صبیح احمد
وقت کی سوئی گھومتے گھومتے پھر وہیں آ گئی ہے جہاں سے چلی تھی۔ طالبان 2 دہائیوں بعد پھرافغانستان پر قابض ہو گئے ہیں۔ راحت کی بات یہ ہے کہ سقوط کابل انتہائی پرامن طریقے سے ہوا۔ افغانستان میں گزشتہ 20 برسوں کے خون خرابے کے بعد کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ راجدھانی کابل میں طالبان کا داخلہ اتنے پرسکون انداز میں ہوگا۔ جیسے جیسے طالبان کے جنگجو یکے کے بعد دیگر مختلف علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے کابل کے قریب آ رہے تھے، یہاں کے باشندوں کی دھڑکنیں متوقع قتل و غارت گری کے خوف و دہشت سے تیز ہوتی جا رہی تھیں لیکن خلاف توقع ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ امن پسند دنیا کے لیے یہ ایک اطمینان کی بات ہے۔ اسے ایک حکمت عملی کا نتیجہ ہی کہا جائے گا کیونکہ افغان حکومت کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ اگر کسی طرح کی ذرا سی بھی مزاحمت ہوتی تو طالبان کے جنگجو خون کی ندیاں بہانے سے قطعی گریز نہیں کرتے۔یہ بات تقریباً سبھی کو معلوم تھی کہ کابل میں داخل ہونے سے طالبان کو کوئی نہیں روک سکتا، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے روز ہی یہ طے ہوگیا تھا کہ اب کابل کی گدی تک پہنچنے میں طالبان کو روکنا مشکل ہی نہیں، نا ممکن ہے۔ افغان صدر اشرف غنی پر یہ تنقید حق بجانب لگتی ہے کہ انہوں نے طالبان کو روکنے کیلئے کسی بھی طرح کی کوشش کیے بغیر خود راہ فرار اختیار کر لی لیکن اس معاملے میں ان کی حقیقت پسندی کا تقاضہ یہی تھا کہ خود محفوظ راستہ اختیار کرتے ہوئے طالبان کی راہ ہموار کردی جائے ورنہ کابل اور اس کے باشندوں کا جو حشر ہوتا تو اس کے تصور سے ہی کلیجہ منھ کو آجاتا ہے۔ طالبان کے ذریعہ عام معافی اور کسی بھی طرح کے حملے نہ کرنے کا اعلان کیے جانے کے باوجود لوگوں میں خوف و دہشت کا جو ماحول ہے، اس کا اندازہ کابل ایئر پورٹ اور دیگر مقامات کی صورتحال سے لگایا جا سکتا ہے۔
بہرحال اب ملک و قوم کی فلاح و بہبود کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ افغان عوام کو تعلیم اور روزگار سے محروم نہ کیا جائے اور اسی کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے۔ ملک کی نوجوان نسل کو اپنی منزلیں طے کرنے دی جائیں بصورت دیگر افغانستان تنہائی کا شکار ہو جائے گا کیونکہ افغانستان کی ترقی کا راز اس کی نوجوان نسل میں ہے۔ اگر نوجوان نسل حالات کی وجہ سے ایک بار پھر بکھر گئی تو افغانستان پھر مکمل تاریکی میں چلا جائے گا۔
بہرحال ٹھیک 20 سال بعد افغانستان کی قسمت کی چابی پھر سے طالبان نے حاصل کر لی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ11 ستمبر 2001 کے حملوں کی برسی کے موقع پر طالبان نے اقتدار پر پھر قبضہ کر لیا ہے، جس کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر کے طالبان کو بے دخل کر دیا تھا۔ افغانستان کے ایوان صدر میں طالبان کے پہنچتے ہی ادھر امریکہ کے محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی نے انتباہ جاری کیا ہے کہ 11 ستمبر کے حملوں کی 20 ویں برسی اور اس کے بعد مذہبی تعطیلات کے دوران شدت پسند حملے کر سکتے ہیں۔ حالانکہ کسی مخصوص خطرے کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے، البتہ کہا گیا ہے کہ نسلی منافرت اور وبا کے دوران پابندیوں کی وجہ سے انتہا پسندوں کے متحرک ہونے جیسی وجوہات امریکہ میں خطرے کو بڑھا رہی ہیں۔ اس حوالے سے سرکاری، ریاستی اور مقامی حکام کو الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ یہ انتباہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے انٹلیجنس معلومات کی فراہمی کی بنیاد پر جاری کیے گئے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ القاعدہ نے 4 برس بعد اپنا انگریزی کا رسالہ دوبارہ سے شروع کیا ہے اور ایسا 11 ستمبر کے حملوں کی برسی کے موقع پر کیا گیا ہے۔ 11؍ستمبر2001 کو القاعدہ نے مسافر طیاروں کو ہائی جیک کرنے کے بعد انہیں امریکہ کے کاروباری مرکز نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے 2 ٹاورس اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے قریب واقع پنٹاگون کی عمارت سے ٹکرا دیا تھا۔ اسی روز 4 ہائی جیکرس نے یونائیٹڈ ایئر لائنس کے ایک مسافر طیارہ کو بھی ہائی جیک کیا تھا جو ریاست پینسلوینیا کی سمرسیٹ کاؤنٹی میں گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ 9/11 حملوں کے بعد امریکہ نے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔ اب امریکی صدر بائیڈن نے افغانستان سے فوج کے مکمل انخلا کے لیے رواں برس کی 11؍ستمبر کی تاریخ کا ہی اعلان کیا ہے۔ یہ وہی تاریخ ہے جب 9/11 حملوں کے 20 برس مکمل ہوں گے۔
حالانکہ ابھی تک کابل کے ساتھ ساتھ پورے ملک کی صورتحال غیر یقینی کا شکار ہے لیکن اب یہ تقریباً طے ہو چکا ہے کہ دیر یا سویر حکومت کی باگ ڈور طالبان کے ہاتھ میں ہی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کی آگے کی حکمت عملی اور ان کی متوقع پالیسیوں کے حوالے سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ کابل میں داخلہ کے ساتھ ہی جنگ کے خاتمہ کا اعلان کر کے طالبان نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کی جنگ افغان شہریوں یا باشندوں کے ساتھ نہیں تھی بلکہ غیر ملکی بالخصوص امریکی افواج کے خلاف تھی۔ اب جبکہ ان کا یہاں سے انخلا ہو گیا ہے تو جنگ کا کوئی جواز ہی نہیں رہ گیا ہے۔ اسی کے ساتھ طالبان نے عام معافی کا بھی اعلان کیا ہے اور رفتہ رفتہ وہ اپنی دیگر پالیسیوں کا بھی اعلان کر رہے ہیں۔ تنظیم سے باہر کے لوگوں کے ساتھ ساتھ خواتین سے بھی اپنی نئی حکومت میں شامل ہونے کی گزارش کر رہے ہیں اور اسلامی طریقے سے پردے کے ساتھ باہر نکلنے اور روزی روٹی کمانے کے لیے ملازمت جیسے کئی معاملوں میں ان کے حوالے سے اپنے سابقہ دورحکومت میں عائد کردہ مختلف پابندیوں میں نرمی کا بھی اشارہ دے رہے ہیں۔ یعنی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اپنا رہے ہیں۔
اس لیے اب امید کی جا سکتی ہے کہ طالبان ماضی کے برعکس اب افغانستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں نہیں ڈالیں گے۔ افغانستان میں گزشتہ 40 برسوں سے شورش ہے۔ جنگ کے باعث افغانستان مکمل طور پر کھنڈر بن چکا ہے اور عوام لڑائی سے عاجز آ چکے ہیں اور امن چاہتے ہیں۔ اب لوگوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کون آ رہا ہے اور کون جا رہا ہے، انہیں افغانستان میں صرف امن چاہیے۔ موجودہ پرامن صورت حال لوگوں کو اطمینان بخش لگ رہی ہے کیونکہ اس طرز کی خون ریزی دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے جیسا کہ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمہ کے بعد دیکھی گئی تھی۔ گزشتہ 2 دہائیوں سے ملک کے طول و عرض میں لڑائی جاری تھی اور ہر طرف خطرات تھے۔ اب جبکہ تمام بیرونی طاقتیں افغانستان سے نکل رہی ہیں، لڑائی کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ گزشتہ 20 برسوں میں افغانستان میں ایک نئی نسل پروان چڑھی ہے۔ اس لحاظ سے افغانستان کا مستقبل تابناک ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا اگر طالبان یہاں کی نوجوان نسل کو تعلیم، صحت و روزگار کے حصول سے نہ روکیں، لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار میں کوئی روڑے نہ اٹکائیں اور اپنی پرانی سوچ میں جدت پیدا کریں۔ حالانکہ طالبان قیادت نے ماضی کے برعکس خواتین کی تعلیم اور انہیں گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت کے حوالے سے اپنے مؤقف میں نرمی کے اشارے دیے ہیں لیکن بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے طالبان کی پالیسی میں اب بھی ابہام پایا جاتا ہے۔
بہرحال اب ملک و قوم کی فلاح و بہبود کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ افغان عوام کو تعلیم اور روزگار سے محروم نہ کیا جائے اور اسی کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے۔ ملک کی نوجوان نسل کو اپنی منزلیں طے کرنے دی جائیں بصورت دیگر افغانستان تنہائی کا شکار ہوجائے گا کیونکہ افغانستان کی ترقی کا راز اس کی نوجوان نسل میں ہے۔ اگر نوجوان نسل حالات کی وجہ سے ایک بار پھر بکھر گئی تو افغانستان پھر مکمل تاریکی میں چلا جائے گا۔
[email protected]