امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
آج کل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت زیادہ وائرل ہو رہی ہے، جس میں جہاد کو بدنام کیا جارہا ہے، اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاد کا بانی قرار دیا جارہا ہے۔
ویڈیو دہلی کے ایک پریس کانفرنس سے منسوب ہے، جس میں ایک نرسنگھا نند سرسوتی نامی شخص جہاد کے خلاف زہر اگل رہا ہے، ہندو مسلم کے درمیان تشدد کا راستہ ہموار کر رہا ہے، وہ کہہ رہا ہے کہ ہمیں جہاد کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے، اسکے قول کے مطابق جہاد کہتے ہیں کافر یعنی غیر مسلم کے ساتھ قتل و قتال کرنے کو، اسی وجہ سے اس نے کہا کہ ہم پوری دنیا سے ہر مذہبی رہنماؤں کو دہلی میں دعوت دے رہے ہیں اور اس پر یعنی جہاد کے تعلق سے بات کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔
وہ کہتا ہے ہمیں پوری دنیا سے جہاد کو مٹانے کی کوشش کرنی ہے اور اسکے لئے جتنا خرچ ہوگا ہم اٹھانے کی کوشش کرنگے، کیونکہ جہاد ایک ایسی چیز ہے کہ اگر اسکو ختم نہیں کیا گیا تو دنیا تباہ ہوجاے گی، اس لئے ہمیں جہاد کو ختم کرنے کی از حد ضرورت ہے، اپنے مثال میں وہ کہتا ہے کہ جس طرح انسان کے جسم میں کینسر ہوجاتا ہے تو اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اگر دنیا میں جہاد پایا جاتا ہے تو اسے بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے، مزید وہ کہتا ہے کہ اگر تھوڑا سا بھی کینسر جسم میں رہ جاے گا تو وہ مستقبل میں اور زیادہ خطرناک ثابت ہوگا، اس لئے اس کے خاطر آپریشن کرانا پڑے گا اور ہو سکتا ہے جسم کے کچھ حصوں کو بھی کٹانا پڑے گا، اور آج جہاد پوری دنیا کے لئے سب سے بڑا خطرناک ہے، اس لئے اگر ہمیں اس کو ختم کرنے کے لئے اپنے جسموں کو کٹانا پڑے گا تو ہم کٹائیں گے، اپنا تن من دھن سب لٹانا پڑے تو لٹائیں گے۔
اس نے یہ بھی کہا کہ ہم بھارت کو اسلامی ملک ہونے نہیں دیں گے، اور ہم ضرور اس جہاد کو ختم کرکے رہیں گے، کیونکہ کبھی بھی دھرم اور ادھرم ساتھ نہیں رہ سکتے۔ پس پردہ اس ملک میں مسلم اور ہندو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، گویا وہ اس بات کی کھلی دھمکی دے رہا ہے کہ اسملک میں مسلمانوں کو رہنے نہیں دیں گے۔
مزید براں نبی کریم صلی اللہ علیہ کی شان میں گستخانہ الفاظ کستے ہوئے اس نے یہ بھی کہا کہ سب سے پہلا جہادی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تھا، محمد وہ پہلا شخص تھا جس نے ایک شخص کے پاس مزدوری کی، پھر اسکا قتل کیا بعد ازاں اسکی بیوہ عورت سے شادی کیا، (نعوذ باللہ منذالک)۔
لیکن کیا کہیں ایسے جاہل، ان پڑھ گنوار شخص کو جو لفظ جہاد کی تشریح اپنے اند بھکتی کی کتاب سے کرتا ہو، اور دھڑلے سے مسلمان اور مسلم تنظیموں کو جہادی کہتا ہو۔
جبکہ جہاد ایک ایسا لفظ ہے جو کئی معنوں میں بولا جاتا ہے، جسکی تعریف و توضیح ہر ایک کو سمجھنی چاہیے۔
تاکہ ان جیسے مورکھوں اور احمقوں کو جواب دے سکیں، قتل و غارتگری کو ناس کرسکیں، اور ملک میں امن و امان کو برقرار رکھ سکیں۔
قارئین! جہاد اسلام کا ایک ایسا رکن ہے جسکا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے۔
جہاد محض قتال، جنگ یا دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کا نام نہیں بلکہ امن و امان کو عام کرنے کا نام جہاد ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جہاد اس وقت ہر مومن پر فرض ہوجاتا ہے جب کفار مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ پر اتر آئیں، اور ان پر ناحق ظلم و ستم کا بازار گرم کریں، اس وقت جہاد کرنا فرض ہوجاتا ہے، تاکہ اس ظلم و ستم کا خاتمہ کرسکیں اور امن و سلامتی کو یقینی بناسکیں۔
جیسا کہ قرآن شاہد ہے:
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌO الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌO
’’ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک ﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہےo (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب ﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)، اور اگر ﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جدو جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے ﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقینًا ﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک ﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے (گویا حق اور باطل کے تضاد و تصادم کے انقلابی عمل سے ہی حق کی بقا ممکن ہے)o‘‘
الحج، 22 : 39 – 40
اس آیت کریمہ کے مطابق مسلمانوں کے لیے لڑنا اس لیے حلال کیا گیا کہ ان پر ظلم و ستم کیا گیا، انہیں بے گھر اور بے وطن کیا گیا جبکہ ان کا کوئی قصور نہ تھا۔ اب ان پر جنگ مسلط ہو رہی تھی اور انہیں اپنا دفاع کرنا تھا۔
علاوہ ازیں
وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ (اور اگر اللہ بعض کو بعض کے ذریعے دفاع نہ کرتا رہتا) اس جملے میں
میں حملہ آور ہو کر تلوار چلانے کا بھی ذکر نہیں ہے بلکہ صرف دفاع کی جدوجہد کا اذن ہے تاکہ عبادت گاہیں محفوظ رہیں اور ہر کوئی پر امن ماحول میں اپنے اپنے دین پر عمل جاری رکھ سکے۔
معلوم ہوا کہ جہاد کا اصل مقصد ملک اور معاشرے میں امن و امان کو برقرار رکھنا ہے نہ کہ بقول نرسنگھا نند سرسوتی کے دنیا کو تباہ کرنا ہے۔
بہر حال
مسلمان آخر تک اپنی بقاء کی جنگ لڑتے رہے ان کی تلوار ہمیشہ مظلوم کے دفاع میں اٹھتی رہی، جب انہیں غلبہ حاصل ہو جاتا تو پھر معاشرہ میں امن ہو جاتا، نماز قائم کی جاتی، زکوٰۃ دی جاتی، نیکی کا حکم دیا جاتا، برائی سے روکا جاتا اور ظلم کے خلاف لڑا جاتا۔
شریعتِ اسلامیہ کی رو سے جہاد کی درجِ ذیل اقسام ہیں :
1۔ جہاد بالعلم
3۔ جہاد بالمال
2۔ جہاد بالعمل
4۔ جہادبالنفس
5۔ جہاد بالقتال
1۔ جہاد بالعلم
یہ وہ جہاد ہے جس کے ذریعے قرآن و سنت پر مبنی احکامات کا علم پھیلایا جاتا ہے تاکہ کفر وجہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور دنیا رشد و ہدایت کے نور سے معمور ہو جائے۔
معلوم ہوا کہ جہاد صرف قتل و غارتگری کا نام نہیں ہے بلکہ تعلیم و تعلم کا نام بھی جہاد ہے۔
2۔ جہاد بالعمل
جہاد بالعمل کا تعلق ہماری زندگی سے ہے۔ اس جہاد میں قول کے بجائے عمل اور گفتار کی بجائے کردار کی قوت سے معاشرے میں انقلاب برپا کرنا مقصود ہوتا ہے۔
معلوم ہوا کہ جہاد صرف قتل و غارتگری کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان کیلئے احکامِ الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زندگی کو ان احکام کے مطابق بسرکرنے کا بھی نام ہے۔
3۔ جہاد بالمال
اپنے مال کو دین کی سر بلندی کی خاطر اور ﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کو جہاد بالمال کہتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ جہاد صرف قتل و غارتگری کا نام ہی نہیں بلکہ مظلوموں اور محتاجوں کا مالی تعاون کرنا بھی جہاد ہے۔
4۔ جہاد بالنفس
جہاد بالنفس بندۂ مومن کیلئے نفسانی خواہشات سے مسلسل اور صبر آزما جنگ کا نام ہے۔ یہ وہ مسلسل عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے پر محیط ہے۔ شیطان براہ راست انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر نفس کو مطیع کر لیا جائے اور اس کا تزکیہ ہو جائے تو انسان شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
اس سے بھی معلوم ہوا کہ جہاد صرف قتل و غارتگری کا نام نہیں ہے بلکہ تزکیہ نفس کا نام بھی جہاد ہے۔
5۔ جہاد بالقتال
یہ جہاد میدانِ جنگ میں کافروں اور دین کے دشمنوں کے خلاف اس وقت صف آراء ہونے کا نام ہے جب دشمن سے آپ کی جان مال یا آپ کے ملک کی سرحدیں خطرے میں ہوں۔
یہ وہ جہاد ہے جہاں تلوار کی ضرورت پڑتی ہے، اور وہ بھی اس لئے تاکہ ملک میں امن و سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے۔
اور یہ جہاد بھی یوں ہی نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسکے کچھ شرائط ہیں، اگر وہ پائے جاتے ہیں تب ہی اس جہاد کو عمل میں لایا جاسکتا ہے ورنہ نہیں۔
وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
۱)مسلمانوں کی تعداد اتنی کثیر ہو جس سے شان و شوکت پیدا ہو۔
۲)پوری جماعت کے مصارف بھی مہیا ہوں۔
۳)مسلمانوں کی جماعت کا کوئی ایساامیر ہو جو ان کی قوت کو ایک مرکز پر جمع رکھ سکتا ہو، اور یہ شرط جہاد کے لیے بمنزلہ روح کے ہے۔
۳)مسلمانوں کا کوئی ایسا مامون و محفوظ مرکز بھی ہو کہ جہاں کفار کے شر سے نجات حاصل ہوجائے اور بوقتِ ضرورت وہاں پناہ حاصل کی جاسکے۔
(مستفاد از “فتاویٰ عبد الحئی “، ص: ۲۶۱ )اور( اسلام اورسیاست، ص: ۱۴۱)۔
اور یہ تمام شرائط ہمارے ملک ہندوستان سے معدوم ہیں۔
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم جہادی ہیں اور ملک کی تباہی چاہتے ہیں۔
اور اگر بالفرض یہ جہاد کے شرائط ہندوستان میں پاے بھی گئے۔
تب بھی ہم ملک کی سلامتی چاہیں گے، نہ کہ اسکی تباہی، کیونکہ اللہ اور اس کے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عمل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ چاہے جنگ کا میدان ہی کیوں نہ ہو پہلے صلح سے معاملہ حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
لیکن اگر دشمن صلح پر راضی نہ ہوں اور معاشرے کا مظلوم طبقہ ظلم و ستم کی چکی میں پس رہا ہو تو اس ظلم کو روکنے اور معاشرے میں امن و امان کی صورتِ حال پیدا کرنے کے لئے لازمی ہو جاتا ہے کہ ظلم کے خلاف تادیبی و انسدادی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
اور کاروای بھی ایسی ہو کہ کسی پر ظلم نہ ہوسکے، اور حد سے تجاوزی نہ ہوسکے۔
جیساکہ فرمان باری ہے:
وَ قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا.
’’اور اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو۔
البقره، 2 : 190
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جہاد کا معنی قتل و قتال برپا کرنا نہیں ہے بلکہ امن و سکون کو عام کرنا ہے، تعلیم و تعلم کو رواج دینا ہے، خداوند متعال کی فرمانبرداری کرنا ہے، مظلوموں کی حمایت اور غریبوں کی مدد کرنا ہے، تزکیۂ نفس اور شیطانی وساوس سے محفوظ رہنا ہے۔