پروفیسر اسلم جمشید پوری
ہندوستانی عوام کے مزاج کے نشیب و فراز کو جاننا آسان کام نہیں۔پل میں تولہ پل میں ماشا کے مصداق یہاں کے عوام کا مزاج ہر پل تو نہیں بدلتا،مگر بدلتا ضرور ہے۔زندگی کا فلسفہ ہے کہ ایک سا وقت ہمیشہ نہیں رہتا۔اس ملک میں جب اندرا گاندھی ہار سکتی ہیںتو یہاں کی سیاست کا اونٹ کبھی بھی،کسی کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔تین ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات میں بھلے ہی بی جے پی کو کامیابی ملی ہو،یہ بھی تسلیم کہ یہ بہت بڑی جیت ہے اور حریف جماعتیں شکست کھا گئی ہیںمگر ابھی بورڈ امتحان باقی ہیں۔
راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی حکومت تھی جبکہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی سرکار تھی۔انتخابا ت سے قبل،انتخابات کے وقت اور ووٹ شمارہونے سے قبل تک یہ مانا جا رہا تھا کہ اپوزیشن اتحاد ’’ انڈیا‘‘ ان ریاستوں میں زبردست کامیابی حاصل کرے گا۔ گانگریس اور اس کی حلیف جماعتیں کامیابی سے ہمکنار ہوں گی مگر اس کے برعکس ہوا۔بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کو بڑی کامیابی ملی۔اس کی وجہ کیا تھی؟اس کا سب الگ الگ اندازہ لگا رہے ہیں۔انڈیا گروپ کی بھی میٹنگ ہونے والی ہے۔میری نظرمیں اس کی کئی وجوہات ہیں۔اوّل توکانگریس اور انڈیا کی دوسری شریک پارٹیوں کی حد سے زیادہ خود اعتمادی۔اس خود اعتماد ی میں،انہوں نے منفی پہلوئوں پر بالکل دھیان نہیں دیا۔یہ سب اکثریت کے مزاج کو صحیح طور سے سمجھ نہیں پائے۔کم تعداد والوں پر ہی زیادہ محنت کرتے رہے۔ کانگریس جس کی راجستھان اور چھتیس گڑھ میں حکومت تھی،پانچ سال حکومت کرنے کے بعد بھی وہ عوام کا مزاج سمجھ نہیں پائی۔دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ بی جے پی کے حربوں کو کم آنکنے (Underestimate) کی غلطی کی۔جبکہ انہیں اچھی طرح پتہ تھا کہ بی جے پی اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔
یہ بات بھی ہمیں تسلیم کرنی ہوگی کہ بی جے پی کا ڈھانچہ بہت مضبوط ہے۔بوتھ سطح سے لے کر گائوں،شہر،صوبہ اور قومی سطح پر بی جے پی کا نظام بہت اچھا اور طاقتور ہے۔پھر ان کے پاس قومی سطح پر حکومت ہونے کے سبب بہت سی طاقتیں ہیں۔جو کسی بھی ہاری ہوئی بازی کو کسی بھی وقت بدلنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔تیسری سب سے بڑی وجہ یہ بھی رہی کہ کانگریس نے وزیراعلیٰ رہ چکے لوگوں کو ہی آئندہ کا وزیراعلیٰ بنانے کا اعلان کیا۔ان لوگوں کی پانچ سال کی خوبیوں اور خرابیوں (Merits and Demrits )کا عوام پر اثر تھا۔مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ کو آگے رکھا گیا، جن کی سستی اور کاہلی جگ ظاہر ہے۔ایسے میں انتخابات کا ای وی ایم کے ذریعہ ہونا،جلتے پے تیل کا کام کرگیا۔جب تک سب پارٹیاں مل کر الیکشن کمیشن پر بیلٹ پیپر سے انتخابات کرانے کا دبائو نہیں ڈالیں گی،اسی طرح شکست سے دوچار ہوتی رہیں گی۔تھوڑی بہت کامیابی سے پارٹیوں کا ادھر دھیان ہی نہیں جاتا۔اب سماج وادی پارٹی کے ہائی کمان نے بیلٹ پیپر سے الیکشن کرانے کی مانگ کی ہے۔ چوتھی وجہ یہ بھی رہی کہ جو سیاسی جماعتیں دوسرے صوبوں میں اپنا اثرنہیں بھی رکھتی ہیں،صرف خود کو قومی سطح کی پارٹی بنانے کے لالچ میں اپنے امیدوار اتار دیتی ہیں،ان کا ہارنا تو طے ہوتا ہے مگر وہ کئی بار دوسروں کی شکست کی وجہ بنتی ہیں۔پانچویں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان آج تک کانگریس کو معاف نہیں کر پایا ہے۔مسلمانوں اور پچھڑے طبقوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کانگریس کو مزید قربانیاں دینی ہوں گی،انہیں اپنانا ہو گا اور ان کے دکھ درد میں شریک ہو نا پڑے گا۔ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی پڑے گی۔ساتھ ہی الیکشن کمیشن سے کہنا ہوگا کہ جس طرح ایگزٹ پول پر انتخابات ہونے تک پابندی ہے،ٹھیک اسی طرح انتخابات ہونے تک مرکزی حکومت کے ذریعہ ملک گیر سطح کی عوامی فلاحی اسکیموں کے اعلان پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے۔ کسی بھی ریاست میں انتخاب ہو، انتخابی ضابطۂ اخلاق اس ریاست پر تو لاگو ہو، مرکزی سرکار کا کسی بھی فلاحی اسکیم کا اعلان بھی ضابطۂ اخلاق میں آنا چاہیے، جس کا اثر اس ریاست میں بھی پڑتا ہے۔
کانگریس کی دو صوبوں پر حکومت تھی،دونوں صوبے گئے اور ایک نیا صوبہ تلنگانہ مل گیا۔ملک کے ایک بڑے خطے راجستھان،مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ پر بی جے پی کا قبضہ ہوگیا۔ پہلے سے ہی اترپردیش، اتراکھنڈ، ہریانہ، ہماچل پردیش،گجرات، مہاراشٹر، آسام وغیرہ بی جے پی کے پاس ہیں۔ایسے میں2024کا عام انتخاب سر پر ہے۔ تین چار مہینے ہیں۔ان میں تیاری ہو سکتی ہے۔بس کانگریس کو ہمت سے کام لینا ہوگا۔ علاقائی پارٹیوں کو اپنے اپنے علاقے پر خاص توجہ دینی ہوگی اور مل کر ’انڈیا‘ کی طاقت کو مضبو طی فراہم کرنی ہوگی۔ہار کے آگے جیت ہوتی ہے، بس شرط یہ ہے کہ امید کادامن نہ چھوڑیں اور ہار سے سبق لیں۔ہر وقت جیتنے والوں کے سر جیت کا نشہ چڑھ جاتا ہے، جیسے گزشتہ دنوں ہماری کرکٹ ٹیم کسی سے نہیں ہاری اور فائنل میں ہار گئی۔ آگے سیاست کا فائنل ہے۔جیت کے لیے ہار کامزہ چکھنا ضروری ہے۔
2024 اتناآسان نہیں ہے۔’انڈیا‘ کی طاقت،اتحاد ہی میں ہے۔جتنی جماعتیں ’انڈیا‘ میں شامل ہیں،کانگریس ان میں ایک ڈور کی طرح ہے، جو مالا بنانے کے لیے ضروری ہے۔کانگریس پر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ’انڈیا‘ میں اتحاد رہا تو پھر 2024 میں کانٹے کی ٹکر ہوسکتی ہے،ورنہ اقبال نے بہت پہلے کہا تھا:
’ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں‘
آج سوال صرف سیاسی فتح و شکست کانہیں ہے، بلکہ ملک کی شبیہ بچانے کا ہے۔یہ ہر اس شخص کی ذمہ داری ہے،جسے اپنے وطن کی رنگا رنگی سے پیار ہے، جسے اپنے وطن کی سیکولر امیج سے عشق ہے، جو اس ملک کو ایسا باغ تصور کرتا ہے جس میں طرح طرح کے رنگ اور خوشبو کے پھول ہیں۔مشترکہ تہذیب اس ملک کی پہچان ہے۔ہمیں اس ملک کی شبیہ کو ایک رنگ میں رنگنے سے بچانا ہوگا۔
اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کا سفر آسان نہیں،سماج وادی پارٹی،عام آدمی پارٹی اور دیگر کے تیور اچھے نہیں۔ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ میں شامل پارٹیوں کو بھی ایسے صوبے میں اپنا امیدوار نہیں اتارنا چاہیے،جہاں ان کا اثر نہ ہو۔کانگریس کو بھی قربانی دے کر سب کو ساتھ ملانا ہوگا،ساتھ ہی دوسرے لوگوں کو بھی ’انڈیا‘ میں شامل کرنا ہو گا۔کانگریس کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا سامنا ایسے لوگوں سے ہے،جن کا کوئی اصول نہیں، اقتدار ہی سب کچھ ہے۔وہ اس کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ان کے پاس دولت،اقتدار، تمام اونچے عہدے،مذہبی تعصب،سب کچھ ہے۔ان لوگوں کو اقتدار سے بے دخل کرنا ایک خواب جیسا ہے۔مگر یہ یاد رکھیں کہ دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔بس امید،مسلسل محنت،اتحاد اور عوام کے مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔rvr