آئندہ اسمبلی انتخابات ’سیمی فائنل‘نہیں!

0

ہندوستان لسانی، تہذیبی اور مذہبی تنوع والا ایک بڑا جمہوری ملک ہے۔ اس ملک میں کثیر جماعتی نظام ہے۔ ملزمین کا امیدوار بننا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ مذہب و ذات کی سیاست بھی کوئی نئی نہیں ہے، چنانچہ چیف الیکشن کمشنر کے رول کی بڑی اہمیت ہے اور سیاسی فہم رکھنے والے لوگوں کی نظر چیف الیکشن کمشنر کے قول و عمل پر رہتی ہے۔ ہندوستان کے 17 ویں چیف الیکشن کمشنر، شہاب الدین یعقوب قریشی کی، جنہیں لوگ ایس وائی قریشی نام سے زیادہ جانتے ہیں، یہ خوش نصیبی ہے کہ وہ پروقار طریقے سے عہدے پر رہے اور سبکدوش ہونے کے بعد بھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ چیف الیکشن کمشنر رہتے ہوئے ’صلے‘کے لیے کوئی ’کام‘ کیا۔ 2011 اور 2012 میں ہندوستان کے 100 سب سے زیادہ طاقتور لوگوں کی ’دی انڈین ایکسپریس‘ کی فہرست میں شامل ایس وائی قریشی 1971 بیچ کے آئی اے ایس افسر ہیں۔ وہ لکھنے پڑھنے والے اور زبان و تہذیب کی قدر کرنے والے شخص ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ہندوستان کے انتخابی نظام کی وسعت و پیچیدگی کو سمجھنے کے لیے ان کی کتاب An Undocumented Wonder – the Making of the Great Indian Election ایک اہم کتاب مانی جاتی ہے۔ پرانی دہلی کی سماجی زندگی اور ثقافت پر ان کی کتاب Old Delhi- Living Traditions بھی ایک اچھی کتاب ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کے سلسلے میں ہونے والی باتوںاور خبروں کو سمجھنے میں ایس وائی قریشی کی کتاب The Population Myth: Islam, Family Planning and Politics in India معاون سمجھی جاتی ہے، چنانچہ اس ایشو پر ان کی آرا کی بڑی اہمیت ہے کہ اس سال ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج کیا آئیں گے اور ان کے اثرات اگلے عام انتخابات پر کیا پڑیں گے؟ کیا ان اسمبلی انتخابات کو ’سیمی فائنل‘ مانا جانا چاہیے؟ ہندوستان کے سابق چیف الیکشن کمشنر ، ایس وائی قریشی کے مطابق، ’اس سال ہونے والے اسمبلی انتخابات یعنی مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، میزورم ، راجستھان اور تلنگانہ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو سیمی فائنل کہنا اور ان کے نتائج کی روشنی میں اگلے عام انتخابات کے نتائج کا اندازہ لگانا ٹھیک نہیں ہے۔ ’’سیمی فائنل‘‘ جیسی اصطلاح صحافیانہ اصطلاح ہے۔ الیکشن کمیشن کے لیے ’’سیمی فائنل‘‘ جیسی کوئی اصطلاح نہیں۔ ہر انتخاب کی اہمیت ہے، چاہے کسی بڑی ریاست کا اسمبلی انتخاب ہو یا کسی چھوٹی ریاست کا۔ اسمبلی انتخابات میں مقامی ایشوز ہوتے ہیں اور ہر ریاست کے ایشوز الگ ہیں۔ ایک ریاست کے لوگوں کے لیے جن ایشوزکی اہمیت ہے، ضروری نہیں ہے کہ انہی ایشوز کی اہمیت دیگر ریاستوں کے لوگوں کے لیے بھی ہو۔ عام انتخابات قومی ایشوز پر ہوتے ہیں، اس لیے یہ سوچنا ٹھیک نہیں کہ کسی ریاست میں اسمبلی انتخابات میں جس طرح کے نتائج آئے ہیں اسی طرح کے نتائج عام انتخابات میں بھی آئیں گے۔ 2018 میں بھی کئی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہوئے تھے لیکن مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان کے اسمبلی انتخابات میں جس طرح کے نتائج آئے تھے،کیا اسی طرح کے نتائج عام انتخابات میں آئے؟ اس لیے میرے نزدیک ’’سیمی فائنل‘‘ جیسی اصطلاح بے معنی ہے۔‘
ایس وائی قریشی کے مطابق، ’کرناٹک اسمبلی انتخابات میں راہل گاندھی کی ’’بھارت جوڑویاترا‘‘کا اثر پڑا ہوگا لیکن جزوی طور پر۔ ان کی یاترا جہاں جہاں سے گزری، وہاں جزوی اثر پڑا ہوگا لیکن پورے کرناٹک کے انتخاب پر اس کا اثرپڑا ہو، ایسا ماننے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایک شہر میں اگر کچھ انتخابی سرگرمی ہوتی ہے توکیا اس کا وسیع اثر دوسرے شہروں پر پڑتا ہے؟ دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ دہلی کے واقعے کا اثرنوئیڈا کی سیاست پر نہیں پڑتا، کیونکہ دہلی کے لوگوں کے مسئلے الگ ہیں اور نوئیڈا کے لوگوں کے مسئلے الگ ہیں۔ اسی طرح ایک ہی ریاست کے دو شہروں کی اپنی سیاست اور ان کے اپنے مسئلے ہیں۔ کرناٹک میں کانگریس کی انتخابی کامیابی کی بڑی وجہ یہ رہی کہ اس نے مقامی ایشوز پر توجہ مرکوز کی اور لوگوں کی سمجھ میں بھی یہ بات آئی کہ ان کے مسئلے کیا ہیں۔ کرناٹک کی جیت اپوزیشن کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے اس کا مورال اونچا ہوا ہوگا۔ کرناٹک میں بی جے پی نے صف بندی کی بہت کوشش کی۔ زبردست انتخابی مہم چلائی۔ اس کے باجود نتیجہ اس کے حق میں نہیں آیا۔ کرناٹک کے نتائج نے اپوزیشن پارٹیوں کو یہ احساس دلایا ہے کہ بی جے پی کوہرانا ناممکن نہیں ہے۔‘
ہندوستان کے سابق چیف الیکشن کمشنر ، ایس وائی قریشی کا کہنا ہے کہ ’گفتگو اگرآئندہ اسمبلی انتخابات تک محدود رکھی جائے تویہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہر ریاست میں ہر پارٹی کی اپنی سیاست ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ فلاں پارٹی گروپ بندی کی شکار ہے، اس لیے اس پارٹی کے مقابلے اس پارٹی کی پوزیشن کم بہتر ہے جو گروپ بندی کی شکار نہیں ہے۔ اگر کسی پارٹی میں گروپ بندی نہ بھی ہو تو اس کے انتخابی امیدواروں کی فہرست آتے ہی وہ لیڈران اس کے خلاف ماحول بنانا شروع کر دیتے ہیں جنہیں ٹکٹ نہیں ملتا۔ اس کا اثرانتخابی نتائج پر پڑتا ہے اور گروپ بندی کا بھی۔ کسی بھی پارٹی کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ کسی لیڈر کو ناراض کیے بغیرانتخاب لڑ لے مگر کرناٹک کے انتخابی نتائج نے ایک راستہ دکھایا ہے، یہ بتایا ہے کہ اسمبلی انتخابات اور لوک سبھا انتخابات میں فرق ہے اور اس فرق کو سمجھے بغیر جیت حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اسمبلی انتخابات میں اہمیت لوکل ایشوز کو ہی دی جانی چاہیے۔ گزشتہ 20 سال سے پولرائزیشن یا صف بندی کی سیاست ہوتی رہی ہے۔ اس سے کامیابی بھی ملتی رہی ہے مگر کرناٹک کے انتخابی نتائج نے یہ احساس دلایا کہ صف بندی کی سیاست ہمیشہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ یہ امید کی جا سکتی ہے کہ کرناٹک کے انتخابی نتائج سے صف بندی کی سیاست پرکسی حد تک بریک لگے گا۔ یہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ذکر کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کا ہی کیوں، ہماچل کے انتخابی نتائج کا کیوں نہیں؟ ہماچل پردیش میں مسلمانوں کی آبادی صرف 2.18 فیصد ہے۔ وہاں صف بندی کی سیاست کے لیے گنجائش نہیں تھی، البتہ کرناٹک میں مسلمان 12.92 فیصد ہیں،اس لیے وہاں صف بندی کی سیاست نظر آئی۔ یہ بات الگ ہے کہ اس کے باوجود کامیابی نہیں مل سکی مگر صف بندی سیاست کا آزمایا ہوا نسخہ ہے۔ اس سے نجات آسان نہیں۔ مدھیہ پردیش میں بھی صف بندی کی باتیں ہو رہی ہیں، پولرائزڈ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ ریاست کے وزیراعلیٰ خاموش ہیں۔ وہ غیرفعال ہیں۔۔۔۔میں ایک بار پھر یہ کہہ دوں کہ میڈیا کے لوگ بھلے ہی چند مہینے بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات کو ’’سیمی فائنل‘‘ کہیں لیکن ان کے انتخابی نتائج سے عام انتخابات کے نتائج کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ ‘n
(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا، خاور حسن سے گفتگو پرمبنی)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS