ڈاکٹر سیّد احمد قادری
’’بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا ہے ،اگر ایسا ہے تو ثبوت پیش کریں‘‘ جی ہاں یہ دعویٰ ہے ہمارے ملک کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا ہے۔ جنھوں نے گزشتہ29 ستمبر2023 ء کو ہُڈسن انسٹی ٹیوٹ، واشنگٹن ڈی سی میں ایک انٹرویو کے درمیان پوچھے گئے سوال کہ ’’آپ کی حکومت دیگر ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کو کیوں ہدف بناتی ہے ۔‘‘ کے جواب میںپیش کیا ہے ۔
دراصل یہ سوال کسی بھی جمہوری ملک کے لئے اتنا چبھتا ہوا اور ندامت سے بھرا ہے کہ جس سے اکثر بھارتی حکومت کے لوگ کترا کر نکل جانا چاہتے ہیں یا سرے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ کوئی روایتی سیاست داں نہیں ہیں بلکہ وزیر بننے سے قبل وہ وزارت خارجہ میں اعلیٰ افسر رہ چکے ہیںاور وہ ا س امر سے بخوبی واقف ہوںگے کہ کس حال میں کوئی سوال وجواب ہوتا ہے تو یہ باتیں حال کے اندرتک محدود نہیں رہتی ہیں بلکہ پر لگا کر اڑتی ہیں۔ اب جب کہ دنیا ایک گلوبل گاؤں میں بدل گئی ہے اور ذرائع ابلاغ عامہ بڑی سرعت کے ساتھ خبریں دنیا کے اس کونے سے دوسرے کونے تک پہنچا دیتا ہے ۔ ایک پرانا محاورہ ہے ہونٹوں نکلی کوٹھوں پہنچی۔ ایسے میں ہمارے وزیر خارجہ نے اتنا بڑا جھوٹ بلکہ سفید جھوٹ کا سہارا کیوں لیا ۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اس جواب سے سوال کرنے والا مطمئن ہو گیا ہوگا اور دنیا کے لوگوں کو ان کے ا س سفید جھوٹ پر یقین ہو گیا ۔ امریکہ ہو یا کسی بھی ملک کا صحافی(اپنے ملک کے گودی میڈیا کو چھوڑ کر) جب کسی ذمہ دار شخص سے کوئی سوال کرتا ہے تو وہ سوال سے قبل پوری طرح تحقیق کر لیتا ہے۔ وزیر خارجہ کو اس موقع پر اتنا تو یاد رہنا چاہئے تھا کہ اسی امریکہ کے کانگریس میں کئی بار ا یسے سوال اٹھائے گئے ہیں اور بھارت کو اقلیتوں کے ساتھ مذہبی منافرت اور حقوق انسانی کی پامالی پرسخت تنبیہ اور تنقید کی گئی ہے ۔ اسی امریکہ میں واقع اقوام متحدہ میں بھی بھارت میں مسلمانوں پر ہو رہے مظالم پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب ہمارے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جو بائیڈن انتظامیہ کے مہمان تھے اور اس موقع پر ہمارے وزیر اعظم نے وائٹ ہاؤس کی روایت کے مطابق پریس کانفرنس سے انکار کر دیا تو بڑی مشکلوں سے وہ صرف دو سوالوں کے جواب دینے کے لئے رضا مند ہوئے تھے اور سوال پوچھنے کا قرعہ امریکہ کے بے حد مقبول اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی معروف صحافی صبرینہ صدیقی کے نام نکلا تھا۔ صبرینہ صدیقی نے اپنا صحافتی فریضہ ادا کرتے ہوئے ہمارے وزیر اعظم سے سوال کیا تھاکہ ’’ آپ کی حکومت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے انسانی حقوق کی بہتری اور اظہار خیال کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے کیا اقدامات کرے گی ؟ ظاہر ہے ہمارے وزیر اعظم جو ہمیشہ پریس والوں کے سوال وجواب کے جھمیلے سے ہمیشہ دور رہتے ہیں، وہ اس اور ایسے غیر متوقع سوال کے لئے بالکل تیار نہیں تھے، لیکن اس وقت جواب تو دینا ہی تھا اس لئے وہ سوال کے جواب میں جو کچھ بول گئے ، وہ کسی بھی طرح سوال کا جواب ہر گز نہیں تھا ۔ امریکہ کی سر زمین پر وزیر اعظم نریندر مودی سے ایسے ’تلخ ‘ سوال کئے جانے پر بھارت کے گودی میڈیا اور اندھ بھکتوں نے زبردست احتجاج اور اعتراض کیا اور بے باک امریکی صحافی صبرینہ صدیقی کو ٹرول کئے جانے کے ساتھ ساتھ ان کی کردار کشی کی جانے لگی ۔ ایسی نا زیبا حرکتوں پر وہائٹ ہاؤس کی جانب سے مداخلت کرتے ہوئے کافی مذمت کی گئی ۔ یوں تو ایسے کئی واقعات ہیں جن کا اکثر ہمارے ملک کے سربراہ کو سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ابھی زیادہ دن نہیںہوئے جب ہمارے ملک بھارت کو جی 20- کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا تھا ۔ اس موقع پر کئی ممالک کے سربراہ تشریف لائے تھے ، لیکن انھیں پریس سے مخاطب نہیں ہونے دیا گیا اور عالمی میڈیا کو بھی دور رکھا گیا ۔ امریکی صدر پر بھی یہ پابندی عائد رہی، لیکن امریکی صدر جو بائیڈن بھارت سے رخصت ہو کر جیسے ہی ویتنام کی دارالحکومت ہنوئی پہنچے ۔ انھوں نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ اپنے دل کا غبار نکالتے ہوئے آخر وہ بات کہہ ہی دی جس سے ہمارے وزیر اعظم خوف زدہ تھے ۔ صدر بائیڈن نے کہاکہ ’’ نئی دہلی میں منعقد ہونے والے جی 20- سربراہی اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی سے مذاکرات کے دوران میں نے ا نسانی حقوق ،پریس کی آزادی اور سِول سوسائٹی کے معاملے اٹھائے تھے ‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت ملک کے اندر بڑھتے اور سلگتے ہوئے جن مسائل کے ذکر سے بچنا چاہتی تھی ، ایسا ممکن نہیں ہوا اور جو بائیڈن نے بھارت میں پنپ رہے غیر آئینی اور غیر انسانی مسائل کو بڑی دانشمندی سے طشت از بام کرتے ہوئے پوری دنیا کے سامنے بھارت کی کریہہ تصویر عیاں کر دی۔ ایسے تلخ حقائق سے چشم پوشی ہمارے ملک کی حکومتوں کی عادت پرانی ہو چکی ہے ۔ جس کی تازہ مثال ہڈسن انسٹی ٹیوٹ، واشنگٹن میں ہمارے وزیر خارجہ کا وہ بے تکا جواب ہے ۔
کیا ہم اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ حکومت کا ایک وزیر سر عام ’’ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ‘‘ کا نعرہ لگاتا ہے ۔ ملک کے پارلیمنٹ کے اندر 21 ؍ستمبر 2023 کو ایک ممبر پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی جس طرح ایک دوسرے مسلم معزز ممبر پارلیامنٹ کنور دانش علی کو ’’ اوئے ملّا، کٹوا ، آتنکوادی‘‘ جیسے نازیبا ہی نہیں بلکہ سڑک چھاپ زبان کے ساتھ مخاطب کرتا ہے اور بی جے پی کے دوسرے ممبران پارلیمنٹ اس جاہلانہ تخاطب پر ہنس کر اس کی ہمت افزائی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ حرکت پارلیمنٹ کے اندر مسلمانوں کے اندر شدید نفرت کا اظہار ہے۔ لیکن افسوس کہ اس شخص کو سزا دینے کی بجائے راجستھان کے ٹونک کا انچارج بنا کر انعام سے نوازا گیا اور اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ایسا ہی ہوا تھا جب پہلی بار دادری میں اخلاق کے گھر میں داخل ہو کر اس کے فریز سے بکرے کا گوشت نکال کر گائے کا گوشت بتاتے ہوئے اخلاق کو شدت پسند تنظیموں کے لوگوں نے پیٹ پیٹ کر ختم کر دیا تھا ۔ اگر اس وقت ہمارے وزیر اعظم اس سانحہ پر خاموش نہیں رہتے اور ایک مذمتی بیان جاری کرکے قاتلوں کو سخت سزا دئے جانے کی بات کرتے تو شاید فرازل ، پہلو خاں ،تبریز انصاری اور جنید وناصر جیسے سیکڑوں بے گناہ مسلم نوجوان ہجومی تشدد کا شکار ہو کر ہلاک نہیں کئے جاتے۔یہ بات بھی نئی نہیں ہے کہ مونو مانیسر جیسے سفّاک مجرمین سے اظہار ہمدردی اور حمایت میں جلسے جلوس بھی نکالے گئے اور مجرموں کا سرغنہ ببانگ دہل یہ کہتا نظر آتاہے کہ ہم گائے اسمگلروں کو مارتے کاٹتے رہیں گے ، کوئی ہمیں اس کے لئے ذمّہ دارٹھرائے یا سزا دے۔ اس قاتل نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ اسے ہریانہ پولیس کا مکمل تعاون حاصل ہے ، جو پوری طرح درست ہے ، یہ بھی کوئی نیا انکشاف نہیںہے، گرچہ ابھی سخت دباؤ اور ہریانہ میں انتخاب قریب ہونے کے باعث اسے گرفتار کیا گیا ہے ۔ کٹھوعہ کی معصوم سی نابالغ بچی آصفہ کے ساتھ مندر کے اندر گینگ ریپ کیا گیا اور پھر اسے تڑپا تڑپا کر مارنے والے مجرمین کے خلاف نفرت اور غم و غصہ کے بجائے ان زانیوں اور قاتلوں کی حمایت میں قانون کے رکھوالوں نے جلوس نکالا تھا ۔ جھارکھنڈ کے ہزاری باغ میں بھی ایسے ہی ہجومی تشدد میں معصوم مسلم نوجوان کو قتل کرنے والے مجرموں کو جیلوں سے رہا کرانے کے بعد پھول مالا ؤںکے ساتھ ان کی عزت افزائی کی گئی تھی ۔ گودھرا فساد کے قاتلوں اور زانیوں کو قید خانے سے آزاد کرا کر انھیں تو ’’سنسکاری‘‘ ہی ’’گھوشت ‘‘ کر دیا گیا ہے۔ مساجد کے میناروں پر بھگوا پرچم لہرایا جا رہا ہے اور پولیس کھڑی دیکھ رہی ہے، مساجد کے نمازیوں کو نماز کے دوران زد وکوب کیا جارہا ہے ، پیش اماموں اور مؤذنوں کو سر عام گالیاں دی جارہی ہیں ، ان سے زبردستی جے شری رام کا نعرہ لگوایا جا رہا ہے ، نعرہ نہیں لگانے پر ان کی داڑھیاں نوچی جا رہی ہیں ، ان کی پٹائی کی جا رہی ہے ۔ اسکولی ٹیچر اپنی گندی اور متعصب ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئے کلاس کے دوسرے بچوں سے ایک بچے کو صرف ا س لئے پٹواتی ہے کیونکہ وہ بچہ مسلم ہے، چلتی ٹرین میں ٹرین کا محافظ مسلم مسافروں کو اپنی بندوق کا نشانہ بنا کر قتل کرتا ہے ، لو جہاد، حجاب کے نام پر منافرت پھیلائی جا رہی ہے ، بلڈوزروں سے مسلمانوں کے مکانات منہدم کئے جا رہے ہیں ، اتر پردیش ، گجرات ، دہلی ، مدھیہ پردیش اور آسام وغیرہ ’رام راج‘ والی ریاستوں میںہزاروں نوجوان نہ کردہ گناہوں کی سزا کئی برسوں سے قیدخانے میں بھگت رہے ہیں ۔ ایسے واقعات اورسانحات اتنی بڑی تعداد میںہو رہے ہیں کہ صفحہ کا صفحہ سیاہ ہو جائیں گے، لیکن نا انصافی ، حق تلفی ، تعصب ، تشدد ،ظلم و بربریت اور قتل و خون کی ایسی اذیت ناک، دردناک ، المناک اور شرمناک داستاں ختم نہیں ہوگی۔ افسوس کہ ایسے تمام سانحات کی حقیقت سے بخوبی واقفیت کے باوجود ملک کے وزیر خارجہ ملک کے اقلیتوں خصوصاََ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم اورناانصافیوں سے پہلو تہی کرتے ہوئے سفید جھوٹ کا سہارا لینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ان سے کوئی اتنا ہی پوچھے کہ جب آپ کا ملک ایک سیکولر ملک ہے اور آپ کی حکومت مسلمانوں کے ساتھ کوئی تفریق نہیں کرتی تو پھر آپ کی حکومت میں کوئی مسلم وزیر کیوں نہیں ہے؟ آپ کی حکمراںپارٹی بی جے پی میں ایک بھی مسلم ممبر پارلیمنٹ کیوں نظر نہیں آتا؟ یہ ایسے سوالات ہیں ، جس کے جواب میں انھیںخفّت اٹھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ حکومت کے لوگ بیرون ممالک جا کر حقائق سے چشم پوشی نہ کریں بلکہ آدھا ہی سچ بتا کر خود کو رسوا نہ کریں۔ ملک کی بدنامی تو روز ہی ہر سطح پرہو ہی رہی ہے ۔
[email protected]