کب تک چلے گا 2018 میں مقابلہ سخت ہوا تھا

0

میونسپل انتخاب ہو، اسمبلی انتخاب، عام انتخاب یا کوئی اور انتخاب، ایک ایک ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے۔ اسی لیے بڑی پارٹیاں ایک ووٹ کے حصول پر خصوصی توجہ دیتی ہیں۔ اس بار کے مدھیہ پردیش کے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی اور کانگریس کے مابین کیسی ٹکر ہوتی ہے، فی الوقت اس پر کوئی پیش گوئی ممکن نہیں۔ جیوترادتیہ سندھیا کے بی جے پی میں جانے سے وہ مضبوط ہوئی ہے یا نہیں اور اگر ہوئی ہے تو کس حد تک ہوئی ہے، یہ ایک جواب طلب سوال ہے، کیونکہ بات یہ بھی کہی جا رہی ہے کہ سندھیا کے ساتھیوں کے ساتھ بی جے پی میں جانے پر پچھلی بار ان کے خلاف بی جے پی کے جو امیدوارکھڑے ہوئے تھے، ان کی امیدواری کا کیا ہوگا؟ ایک سوال اوربھی ہے کہ سندھیا اور ان کے ساتھی بی جے پی میں گئے مگر ان کے ساتھ کیا کانگریس کارکنان نے بھی بی جے پی سے وابستگی اختیار کی؟ اس سوال کی اہمیت کانگریس کے لیے بھی ہوگی اور وہ وقت رہتے یہ جاننا چاہے گی کہ جیوترادتیہ سندھیا دائرۂ اثروالے علاقے میں کارنگریس کارکنان کی کیا پوزیشن ہے۔ ویسے مدھیہ پردیش میں پرینکا گاندھی نے انتخابی تشہیر شروع کر دی ہے۔ ادھر شیو راج سنگھ چوہان نے ’مکھیہ منتری لاڈلی بہنا‘ لانچنگ کر دیا ہے۔ اسمبلی انتخابات سے چند مہینے قبل اس یوجنا کی لانچنگ ناقابل فہم نہیں ہے۔ اصل میں شیو راج سنگھ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہر الیکشن کے ساتھ لوگوں کی توقعات میں اضافہ ہوتا ہے اورانٹی اِن کمبینسی کے بڑھنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ انتخابی تاریخوں کے اعلان سے ذرا پہلے کچھ کرنے کا زیادہ اثر نہیں ہوتا۔ یوں بھی شیوراج سنگھ چوہان یہ بات نظرانداز نہیں کر سکتے کہ 2018 میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان زبردست ٹکر رہی تھی اور بی جے پی زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود سیٹیں حاصل کرنے کے معاملے میں کانگریس سے پچھڑ گئی تھی۔ اسی لیے کمل ناتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے مگر جیوترادتیہ سندھا کا ساتھ بی جے پی کو مل گیا اور وہ کسی طرح حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
2018 میں بی جے پی اور کانگریس کے مابین کتنی زبردست ٹکر تھی، اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ بی جے پی اور کانگریس کے ووٹوں میں صرف 0.13 فیصد کا ہی فرق تھا۔ بی جے پی کو 0.13 فیصد زیادہ ووٹ ملے تھے مگر اسے کانگریس سے 5 سیٹیں کم ملی تھیں۔ اسے 41.02 فیصد ووٹ اور 109 سیٹیں ملی تھیں جبکہ کانگریس کو 40.89 فیصد ووٹ اور 114 سیٹیں ملی تھیں۔ 230 رکنی مدھیہ پردیش اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے 116 سیٹوں کی ضرورت تھی یعنی اکثریت سے کانگریس 2 سیٹیں پیچھے رہ گئی تھی۔ 2013 کے اسمبلی الیکشن کے مقابلے بی جے پی کا 3.86 ووٹ فیصد کم ہوا تھا اور اس کی وجہ سے اسے 56 سیٹوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ دوسری طرف کانگریس کے ووٹوںمیں اضافہ ہوا تھا۔ 2013 کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے اسے 4.60 فیصد زیادہ ووٹ ملے تھے اور اسے 56 سیٹوں کا فائدہ ہوا تھا یعنی کانگریس کو اتنی ہی سیٹوں کا فائدہ ہوا تھا جتنی سیٹوں کا نقصان بی جے پی کوہوا تھا۔ بہوجن سماج پارٹی تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ اسے 5.01 فیصد ووٹ ملے تھے ۔ 2013 کے مقابلے اسے 1.2 فیصد ووٹ کم ملا تھا۔ اسے 2 سیٹیں ملی تھیں۔ 2013 کے مقابلے اسے 2 سیٹوں کا نقصان ہوا تھا۔ سماجواودی پارٹی کو ایک سیٹ اور 1.3 فیصد ووٹ ملے تھے۔ آزاد امیدوار کو 4 سیٹیں اور 5.8 فیصد ووٹ ملے تھے۔ نوٹا میں 1.4 فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالے تھے۔ اب نظر 2023 کے مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات پر ہے کہ پارٹیوں کی کیا پوزیشن رہتی ہے۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS