ہنگر انڈیکس میں خامیاں ہیں، لیکن ۔۔۔

پیمانے متنازع ہیں، پھر بھی ہمیں حالات میں بہتری لانے کی ضرورت ہے

0

ریتیکا کھیڑا

امرتیہ سین نے محبوب الحق کے ساتھ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس بنایا تھا۔ ایک مرتبہ سین نے ان سے کہا کہ وہ ’ایک سنگل، ایک عددی پوائنٹر(numeric pointer) بناسکتے ہیں، لیکن وہ بہت خراب ہوگا۔‘ محبوب الحق نے جواب دیا، ’ایسا پوائنٹر بناؤ جو مجموعی قومی پیداوار(جی این پی)(gross national product)جتنا ہی خراب ہو، لیکن زندگی کی خاصیت کے بارے میں اس کے مقابلہ میں زیادہ بتاتا ہو۔‘ سین نے متنبہ کیا کہ ہمیں اسے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ یہی بات گلوبل ہنگر انڈیکس(جی ایچ آئی) پر بھی نافذ ہوتی ہے۔
جی ایچ آئی رینکنگ ہندوستان میں عوام کی توجہ اس جانب کھینچنے کا مناسب موقع ہے کہ بہت سے لوگ اب بھی کھانے کے حق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ جی ایچ آئی اسکور کسی ملک کے چار اشاروں کے نمبروں کا اوسط ہے، جس میں ہر ایک کو برابر اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ اشارے ہیں: ناکافی کیلوریز کا استعمال، ویسٹنگ(وزن کے حساب سے لمبائی)، اسٹنٹنگ(عمر کے حساب سے لمبائی) اور بچوں کی شرح اموات۔
اسٹنٹنگ اور ویسٹنگ کے لیے اس نے 2016 سے 2020کے درمیان کا ڈیٹا استعمال کیا ہے کیوں کہ یہ سالانہ سروے نہیں ہیں۔ ہندوستان کے لیے یہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے(این ایف ایچ ایس)-4کے2015-16کے ڈیٹا پر منحصر ہے۔ حالاں کہ این ایف ایچ ایس-5سروے 2019-20میں کیا گیا، لیکن پہلے مرحلہ کے نتائج ہی دسمبر2020میں جاری ہوئے تھے۔
بھوک کی پیمائش آسان نہیں ہے۔ کچھ ہندوستانی سروے نے بھوک کی پیمائش کے لیے کچھ سوال پوچھے، جیسے کیا لوگ ’بھوکے سونے‘ یا ’کم مرتبہ کھانے‘ یا ’کم کھانے‘ کے لیے مجبور ہیں۔ جی ایچ آئی کے ذریعہ بھوک کے دائرہ میں غذائیت کو بھی شامل کرنے کا خیال خوش آمدید کہنے کے لائق ہے، پھر بھی انڈیکس کے جزو متنازع ہیں۔
جی ایچ آئی کی دیگر حدود بھی ظاہر ہوئی ہیں۔ کتنی آبادی ناکافی کیلوری کا استعمال کرتی ہے، یہ طے کرنے کے لیے ایف اے او(Food and Agriculture Organization of the United Nations)کے ڈیٹا استعمال کرنے میں بہت سے غیرحقیقی تخمینے شامل ہیں۔ اس سال ان رینکنگ تک پہنچنے کے عمل پر توجہ مبذول ہوئی ہے کیوں کہ منسٹری آف وومن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ نے اس عمل کو چیلنج کرتے ہوئے بیان جاری کیا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ جی ایچ آئی کی رپورٹ میں ’زمینی حقیقت اور سچائی نہیں ہے‘، جس کے پیچھے کئی بے ضابطگیاں ہیں۔مثال کے طور پر پہلے اس نے کہا، ’تغذیہ کی کمی کی سائنسی پیمائش کے لیے وزن و اونچائی کی پیمائش کی ضرورت ہوگی، جب کہ یہاں شامل عمل گلیپ کے اس سروے پر مبنی ہے، جو پوری طرح آبادی سے فون پر بات چیت کے ذریعہ کیا گیا ہے۔‘
بیان کا پہلا حصہ درست ہے، لیکن دوسرا حصہ نہیں ہے۔ اسی بیان کے آخری جملہ سے واضح ہوتا ہے کہ ’2020کے مقابلہ میں، دواشاروں، چائلڈ ویسٹنگ اور چائلڈ اسٹنٹنگ پر حالات میں 2021میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔‘
کیا ہمیں ہندوستان کی کم رینک (116 ممالک میں 101ویں رینک) پر تشویش ہونی چاہیے؟ شاید اس کا جواب انہیں دیکھ کر ملے جو ہم سے اوپر اور نیچے ہیں۔ تشدد متاثرہ پڑوسی افغانستان ہم سے دو رینک پیچھے ہے۔ جنوبی کوریا(جو جمہوری نہیں ہے) کی ہم سے بہتر رینک(96) ہے۔ ویسٹنگ میں ہندوستان کی دنیا میں سب سے بری رینک ہے۔ سب سے ضروری بات، اگر صرف غذائیت کی کمی کے مضبوط اشارے اسٹنٹنگ کو ہی دیکھیں تو ہندوستان اسی طرح نچلے پائیدان پر ہے۔
ہندوستان میں بھوک، غذائیت اور صحت کو دہائیوں سے نظرانداز کیا جاتا رہاہے، اس لیے نچلی رینک کوئی راز نہیں ہے۔ بچوں کی غذائیت کے پروگراموں کا بجٹ بہت کم ہے، جن میں 2014کے بعد سے مزید کٹوتی ہوتی رہی ہے۔ کووڈ-19 نے اہم معاشرتی تعاون میں رخنہ پیدا کرکے غذائیت کی حالت مزید بدتر کردی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ پہلے لاک ڈاؤن میں آنگن واڑیوں کے بند رہنے سے صحت اور غذائیت سے وابستہ مداخلتیں/سہولتیں بھی رک گئیں، جن کا وقت سے ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ان کے بند رہنے سے بچوں کی ٹیکہ کاری، زچگی سے قبل دیکھ بھال اور صحت خدمات کی دستیابی میں رکاوٹ آئی۔ ریسرچ اسکالرس جیاں دریز اور وپل پیکرا نے مطالعہ میں پایا کہ پہلے لاک ڈاؤن کے دوران ان خدمات کی دستیابی، پہلے کی(بیس لائن) مدت کے مقابلہ میں بری طرح متاثر تھی۔ بچوں کی ٹیکہ کاری 65-74فیصد پر تھی، زچگی سے قبل دیکھ بھال کے لیے رجسٹریشن 78-80فیصد پر آگئے اور ادارہ جاتی زچگی کی تعداد 71-78فیصد پر تھی۔ واضح ہو کہ غذائیت کے نتائج بچے کی زندگی کے 1000دنوں میں ہی طے ہوجاتے ہیں۔ اس لیے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اور 6برس سے کم عمر کے بچوں تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔ خوش قسمتی سے ہندوستان میں بچوں کی غذائیت کے لیے آنگن واڑیوں اور بچوں کے لیے اسکول میں کھانے کے ذریعہ عوامی فلاح و بہبود کے انتظامات ہیں۔ یہ 20کروڑ بچوں تک پہنچتا ہے اور 80کروڑ لوگوں کے لیے پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم(پی ڈی ایس)ہے۔ اس کا پوری طرح استعمال کرنے کے بجائے، وبا کے دوران یہ زیادہ تر وقت بند ہی رہے۔
پی ڈی ایس کو وسعت دینے، آنگن واڑیوں اور اسکولوں میں ملنے والے کھانے کی کوالٹی میں بہتری لانے، ’پردھان منتری ماتری وندنا یوجنا‘ کے تحت زچگی کے فائدے کو یونیورسل کرنے اور عمل کوآسان بنانے جیسے آسان متبادل پر کام کیا جاسکتا ہے۔ حکومت اب مزید انتظار نہ کرے۔
(مضمون نگار ماہرمعاشیات ہیں اور
آئی آئی ٹی، دہلی میں پڑھاتی ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS