پھر کیوں جل اٹھا ہے لیبیا؟

0

2011سے تشدد اور خانہ جنگی کے شکار لیبیا میں ایک نئے بحران نے دستک دی ہے۔اس وقت پورے ملک میں حکومت کے خلاف مظاہرہ ہورہے ہیں جو تشدد کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔یہ مظاہرے اتنی شدید ہیں کہ عوامی غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے حکومت نے وزیرخارجہ کو برطرف کردیاہے۔ اگر چہ یہ برطرفی عارضی بتائی جاتی ہے، مگر اس بحران نے لیبیا میں عبد الحمید الدبیہ کو مشکلات میں ڈال دیاہے۔حکومت نے جونیئر وزیرخارجہ فتحہ اللہ الزینی کو عبوری وزیرخارجہ مقرر کردیا گیا ہے ۔ خیال رہے کہ اٹلی کی راجدھانی روم میں لیبیا کی سبکدوش وزیرخارجہ نجلا محمد المنقوش نے اسرائیل کے ہم منصب سے ملاقات کی تھی۔اسی ملاقات کو لے کر لیبیا میں بوال مچ گیاہے۔ خیال رہے کہ لیبیا میں اسرائیل کے ساتھ روابط رکھنا قانوناً جرم ہے اور قصوروار کو 9سال تک کی قید ہوسکتی ہے۔لیبیا نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیاہے اور تل ابیب کے ساتھ لیبیا کے مراسم بھی اچھے نہیں ہیں۔ 1957میں لیبیا کی حکومت کی طرف سے ایک قانون بنایاگیاکہ تل ابیب سے تعلق سزا جرم ہے۔لیبیا کا شمار ان عرب ممالک میں ہوتاہے جو اسرائیل کی سخت مخالف ہیں۔اس بابت ناراضگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ لیبیا کی صدارتی کونسل جو کہ تین رکنی ہے فوراً سرگرم ہوگئی اور اس نے لیبیا کے وزیراعظم عبد الحمید الدبیہ سے وضاحت طلب کی ہے۔اس صدارتی کونسل نے جس میں لیبیا کے تینوں خطوں کے نمائندے ہیں کہاہے کہ یہ عمل لیبیا کی خارجہ پالیسی کی عکاسی نہیں کرتا اور یہ لیبیا کے قوانین کے خلاف ہے۔ لیبیاکی صدراتی کونسل کا کہناہے کہ صہیونی ریاست کے ساتھ روابط قائم کرنا قانوناً جرم ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر دونوں ممالک کے وزراء خارجہ نے ملاقا ت کی ہے تو یہ بتایا جائے کہ یہ کس قانون کے مطابق ملاقات ہوئی ہے۔کچھ ذرائع کا کہناہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس نے وزیراعظم عبد الحمید سے جنوری میں طرابلس میں ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں اسرائیل کے ساتھ مراسم پر غوروخوض کیاگیا تھا۔ اسرائیل مغربی ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک کی لسٹ میں ہے جو کسی طور پربھی صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرنا چاہتے ہیں۔گزشتہ دنوں عرب ملکوں کے صرف چار ممالک نے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کئے تھے۔اس تعلقات کی بحالی 2020کے ابراہیم معاہدہ کے تحت ہوئی تھی۔ وزیرخارجہ نجلا المنقوش پچھلے دنوں اٹلی کے راجدھانی میں موجود تھے اور ان کی ملاقات اٹلی کے وزیرخارجہ انٹونیوتزانی کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس میٹنگ میں اسرائیل کے وزیرخارجہ بھی موجود تھے۔سفارتی حلقوں میں بتایا جارہاہے کہ یہ ملاقات بس یونہی ہوگئی اور کسی طے شدہ منصوبہ کے تحت سبکدوش وزیرخارجہ المنقوش نے اسرائیل کے وزیرخارجہ ایلی کوہین سے ملاقات نہیں کی تھی۔اس ملاقات نے لیبیا میں جلتی ہوئی آگ میں گھی کا کام کیاہے اورعبد الحمید الدبیہ کے مخالفین ایک دم اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ، اگر چہ حکومت لیبیا نے اس پوری ملاقات کی انتظامی تفتیش کا اعلان کیاہے، مگر لیبیا کے دوپارلیمانی اداروں طرابلس میں قائم ہائی کونسل آف اسٹیٹ اور تبرخ میں پارلیمانی ادارے ہائوس آف ری پرزنٹیٹیویعنی ایوان نمائندگان نے اپنے اپنے ایوانوں کی ہنگامی میٹنگ طلب کی ہے اور لیبیا کے مذکورہ ادارے کے ایوان نمائندگان نے اس ملاقات کو لیبیائی عوام کے خلاف جرم قرار دیاہے۔ ادھر اسرئیل کی وزیرخارجہ نے یہ اعلان کیاتھا کہ اس کے وزیرخارجہ ایلی کوہین نے اٹلی کے وزیرخارجہ انٹونیوتزانی کے ساتھ لیبیا کے وزیرخارجہ کے ساتھ ملاقات کی تھی اور دونوں وزراء خارجہ نے دونوں ملکوں کے درمیان میں روابط قائم کرنے کے امکانات کا جائزہ لیاتھا۔اسرائیل کا کہناہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی۔کوہین نے اس موقع پرلیبیا کے ہم منصب سے لیبیا میں یہودی آثار قدیمہ اور عمارتوں کو محفوظ رکھنے اور ان کو بہتر بنانے کے امکانات پر گفتگو کی تھی۔وزیرخارجہ اسرائیل نے اس گفتگو کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاتھا کہ جس ہضم اور جس مقام پر لیبیا موجود ہے وہ اسرائیل کیلئے کافی اہمیت رکھتا ہے۔اس دوران لیبیا کے وزارت خارجہ نے اس میٹنگ سے انکار کیا اور کہا کہ انہوں نے اسرائیل کسی بھی نمائندے سے بات چیت نہیں کی ہے۔لیبیا کے وزارت خارجہ کے مطابق یہ ملاقات اتفاقی ہے اور غیر منصوبہ بند اسرائیل کے ساتھ لیبیا کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔لیبیا کی وزارت خارجہ نے وضاحت کی ہے کہ اسرائیل اتفاقیہ ملاقات کو اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔اس دوران اسرائیل کے اہم اپو زیشن لیڈر لپیٹ ایائیر نے کہاہے کہ اسرائیل کی وزارت خارجہ نے اس قدر اہم اور رازدرانا ملاقات سے پردہ اٹھاکر بہت بڑی غلطی کی ہے اور اس ملاقات سے اسرائیلی کاز کو نقصان پہنچے گا۔لیبیا کا شمار ان ممالک میں ہوتاہے، جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور اس قدم سے لیبیا کے اندر سخت ردعمل کا امکان ہے۔جیسا کہ ابتدامیں بتایا گیاہے کہ اس وقت لیبیا ہر محاذ پر خانہ جنگی ، اقتصادی بحران سے گزررہاہے ۔مختلف ممالک کے افواج لیبیا میں اپنے اپنے ملکوں اور گروپوں کے مفادات کی دیکھ بھال کررہے ہیں حتی کہ وہ افریقی ممالک جو خود اپنے اپنے ممالک میں خانہ جنگی ،قبائلی رقابت اور لسانی ٹکرائو جیسے سنگین بحرانوں سے دوچار ہیں۔ انہوں نے ہی اس بدقسمت ملک میں اپنے اپنے فوجی چھوڑ رکھے ہیں ، ان میں چارٹ ایری ٹیریا ، سوڈان اورایتھوپیا جیسے ممالک کے نہ صرف سرکارہی پہنچتی ہے بلکہ باغی اور دہشت گرد تک لیبیا کو اپنا مرکز اور محور بناتے ہیں۔کسی نمائندہ سرکار کی عدم موجودگی میں خود لیبیا کے اندر سرگرم گروپ دہشت گرداور قبائلی ان ملکوں سے مدد حاصل کررہے ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ لیبیا کی حکومت کے مختلف ادارے اس صورتحال سے کیسے نمٹتی ہے۔rtm

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS