عمیر انس
میں پانچ سالوں سے ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ میں ایک یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر پڑھا رہا ہوں، اس درمیان نہ صرف ترکیہ کی قابل دید اور قابل رشک ترقیاں دیکھنے کا موقع ملا بلکہ وہاں کے خوش خلق انسانوں سے دوستیاں کرنے کا بھی موقع ملا۔ اس وجہ سے ترک عوام کو اگرچہ ٹیلی ویژن اور خبروں میں انتہائی طاقتور، جنگ کے لیے تیار دکھایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ترک عوام صدیوں پر پھیلی اقوام کے درمیان محاذ آرائیوں کے گواہ بھی ہیں اور شکار بھی، انہوں نے گزشتہ صدی میں ایک ایسی سلطنت کو بچانے کے لیے اپنی ساری قوت صرف کردی تھی جس کو مٹانے کے لیے پورا مغرب فیصلہ کر چکا تھا، بچی کھچی سرحدوں پر پھر سے ایک ترک وطن آباد کرکے رہنے لگے، جہاں یوروپ، روس اور چین سے نکالے گئے ٹرکوں نے بھی پناہ لی اور کسی طرح اپنے لیے ایک ملک بنانے میں کامیاب ہوئے، یہ ترک کمزور بھی تھے اور اپنی اسلامی اخوت سے کاٹ دیے گئے تھے، لیکن تمام مشکلات کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو متحد رکھا، اپنے اختلافات کو آپس میں حل کرتے رہے، اپنے مسائل اپنے درمیان حل کرتے رہے اور ایسا کرتے کرتے انہوں نے ایک ایسی جمہوریت بنانے میں کامیابی حاصل کرلی جس میں ایک عام شہری کو اپنے حقوق کے تحفظ کا اور اپنے برابر اور با اختیار ہونے کا احساس حاصل ہوا اور اسی مستحکم بنیاد سے اس ترکیہ کی بنیاد پڑی جو آج مغرب کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے تو کبھی اپنوں کی حسد کا شکار ہوتا ہے، لیکن یہ قوم اپنی متعدد کمزوریوں کے باوجود مسلمان اقوام میں ایسی قوم ہوگئی جس نے یہ ثابت کر دکھایا کہ مسلمان اپنی محنت اور قابلیت سے، اتحاد اور اتفاق سے، جمہوری سیاست اور اسلامی اخلاق کی پاسداری سے دنیا میں کامیابی کے سبھی معیاروں تک پہنچ سکتے ہیں۔ ابھی کووڈ کے دوران ہی ثابت ہوا کہ ترکیہ کا صحت عامہ کا نظام، سرکاری تعلیم کا نظم اور انفرا اسٹرکچر دنیا کے بہترین ملکوں کی طرح ہو گیا ہے، ہزاروں افریقی طلبا آج وہاں سستی فیس پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور مشرق وسطیٰ کے لوگوں کی اعلیٰ سطح کی صحت کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، یہ ساری کامیابیاں ترکیہ نے بغیر تیل اور گیس کے ذخیرے کے حاصل کیں، آپ ترکیہ میںہیں تو آپ کو ایک محنت کش قوم کا سامنا ہوتا ہے جو دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اور رزق حلال کی تلاش میں یخ بستہ موسم میں بھی سرگرم رہتی ہے۔ ان کی ایجادات اور مصنوعات اب دنیا کے کونوں میں پہنچ رہی ہیں۔ ان کے اخبارات، ناول، اور ڈرامے مغربی ڈراموں سے مقابلہ کرنے لگے ہیں اور گزشتہ دس سالوں میں دنیا میں انسانی امداد میں پیسہ خرچ کرنے والوں میں سب سے پہلا یا دوسرا نام ترکیہ کا رہا، بلکہ صومالیہ جیسے بد حال اور خانہ جنگی سے برباد ملک کو آج ترقی کا مستقبل دینے میں ترکیہ کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ ملک شام میں انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے والے معاہدے کرانے اور لیبیا میں خانہ جنگی کو رکوانے میں ترکیہ کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ یہ سب ترکیہ اپنے خود کی معاشی، تعلیمی، تکنیکی اور سیاسی قوت کی بنیاد پر کرنے میں کامیاب ہوا۔
ایک ایسے محنت کش، انسان دوست، سخاوت پسند اور ہمدرد ملک کے اُوپر زلزلوں کے سلسلوں نے ایک مستحکم اور خوش حال ترکیہ بننے کا خواب توڑنے کی کوشش کی ہے، میرے اندازے میں دس اضلاع میں کم از کم دو کروڑ لوگ اس زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں، سیکڑوں صنعتیں زمین بوس ہو گئی ہیں، قہرمان مراش جو پوری دنیا میں بکری کے دودھ سے بنی آئس کریم ایکسپورٹ کرنے کے لیے مشہور ہے گویا کہ زمین بوس ہوگیا ہے، ادانا، غازی انتاب، مرش وغیرہ کے کئی شہروں کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ آج میں یہ تصور نہیں کر پا رہا ہوں کہ ان شہروں کی تباہی سے ہزاروں گھروں کی روزی روٹی ختم ہوگئی ہے۔ وہ قوم جو دنیا کے غریب ممالک میں صدقات اور عطیات بھیجنے میں سبقت لے رہی تھی، آج سخت آزمائش میں گرفتار ہوگئی ہے۔
میں اپنے مشاہدے سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ترک قوم اپنے لیے محنت کا راستہ منتخب کرے گی۔ وہ کہیں ہاتھ نہیں پھیلائے گی، لیکن جو آزمائش ان پر آن پڑی ہے وہ کوئی معمولی آزمائش نہیں ہے اور یہ کسی انشورنس سے بھی نہیں اور کسی ایک اکیلی حکومت کی امداد سے بھی واپس نارمل ہونے والی نہیں ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ یہ زلزلہ کئی زلزلوں کے ساتھ آیا تھا اور اس نے جو تباہی مچائی ہے وہ کسی سونامی سے کم نہیں ہے۔ سیکڑوں اسکولز، یونیورسٹی، ہاسٹل، اسپتال، سڑکیں، اسٹیشن، ایئرپورٹ جیسی بنیادی ضرورت کی عمارتیں زمین بوس ہو گئی ہیں، ایسے میں خدشہ ہے کہ لاکھوں شہری صرف غربت کا شکار ہی نہیں بلکہ بنیادی صحت، خوراک، روزگار جیسے مسائل سے دوچار ہوں گے اور آنے والے دنوں میں ترکیہ کم سے کم دس سال پیچھے چلا گیا ہے۔
ہندوستان اور ترکیہ کے تاریخی تعلقات کے لیے صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ جب 1878کی روس اور ترکیہ کی جنگ میں ملکہ بھوپال نے دو لاکھ پاؤنڈ کے ساتھ جو جذبات سے بھرپور حمایتی خط لکھا تھا آج وہ تاریخ میں درج ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے جس تیزی سے انسانی نقصان کا اندازہ کرکے سرکاری مدد بھیجنے کا فیصلہ لیا، وہ نہ صرف قابل تعریف ہے بلکہ ہندوستان کی دیرینہ انسان دوستی کی روایت کا تسلسل ہے، ضروری ہے کہ اس سخت آزمائش کی گھڑی میں ترک عوام تنہا نہ ہو جائیں، کوئی بچہ بھوکا نہ سوئے، اسکول سے محروم نہ رہ جائے، منفی درجۂ حرارت کے ان علاقوں میں کوئی سردی سے جان نہ گنوا دے، ان کی زندگی میں اچانک آنے والے اندھیرے میں ہماری معمولی مالی امداد بھی ایک جگنو کے برابر روشنی کی امید دلائے گی۔ اس سخت آزمائش میں ترک عوام ہماری امداد کے منتظر ہیں۔ ترکیہ سفارت خانے کی طرف سے آر بی ایل بینک میں امداد جمع کرنے کے لیے حکومت ہند نے اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دی ہے۔ ترک عوام سے اظہار ہمدردی اور محبت کا اظہار کریں ان کے یتیم بچوں اور بیواؤں کے لیے دعائیں کریں، ان کے مرحومین کے لیے مساجد میں دعاؤں کا اہتمام کریں اور اس کار خیر میں برادران وطن کو بھی شامل کریں، انسانی غم میں سب برابر ہیں اور سب کو شریک کرنا انسانیت کو فروغ دینا ہے۔
(مضمون نگار سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز، تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیں۔)
[email protected]