کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں: شاہنواز احمد صدیقی

0

شاہنواز احمد صدیقی

جیسا کہ اندیشہ ظاہر کیاجارہاتھا کہ سوڈان کے موجودہ بحران اور بدترین خانہ جنگی کے پس پشت کچھ نظرنہ آنے والی طاقتیں کارفرما ہیں جو اس زرخیز سرزمین کو تباہ وبرباد کرنے پر آمادہ ہیں۔ ان صفحات میں قارئین کی اس طرف توجہ دلائی جاچکی ہے کہ مذہبی، نظریاتی اور قبائلی رقابتوں کے پیچھے ایسے گروپ سرگرم ہیں جن کی صنعت وحرفت قتل وغارت گری ،تباہی پر مرکوز ہے۔ یہ عظیم سرزمین جو کہ تقریباً دو دہائیوں تک دارفر میں خانہ جنگی اور قتل عام میں برباد ہوتی رہی آج بھی اسی آتش کدے کی شکل میں جاری ہے جس میں پورا براعظم (افریقہ)تقریباً دہک رہاہے۔
اگرچہ سوڈان میں 15اپریل 2023سے ہی خانہ جنگی پھوٹی تھی مگر باریک نگاہ رکھنے والے ماہرین اورمبصرین سوڈان فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عبدالفتح برہان اور فوج کے ذیلی ادارے ریپڈسپورٹ فورسز (آرایس ایف) کے درمیان کشیدگی اور رسہ کشی کوبہت پہلے سے ہی محسوس کررہے تھے۔ جنرل عبدالفتح برہان اپنے آپ کو مملکت سوڈان کا سربراہ بناکر پیش کرتے رہے تھے۔ بین الاقوامی اداروں اور سفارتی حلقوں میں ملک کی نمائندگی کررہے تھے اور ان کو اسی طرح کا پروٹوکول مل رہاتھا اگرچہ سوڈان میں بڑے بیدار ذہن، دانشور، ماہرین قانون، اقتدار وحکمت کی پروردہ شخصیات جمہوری نظام کی بحالی کے لیے تحریک چلا رہے تھے اور بین الاقوامی سطح پر جمہوری تحریک کی نمائندہ شخصیات کو اپنی بات رکھنے کا موقع فراہم کیا جارہا تھا مگر اس کے باوجود جنرل برہان اپنے آپ کو ڈیفیکٹیو(Defecto) سربراہ مملکت کے طورپر پیش کررہے تھے۔یہی نہیں وہ جنرل برہان عمرالبشیرکو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد ایک عبوری حکومت کے قیام کے لیے سیاسی پارٹیوں اور این جی اوز کے ساتھ الیکشن کو موخر، رد اور بے اثر کرنے کی متوازی کوشش کرتے رہے۔ انھوں نے ملک کے اقتصادی اداروں پر کنٹرول مضبوط کرلیا تھا اور ڈیفنس بجٹ میں اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق اضافہ کرانے کی جستجو کرتے رہے۔ یہ خبریں پہلے سے ہی آرہی ہیں کہ سوڈان میں مذہبی نظریات سے متاثر جنگجوطبقہ کاایک بڑا عسکری گروپ جنرل برہان کے حق میں ہے اور جنرل برہان انہی کی حمایت اور تعاون کی وجہ سے اپنی ہی مرضی کے فیصلے کررہے ہیں۔ ان کو نہ بین الاقوامی رائے عامہ کی فکر تھی اور نہ انسانی حقوق یا جمہوریت سے سروکار تھا۔
سعودی عرب اور امریکہ مسلسل اس بات کے خواہاںہیں کہ جنگ بندی پرعمل ہو اور دونوں فریقوں کے ساتھ جدہ میں مذاکرات کے کئی ادوار چلے مگر ابتدائی اور معمولی کامیابی کے بعد باربار جنگ شروع ہوجاتی ہے۔
ماہرین کاخیال ہے کہ یہ مذہب پسند عسکری گروہ اور بھاڑے کے ٹٹو جو ایک انڈسٹری بن چکے ہیں، یہی عناصر دونوں لیڈروں یا جرنیلوں میں اختلافات اور اس بدترین خانہ جنگی کے لیے ذمہ دار ہیں اور سوڈانی فوج ان مذہبی گروپوں اور بھاڑے کے ٹٹوؤں سے مل کر اس قدر طاقتور اتحاد ہوگیا ہے کہ وہ بہت پہلے سے ہی جدید ہتھیاروں اور بہترین تربیت سے آراستہ لیفٹیننٹ جنرل محمد ہمدان داقلو عرف حمیدیتی کو بالکل اہمیت نہیں دے رہاتھا۔ مگر چند روز قبل مذہب پسند گروپ کے بڑے سربراہ محمد الفاضلی عبدالوحید عثمان کے قتل سے زبردست ردعمل سامنے آیا۔ عبدالوحید عثمان، سوڈان فوج کے ساتھ لڑنے والے ایک مذہبی عسکری گروپ البارہ بن مالک بٹالین کے کمانڈر تھے۔ یہ قتل اس وقت ہوا جب مدرات الشجرہ علاقے میں ریپڈسپورٹ فورسیز (آرایس ایف) سے برسرپیکار عبدالحمید عثمان آئی ایس آئی ایس کے ساتھ قربت رکھتے تھے۔ سوڈان کے مذہبی حلقوں میں عبدالحمید عثمان کی موت کا شدیدردعمل دیکھنے میں آیا۔ سوشل میڈیا پر اس قدر شور مچا کہ ریپڈسپورٹ فورس کو اس کی بابت وضاحت کرنی پڑی اور اس بات سے انکار کیا کہ وہ کسی بھی طریقہ سے جنرل عثمان کی موت میں ملوث نہیں ہے۔
انتہائی پیچیدہ سیاسی اور جنگی معرکہ میں سوڈان کی کئی مذہبی شخصیات نے عبدالحمید عثمان کے قتل کو شہادت قرار دیا۔ ان شخصیات میں قابل ذکر مذہبی رہنما علی قطری، ثناہ حماد اور امن حسین عمر ہیں ان لوگوں کا کہنا ہے کہ شہادت ملک کے وقار کے لیے ہوئی ہے۔
سوڈان میں تقریباً3دہائیوں تک حکومت کرنے والے عمرالبشیرانتہائی متنازع لیڈر رہے ہیں۔ ہیگ کی عالمی عدالت میں دارفرمیں قتل عام کے لیے بدنام البشیر ایک نامعلوم جیل میں بندتھے۔ 2019میں اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے بعد سوڈان کے ارباب حل وعقد بالفاظ دیگر جرنل عبدالفتح نے البشیر کو عالمی عدالت کے حوالے نہیں کیاتھا۔ اس خانہ جنگی کے چھڑنے کے بعد فوراً عمرالبشیر کو چھوڑ دیاگیا اور وہ اب کہاں ہیں، اس بابت کوئی نہیں جانتا مگر ایک طبقہ کاخیال ہے کہ البشیراورجرنل عبدالفتح البرہان کی قریبی رفاقتیں ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے منظور نظر ہیں۔ عبدالحمید عثمان کے قتل کے بعد حالات اس قدر الجھ گئے ہیںکہ آرایس ایف کے سربراہ جرنل حمیدیتی نے آگاہ کردیا ہے کہ ان فوجی گروپ کو ٹارگیٹ کرنے کے پس پشت جنرل عمرالبشیر کو دوبارہ اقتدارمیں لانے کی سازش ہورہی ہے۔ سیاسی گلیاروں میں کچھ ایسی خبریں بھی گشت کررہی ہیں کہ مسلم برادرہڈگروپ یعنی اخوان المسلمین جو القیران کے نام سے عام لوگوں میں مقبول ہے۔برسراقتدار آنے کے لیے کوشش کررہاہے۔ سوڈان کی روح اور قلب میں اسی طرح کے مذہب پسند گروپ سرگرم ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی ناقابل تردید موجودگی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔ جنرل البرہان کو ان گروپوں کی مدد اور حمایت حاصل ہے۔
مذہب پسندگروپوں میں ایک اورنام البارہ بن مالک بریگیڈیئر کا ہے، یہ بریگیڈکافی سرگرم ہے۔ یہ بھی سوڈانی فوج کے جنرل البرہان کے ساتھ لڑرہے ہیں۔ اسلام پسندوں کا کہناہے کہ وہ خارجی طاقتوں کے احکامات کی پیروی نہیں کریں گے اور اپنے حالات، اپنی مرضی،اپنی پسند کے افراد کے ہاتھوں میں سونپیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ اشارہ یہ صرف جمہوری تحریک چلانے والے سیاست دانوں، رضاکاروں اور سرگرم خواتین لیڈروں کے خلاف کھلا فیصلہ ہے۔ خیال رہے کہ سوڈان کی جمہوریت پسندوں کی تحریک میں خواتین پیش پیش ہیں اور وہ اپنی آبادی کے تناسب کے حساب سے سیاسی، قانون ساز اداروں اور انتظامیہ اور جوڈیشری میں حصہ داری چاہتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات فرسودہ اذہان کو پسندنہیں۔جنگ بندی کے قیام میں مذہب پسندوں کی یہی سوچ کارفرماہے کہ اہل سوڈان خارجی طاقتوں کی پیروی نہیں کریں گے اور اپنے فیصلے خود کریں گے۔n
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS