پنکج چترویدی
پنجاب ہریانہ کے گیہوں کسان اس مرتبہ ٹھگا سا محسوس کر رہے ہیں، مارچ کے پہلے ہفتے سے ہی جو گرمی پڑنی شروع ہوئی کہ گیہوں کا دانا ہی سکڑ گیا۔ انڈیان گرین مینجمنٹ اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ٹیم نے ان دونوں ریاستوں کے تقریباً ہر ضلع میں جاکر سروے کیا تو پایا کہ گیہوں کا دانہ کوئی 6 فیصد سکڑ گیا ہے۔ اس سے کل فصل کے وزن میں 10 سے 12 فیصد کی کمی تو آ ہی رہی ہے، کوالٹی کے تقاضے پر دوسرے نمبر پر ہونے سے اس کی قیمت کم مل رہی ہے۔ ادھر گوا میں کاجو کی کاشتکاری کرنے والے کسان بھی بے وقت گرمی سے فصل چوپٹ ہونے پر غمزدہ ہیں۔ گیہوں کے کمزور ہونے کا دائرہ مدھیہ پردیش میں بھی وسیع ہے۔
کشمیر میں ٹیولپ ہو یا سیب پھل-آڑو ہر ایک پر آب و ہوا میں تبدیلی اور عالمی درجۂ حرارت کی مار تیکھی پڑ رہی ہے۔ جنوری 1891 کے بعد یعنی تقریباً 130 سال بعد کشمیر میں مارچ میں اتنی گرمی پڑی ہے۔ اس بار جنوری، فروری میں برف باری بھی کم ہوئی اور مارچ میں برسات برائے نام ہی ہوئی۔ اس کا اثر ہے کہ ملک کی کل سیب پیداوار کا 80 فیصد اگانے والے کشمیر میں 20 سے 30 فیصد کم پیداوار ہونے کا خدشہ ہے۔ یہاں گزشتہ سال 26 لاکھ ٹن سیب ہوا تھا۔ اکیلے سیب ہی نہیں، چیری، آڑو، آلوبخارہ جیسے پھلوں کے بھی گرمی نے چھکے چھڑا دیے ہیں۔ سائنسداں کہتے ہیں کہ شدید گرمی سے سیب کی مٹھاس اور رسیلے پن پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس سال سری نگر کا عالمی شہرت یافتہ ٹیولپ گارڈن طے وقت سے پانچ دن پہلے ہی بند کرنا پڑا، کیونکہ گرمی میں پھول مرجھا گئے تھے۔ یہاں 62 نسلوں کے کوئی ڈیڑھ لاکھ ٹیولپ لگے ہیں جو زیادہ تر 22-25 ڈگری درجۂ حرارت میں ہی زندہ رہتے ہیں۔
اس بات کے لیے اب کمر کسنی ہوگی کہ کھیتی کے لیے سب سے خطرناک چیلنج آب و ہوا میں تبدیلی اور کھیتی کے کم ہوتے رقبے پر کم ہی غوروخوض ہے۔ اب وہ وقت زیادہ دور نہیں جب کسان کے سامنے بدلتے موسم کے برے اثرات اس کی محنت اور معاوضے کے مابین وِلن کی طرح کھڑے نظر آئیں گے۔ حالانکہ گزشتہ کچھ برسوں میں موسم کا شدت اختیار کرنا، بالخصوص اچانک ہی بہت زیادہ برسات ایک ساتھ ہوجانے سے کھڑی فصل کی بربادی کسانوں کو کمزور کرتی رہی ہے۔
وزارت زراعت کی انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ کی ایک حالیہ ریسرچ بتاتی ہے کہ 2030 تک ہماری زمین کے درجۂ حرارت میں 0.5 سے 1.2 ڈگری سیلسیس تک کا اضافہ ہونا لازمی ہے۔ سال درسال بڑھتے درجۂ حرارت کا اثر 2050 میں 0.80 سے 3.16 اور 2080تک 1.56 سے 5.44 ڈگری ہوسکتا ہے۔ واضح ہو کہ درجۂ حرارت میں ایک ڈگری اضافے کا مطلب ہے کہ کھیت میں 360 کلو فصل فی ہیکٹیئر کی کمی آجانا۔ اس طرح آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے کھیتی کے لحاظ سے 310 اضلاع کو حساس تسلیم کیا گیا ہے۔ ان میں سے 109 اضلاع انتہائی حساس ہیں جہاں آنے والی ایک دہائی میں ہی پیداوار کم ہونے، مویشیوں سے لے کر مرغی پروری اور مچھلیوں کی پیداوار تک میں کمی آنے کا اندیشہ ہے۔ درجۂ حرارت میں اضافے سے برسات کی سائیکل میں تبدیلی، بے موسم اور بے وقت بارش، شدید گرمی اور لو، سیلاب اور خشک سالی کی راست مار کسانوں پر پڑنا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار بھی بتاتے ہیں کہ کھیتی پر منحصر روزی کمانے والوں کی تعداد بھلے ہی کم ہو لیکن ان کی آمدنی کا دائرہ سمٹتا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ کبھی خشک سالی تو کبھی برسات کی زیادتی سے کسان دہائیوں تک قرض کے بوجھ تلے دبا رہتا ہے اور تبھی وہ کھیتی چھوڑنے کے لیے مجبور ہے۔
ملک کے معاشی نظام کی اصل بنیاد زراعت ہے اور کورونا بحران میں گاؤں-کھیتی-کسانی ہی معیشت کی امید بچی ہے ۔ آزادی کے فوراً بعد ملک کی جی ڈی پی میں کھیتی کا حصہ 51.7 فیصد تھا جبکہ آج یہ کم ہوکر 13.7 فیصد ہوگیا ہے۔ یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ تب بھی اور آج بھی کھیتی پر منحصر لوگوں کی آبادی 60 فیصد کے آس پاس ہی تھی۔ ظاہر ہے کہ کھیتی-کسانی کرنے والوں کا منافع، معاشی حالت سبھی کچھ دنوں دن خستہ حال ہوتی جارہی ہے۔ زرعی اعتبار سے خوشحال کہے جانے والے ملک میں کسان ہی کم ہو رہے ہیں۔ 2001 سے 2011 کے دوران 10 برس میں کسانوں کی تعداد 85 لاکھ کم ہوگئی۔ 2001کی مردم شماری کے مطابق ملک میں کسانوں کی کل تعداد 12 کروڑ 73 لاکھ تھی جو 2011 میں کم ہو کر 11 کروڑ 88 لاکھ ہوگئی۔ آج بھلے ہی ہم عمدہ پیداوار یا درآمد کی وجہ سے خوراک کے بحران سے پریشان نہیں ہیں لیکن آنے والے برسوں میں یہی صورت حال رہی تو ہم ’سجلام-سپھلام‘ نہیں کہہ پائیں گے۔ کچھ ایک ریاستوں کو چھوڑ دیں تو پورے ملک میں کاشتکاری کا رقبہ کم ہو رہا ہے۔
ہندوستان موسم، زمین کے استعمال، نباتات، حیاتیات کے معاملے میں وسیع اقسام والا ملک ہے اور یہاں آب و ہوا میں تبدیلی کا اثر بھی کچھ سو کلومیٹر کی دوری پر الگ قسم سے ہو رہا ہے لیکن پانی بچانے اور تغذیہ کی کمی اور بھوک سے نمٹنے کی فکر پورے ملک میں یکساں ہے۔ ہمارے ملک میں دستیاب تازے پانی کا 75 فیصد ابھی بھی کھیتی میں خرچ ہو رہا ہے۔ درجۂ حرارت میں اضافے سے پانی کے ذخائر پر منڈلا رہے خطرات کو تو ہمارا معاشرہ گزشتہ دو دہائیوں سے جھیل رہا ہے۔ پروسیڈنگس آف نیشنل اکادمی آف سائنس نامی جرنل کے نئے شمارے میں شائع ایک ریسرچ پیپر کے مطابق ہندوستان کو آب و ہوا میں تبدیلی کے زراعت پر اثرات کو کم کرتے ہوئے اگر تغذیہ کی سطح کو قائم رکھنا ہے تو راگی، باجرہ اور جوار جیسی فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا۔ یہ ریسرچ کولمبیا یونیورسٹی کے ڈاٹا سائنس انسٹی ٹیوٹ نے کیا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ڈاٹا سائنس انسٹی ٹیوٹ کے سائنسداں ڈاکٹر کیلے ڈیوس نے ہندوستان میں آب و ہوا میں تبدیلی کے زراعت پر اثرات، غذائیت کی سطح، پانی کی کمی، کم ہوتی زرعی پیداوار اور زرعی وسعت کے لیے اراضی کی کمی پر گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ ان کے مطابق ہندوستان میں درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے زراعت میں پیداوار کم ہو رہی ہے اور ساتھ ہی غذائی عناصر بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہندوستان کو اگر درجۂ حرارت میں اضافے کے بعد بھی مستقبل کے لیے پانی بچانا ہے اور ساتھ ہی غذائیت کی سطح میں بھی اضافہ کرنا ہے تو گیہوں اور چاول پر انحصار کم کرنا ہوگا۔ ان دونوں فصلوں کو پانی کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور ان سے پوری غذائیت بھی نہیں ملتی۔ ڈاکٹر کیلے ڈیوس کے مطابق چاول اور گیہوں پر حد سے زیادہ انحصار اس لیے بھی کم کرنا پڑے گا، کیونکہ ہندوستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں درجۂ حرارت میں اضافہ اور آب و ہوا میں تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر پڑنے کا اندیشہ ہے اور ایسی صورت حال میں ان کی پیداوار اور غذائی عناصر دونوں پر اثر پڑے گا۔
آب و ہوا میں تبدیلی یا درجۂ حرارت میں اضافے کی بڑی وجہ ترقی کے جدید تصور کے سبب ماحولیات میں بڑھ رہی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار ہے۔ ’ہارورڈ ٹی ایچ چان اسکول آف پبلک ہیلتھ‘ کی تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس سے ہمارے کھانے میں غذائی عناصر کی بھی کمی ہورہی ہے۔ رپورٹ الرٹ کرتی ہے کہ زمین کے درجۂ حرارت میں اضافہ فوڈ سیکورٹی کے لیے دوہرا خطرہ ہے۔ ’آئی پی سی سی ‘ سمیت کئی بین الاقوامی مطالعات میں اس سے زرعی پیداوار کم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اس سے لوگوں کے سامنے خوراک کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ تازہ رپورٹ مزید بڑے خطرے کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ دراصل کاربن کے اخراج سے کھانے میں غذائی عناصر کی کمی ہو رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کاربن کے اخراج میں اضافے کی وجہ سے چاول سمیت تمام فصلوں میں غذائی عناصر کم ہو رہے ہیں۔ اس سے 2050تک دنیا میں 17.5 کروڑ لوگوں میں زنک کی کمی ہوگی، 12.2 کروڑ لوگ پروٹین کی کمی سے متاثر ہوں گے۔ دراصل 63 فیصد پروٹین، 81 فیصد لوہے کے عنصر اور 68 فیصد زنک کی فراہمی پیڑپودوں سے ہوتی ہے، جبکہ 1.4 ارب لوگ لوہے کے عنصر کی کمی سے نبردآزما ہیں جن کے لیے یہ خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔
ریسرچ میں پایا گیا ہے کہ زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی میں اگائی گئی فصلوں میں زنک، آئرن اور پروٹین کی کمی پائی گئی ہے۔ سائنسدانوں نے اپنے تجربات کے ذریعے اس بات کی تصدیق بھی کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پودوں کو بڑھنے میں تو مدد کرتی ہے لیکن پودوں کے غذائی عناصر کی مقدار کو کم کر دیتی ہے۔ یہ رپورٹ ہندوستان جیسے ممالک کو زیادہ ڈراتی ہے، کیونکہ ہمارے یہاں پہلے سے تغذیہ کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
آب و ہوا میں تبدیلی کے اثر کی وجہ سے زراعت پر منڈلاتے خطرات کے تئیں متنبہ کرتے ہوئے ’انٹرنیشنل سینٹر فار ریسرچ ان ایگرو-فاریسٹری‘ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کولوس ٹوپر نے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ آنے والے دن آب و ہوا میں تبدیلی کے بدترین مثال ہوں گے جو زرعی پیداوار پر چوٹ، پانی کے دباؤ، سیلاب، طوفان و خشک سالی جیسے سنگین مسائل کو جنم دیں گے۔ ہندوستان کی تو معیشت کی بنیاد ہی کھیتی-کسانی ہے۔
مختلف ریسرچوں کی بنیاد پر یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ اگر درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے تو پیداوار میں کمی آئے گی۔ اس کے علاوہ بارش پر مبنی فصلوں کو زیادہ نقصان ہوگا، کیونکہ آب و ہوا میں تبدیلی کے اثر کی وجہ سے بارش کی مقدار کم ہوگی جس کی وجہ سے کسانوں کو سینچائی کے لیے پانی دستیاب نہیں ہوپائے گا۔
[email protected]