پھر کچلے گئے کسان۔۔۔

0

کسان تحریک ختم کرنے کی ہر کوشش ناکام ہونے کے بعدا ب ایسالگتا ہے کہ کسانو ں کو ہی ختم کرنے کی کوشش شروع کردی گئی ہے۔ لکھیم پورکھیری میں چار کسانوں کو گاڑی سے کچل کر ہلاک کر دیے جانے کے وحشیانہ واقعہ کی گرد ابھی بیٹھی بھی نہیں تھی کہ آج ہریانہ میں بھی بربریت کے اسی واقعہ کا اعادہ کیا گیا ہے ۔ انبالہ کے نارائن گڑھ میں احتجاج و مظاہرہ کررہے کسانوں پر کروکشیتر سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نائب سنگھ سینی کے قافلہ میں شامل ایک گاڑی چڑھادی گئی جس میں کئی افراد کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بی جے پی ایم پی نائب سنگھ سینی کسی تقریب میں شامل ہونے کیلئے نارائن گڑھ پہنچے تھے جہاں کسانوں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی اور ان کا پروگرام احتجاج کرنا اور معزز رکن پارلیمنٹ کو کالا جھنڈا دکھاناتھا۔جیسے ہی تقریب ختم ہوئی اور نائب سنگھ سینی واپسی کیلئے نکلنے لگے کسانوں نے احتجاج کرنا شروع کیا لیکن ایم پی کے قافلے میں شامل ایک گاڑی کسانوں پر چڑھا دی گئی جس سے کئی کسان زخمی ہوگئے، انہیںسنگین حالت میں اسپتال میں داخل کرایاگیا ہے، ا ن میں سے بھون پریت نا م کے ایک کسان کی حالت نازک ہے اور کسی بھی لمحہ وہ زندگی کی جنگ ہار سکتا ہے۔ ہر چند کہ بی جے پی اور ایم پی سینی ان الزامات کو مسترد کررہے ہیں تاہم اس واقعہ کے ویڈیو بھی وائرل ہونے شروع ہوگئے ہیں۔حقیقت کیا ہے یہ تو تحقیق سے سامنے آہی جائے گی۔ لیکن یہ واقعات عوام کے ذہن میں حکومت اور حکمراں جماعت کے رویہ سے متعلق کئی سنگین سوالات بھی پیدا کررہے ہیں ۔
ایسا لگنے لگاہے کہ کسانوں کی تحریک ختم کرنے کیلئے اب غالباً کسانوں کو ہی ختم کرنے کامنصوبہ بنایالیاگیا ہے ۔اس شبہ کو اس لیے بھی تقویت مل رہی ہے کہ لکھیم پور کھیری واقعہ کے ملزمین ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود بھی آزاد گھوم رہے ہیں ۔ اترپردیش کی پولیس نے انہیں اب تک گرفتار نہیں کیا ہے، اس کے برخلا ف ہلاک ہونے والے کسانوں کے اہل خانہ سے پرسہ کیلئے جانے والوں کو گرفتار کرکے قید کیاجارہاہے ۔ دنیا کے کسی خطہ میں کوئی بھی حکومت یہ کھلا ظلم نہیں کرتی ہے کہ مقتولین کے ورثا کو ہمدردی کے دو بول سننے سے بھی محروم کردے لیکن اترپردیش میں یہ ہورہا ہے۔ حکم امتناعی نافذ کرکے مہلوکین کے ورثا سے اظہار ہمدردی کرنے والوں کو گرفتار کرنا کسی بھی لحاظ سے قانون نہیں کہا جا سکتاہے۔کانگریس کی اترپردیش انچارج پرینکا گاندھی کی گرفتاری، تھانہ اورجیل میں رکھنے کی بجائے گیسٹ ہائوس کو جیل قرار دیے بغیر اس میں قید کرنا، راہل گاندھی کو لکھیم پور کھیری جانے سے روکنے کی کوشش، انہیں ایئر پورٹ کے پچھلے دروازہ سے براہ راست لکھیم پور پہنچانے کامنصوبہ، یہ ساری کوششیں ماورائے قانون ہیں۔قتل کے معاملے میں انتظامیہ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا پہلا بنیادی فریضہ ملزم کی گرفتاری ہے لیکن اس سمت میں اترپردیش انتظامیہ نے اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے اور ملزم دندناتے پھر رہے ہیں ۔قتل کے ملزمین کے خلاف اب تک قانونی کارروائی کا نہ ہونا حکومت کی بدنیتی کو ظاہر کررہاہے۔ہو نا تو یہ چاہیے تھاکہ مرکزی وزیرمملکت برائے داخلہ اجے مشرا کم از کم استعفیٰ ہی دے کر کچھ اخلاقی جرأت کا ثبوت دیتے لیکن ایسا نہ کرکے وہ انتہائی دلیری کے ساتھ اپنے ملزم بیٹے کے بچائو میں کھڑے ہوگئے ہیں اوران کے ساتھ پوری حکومت بھی کھڑی ہے۔ اگراسی طرح حکومت بااثر ملزمین کی پشت پناہی کرتی رہی اور ملزم آزادانہ گھومتے رہے تو کچھ عجب نہیں کہ وہ اپنے جرم کے شواہد ختم کردیں یا روپوش ہوجائیں۔ ہوسکتا ہے اس معاملے میں کچھ دنوں تک اخباروں میں سرخیاں لگیں، ٹیلی ویژن پر بحث و مباحثہ ہولیکن گزرتے وقت کے ساتھ کوئی دوسرا مسئلہ اس پر حاوی ہوجائے گا اور متاثرین کو انصاف ملنے کی امید بھی ختم ہوجائے گی ۔
ہریانہ کے انبالہ میں ہونے والا آج کا واقعہ غالباًاسی کا ریہرسل ہے ۔میڈیا اور عوام کی توجہ لکھیم پوری کھیری سے بٹ کر انبالہ کے نارائن گڑھ پر مرکوزہوگئی ہے ،ہوسکتا ہے اگلے چند دنوں میں پھر ایسا ہی کوئی دوسرا واقعہ کہیں اور ہوجائے اور لکھیم پور کے ساتھ نارائن گڑھ بھی فراموش کردیاجائے لیکن کیا اس طرح کسانوں کو طاقت اور دہشت سے خوف زدہ کرکے، گاڑیوں سے کچل کر ان کی تحریک کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے ؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS