دنیا پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہو گئی!

0

یہ بات کئی بار دیکھنے میں آچکی ہے کہ ایک جنگ دوسری جنگ یا جنگوں کی راہ بھی ہموار کر دیتی ہے۔ اسی لیے انسان دوست لیڈروں کی یہ کوشش رہتی ہے کہ جنگ نہ ہو مگر اس کے باوجود جنگ ہوتی ہے۔ جنگ کیوں ہوتی ہے، اس کے ذکر سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ روس کی یوکرین کے خلاف باضابطہ جنگ کو 6مہینے ہو گئے ہیں۔ان 6 مہینوں میں جنگ کی وجہ سے یوکرین کے لوگ بہت پریشان ہوئے ہیں، انہیں اپنوں کو کھونا پڑا ہے، آباد بستیوں کو برباد ہوتے ہوئے دیکھنا پڑا ہے، سڑکوں کو ویران ہوتے دیکھنا پڑا ہے تو آج بھی انہیں یہ معلوم نہیں کہ جنگ کب ختم ہوگی، کیا وہ بہت جلد اس پوزیشن میں آجائیں گے کہ پرامن زندگی بسر کرنے کے خواب دیکھ سکیں، اپنوں کو درازی عمر کی دعائیں دیتے وقت ان کی آنکھیں نہ بھر آئیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یوکرین جنگ کا دائرہ کب بڑھ جائے، کیونکہ ولادیمیر پوتن کے لیے یہ بات نظر انداز کرنا مشکل ہوگا کہ پولینڈ کبھی وارسا پیکٹ کا حصہ تھا، اس کے دارالحکومت کے نام پر ہی پیکٹ کا نام ’وارسا پیکٹ‘ پڑا تھا۔ ادھر یوکرین جنگ کے بعد چین کی پوزیشن بھی مستحکم ہوئی ہے، کیونکہ جنگ میں روس کی حمایت کرنے سے اسے یہ اطمینان ہوگا کہ روس اس کے خلاف نہیں جائے گا، اس لیے وہ اگر اچانک تائیوان پر حملہ کر دے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے اور ایسا لگتا ہے کہ امریکہ بھی یہی چاہتا ہے، کیونکہ ابھی حال ہی میں امریکہ کے ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا تھا اور اس کے بعد ایک اور امریکی وفد نے تائیوان کا دورہ کیا ہے۔ ان دوروں سے چینی سربراہ شی جن پنگ کا دلبرداشتہ ہونا فطری ہے مگر کیا چین تائیوان پر حملہ کرے گا؟یہ ایک جواب طلب سوال ہے اور اس کا جواب دینے کے لیے تھوڑا اور انتظار کرنا چاہیے مگر یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے تائیوان کے خلاف چینی جنگ کا خطرہ کچھ اور بڑھ گیا ہے۔
دنیا کے مہذب لوگوں نے جنگ کو کبھی بھی پسند نہیں کیا، دوراندیش لیڈروں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مسئلہ کیسا بھی ہو، اس کا حل مذاکرات کی میز پر ہی نکال لیا جائے مگر جنگوں سے طاقت کے اظہار کی بھی کوشش کی جاتی رہی ہے، سمجھا جاتاہے کہ جنگوں میں نئے ہتھیاروں کے استعمال سے ہتھیاروں کے کاروبار کو پھولنے پھلنے کا موقع ملتا ہے، اس لیے جواز پید کرکے بھی جنگ کی جاتی ہے جیسا کے عراق کے معاملے میں دیکھنے میں آیا۔ جارج ڈبلیو بش اور ان کے دوست ٹونی بلیئر کو یہ سمجھانے کی بہت کوشش کی گئی تھی کہ عراق کے خلاف جنگ چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ پابندیوں نے اسے پہلے ہی تباہ کر دیا ہے مگر وہ کسی کی سننے کے لیے تیار نہیں تھے، وہ بار بار عام تباہی کے ہتھیاروں کا ذکر کر رہے تھے ، دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ انسانوں کی بقا کے لیے عراق کے پاس موجود عام تباہی کے ہتھیاروں کو ختم کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے عراق کے خلاف جنگ کرنا ضروری ہے مگر دنیا نے دیکھ لیا کہ عراق کے پاس عام تباہی کے ہتھیار نہیں تھے، البتہ اس بہانے جنگ کی گئی، عراق کو تباہ کیا گیا اوروہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو جانیں گنوانی پڑیں۔ ایک پوری نسل یہ سمجھ ہی نہیں سکی کہ اسے کس بات کی سزا دی گئی، کیا اس کی امن پسندی اس کے کسی کام آئی؟ عراق جنگ نے یہ بتا دیا کہ کسی ملک کا صحیح معنوں میں طاقتور ہونا کتنا ضروری ہے۔ عراق اگر واقعی طاقتوہوتا تو پھر اس کے خلاف امریکہ اسی طرح جنگ نہیں چھیڑتا جیسے وہ شمالی کوریا کے خلاف جنگ نہیں چھیڑتا ہے،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ صرف دھمکی نہیں دیتے ہیں، ان کے پاس واقعی ایسے ہتھیار ہیں جو جنگ کی صورت میں امریکہ کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ شمالی کوریا کے خلاف جنگ چھیڑنے کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ایٹم بم کا استعمال بھی کر سکتا ہے،کیونکہ اس نے ان بموں کو سجانے کے لیے تو بنایا نہیں ہے۔ یہ ذکر بھی بے محل نہ ہوگا کہ شمالی کوریا،جنوبی کوریا کو ملانا چاہتا ہے ۔ اسی لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یوکرین جنگ نے جنوبی کوریا کے لیے خطرات میں اضافہ کر دیا ہے؟n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS