررس اور جرأت مندانہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS