مسئلۂ فلسطین کوئی عام مسئلہ نہیں!

0

فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی پولیس اور فوج بہانے بہانے سے کارروائی کرتی رہتی ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی پولیس کی کارروائی کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، حیرت اس پر بھی نہیں ہے کہ چند ایک مسلم ممالک نے ہی اس واقعے کی مذمت کرکے رسم مذمت ادا کی اور انسانوں کی آزادی کی باتیں کرنے والے عالمی لیڈران نے لب کشائی کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی۔ یہ سچ ہے کہ دنیا مسئلوں سے بھری پڑی ہے، کئی مسئلے مسئلۂ فلسطین سے بھی پہلے کے ہیں مگر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مسئلۂ فلسطین دیگر مسئلوں کی طرح نہیں، یہ کوئی عام مسئلہ نہیں، کیونکہ فلسطین وہی جگہ ہے جہاں مسلمانوں کا قبلۂ اول مسجد اقصیٰ بھی ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا کا ہر ذی ہوش مسلمان یہ چاہتا ہے کہ مسئلۂ فلسطین کا حل نکلے، مسلمان کو وہاں جانے میں آسانی ہو۔ اسی لیے دو ریاستی حل مسلم دنیا ماننے کے لیے تیار ہو گئی تھی اور 13 ستمبر، 1993 کو امریکی صدر بل کلنٹن کی رہنمائی میں فلسطینیوں کی طرف سے یاسر عرفات اور اسرائیلیوں کی طرف سے اسحاق رابن نے اوسلو معاہدے پر دستخط کرکے یہ امید بندھائی تھی کہ مسئلۂ فلسطین کے حل میں اب کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی مگر پہلے اسحاق رابن کی ہلاکت سے حل کی امید معدوم ہوئی اور پھر یاسر عرفات نے جس طرح جان گنوائی، اس نے حل کی رہی سہی امید بھی معدوم کردی۔
مسئلے کے حل کے لیے اوسلو معاہدے جیسی کوئی بڑی کوشش پھر کبھی نہیں ہوئی۔ جارج ڈبلیو بش کی صدارت میں امریکہ نے پہلے افغانستان اور پھر عراق کے خلاف جنگ چھیڑی، ان جنگوں کو انسانی فلاح کے لیے ضروری بتانے کی کوشش کی تو یہ سوال فطری طور پر اٹھا تھا کہ کیا انسانوں کی بھلائی کے لیے مسئلۂ فلسطین کا حل ضروری نہیں ہے؟ غالباً اسی وجہ سے اپنی صدارت کے آخری دنوں میں جونیئر بش نے بظاہر مسئلۂ فلسطین کو اپنے انداز میں حل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے لیے انہوں نے ایناپولیز کانفرنس منعقد کی۔ اس میں ان کی حکومت نے فلسطینیوں کے نمائندے کے طور پر محمود عباس کو مدعو کیا جبکہ اس پر اعتراض کیا گیا تھا۔ کہا گیا تھا کہ انہیں حماس کے لیڈروں کو بھی مدعو کرنا چاہیے تھا مگر عباس ایک حد تک ہی جھکے۔ جونیئر بش مسئلۂ فلسطین کا حل اپنی مرضی کے مطابق نہیں نکال سکے۔ ان کے بعد براک اوباما امریکہ کے صدر بنے۔ انہیں پہلے ہی امن کا نوبل انعام مل گیا تھا، مسئلۂ فلسطین پر ان کی پالیسی ناقابل فہم رہی۔ وہ ایک طرف اسرائیلی لیڈروں کو زیادہ ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے، دوسری طرف مسئلے کا حل بھی نکالنا چاہتے تھے جو ممکن نہیں تھا اور حل نہیں نکل سکا۔ ان کے بعد امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ بنے۔ انہوں نے اسرائیل نوازی کا کوئی موقع نہیں گنوایا۔ ان کے لیے ہر وہ بات صحیح تھی جو اسرائیلی لیڈر کہتے تھے۔ ایسی صورت میں ان سے یہ امید نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ مسئلۂ فلسطین کا منصفانہ حل نکالیں گے۔ یہ ٹرمپ ہی تھے جن کی کوششوں سے ایک سے زیادہ عرب ملکوں نے ابراہم اکارڈس پر دستخط کیے۔ امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن کی فلسطین پالیسی بھی ٹرمپ کی پالیسی سے زیادہ مختلف نہیں ہے، اس لیے یہ بات نہیں سوچی جا سکتی کہ مسجد اقصیٰ کے واقعے پر ان کی حکومت کوئی سخت موقف اپنائے گی، یہ بات بھی سوچی نہیں جا سکتی کہ اس طرح کے واقعے کا اثر اسرائیل کے ان عرب ملکوں سے تعلقات پر پڑے گا جن کے لیے اس کی دوستی بڑی اہمیت کی حامل ہے مگر یہ بات طے سی ہے کہ اس طرح کے واقعے کا اثر ان ملکوں کے مسلمانوں پر اچھا نہیں پڑے گا، وہ ان یہودیوں کے لیے بھی شاید فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کر پائیں گے جن کا مسئلۂ فلسطین سے کوئی تعلق نہیں اور اس طرح کے واقعات کو وہ برا سمجھتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ اس طرف توجہ نہیں دے پا رہے ہیں جبکہ ان کے لیے تشویش کی بات یہ ہونی چاہیے تھی کہ ان کی حکومت ایک اتحادی حکومت ہے، انہیں عربوں کی پارٹی کی حمایت حاصل ہے، وہ مسجد اقصیٰ میں پولیس کی جابرانہ کارروائی کو ایک حد تک ہی برداشت کر پائیں گے،کیونکہ وہ اگر زیادہ برداشت کرنا چاہیں گے تو ان کی امیج ختم ہو جائے گی اور اس کا نقصان انہیں آئندہ انتخابات میں اٹھانا پڑے گا مگر ان تمام باتوں کے باوجود اسرائیلی لیڈروں کی مجبوری یہ ہے کہ ان کی سیاست ذاتی مفاد کے حصول کے لیے نہیں، اسرائیل کے سلسلے میں ان کا ایک مقصد ہے اور وہ اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ اسرائیل سے دوستی کا دم بھرنے والے عرب لیڈروں کا مقصد کیا ہے، یہ مسلم دنیا کو سمجھانے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS