آزادیٔ اظہار کے نام پر ا لیکٹرونک میڈیا کا بد بختانہ کردار

0

شاہد زبیری

برطانیہ کی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’آرٹیکل 19‘ کی سال 2022 کی ’گلوبل ایکسپریشن‘ رپورٹ کے مطابق کہ دنیا کے 161 ممالک کے صرف 15 فیصد شہری آزادیٔ اظہار کے حق کا استعمال کرتے ہیں۔ اس رپورٹ میں ہندوستان کو انتہائی محدود آزادیٔ اظہار کے زمرہ میں رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 10 سال کے عرصہ میں ہندوستان کے اسکور میں 37پوائنٹ کی کمی آئی ہے۔
آزادیٔ اظہار کے حق کا ہمارے ملک میں ایک طرف یہ حال ہے کہ ’یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں / یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری‘ اور دوسری جانب جمہوریت کا چوتھا ستون مانے جا نے والی صحافتکا آزادیٔ اظہار حق کا بیجا استعمال اس حدتک پہنچ چکا ہے کہ اس کی آڑ میںہمارا الیکٹرونک میڈیا اپنی ٹی آر پی یعنی Television rating point بڑھانے کے لیے نفرت کا زہریلا کاروبار کر رہا ہے۔ الیکٹرنک میڈیا کے بارے میں ہر ذ ی ہوش اور محب وطن شہری کا یہ احساس عام ہے اور اس کو یہ تشویش لاحق ہے کہ اگر ہمارے میڈیا کے اس بد بختانہ کردار پر روک نہیں لگائی گئی تو ملک کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ حال ہی میں ایک ٹی وی چینل پر بحث کے دوران بی جے پی کی اس وقت کی ترجمان نوپور شرما کے ذریعہ اہانت رسولؐ کے بعد ملک بھر میں فرقہ وارانہ شعلوں کے بھڑکنے کے اندیشوں اور ہوا کے گرم ہونے اور تپش میں اضافہ کے لیے اور ادے پور میں کنہیا لال درزی کی بہیمانہ ہلاکت کے لیے کوئی اور نہیں ہمارا میڈیا بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔
اس کا اندازہ اس لگا یا جا سکتا ہے کہ ’ستیہ ڈاٹ کام‘کی ایک ڈبیٹ میں شامل ایک وکیل پینلسٹ نے کسی دوسرے صحافی کے ٹوئٹر ہینڈل کے حوالہ سے بتا یا کہ یکم مارچ سے 19 جون تک ہمارے ٹی وی چینلوں پر جو فرقہ وارانہ ڈبیٹس کرائی گئی ہیں، ان میں زی چینل پر ہونے والی کل ڈبیٹس میں 78 میں سے 28، ارنب گو سوامی کے چینل پر 187 میں سے 60، آج تک چینل پر 98 میں سے 42، اے بی پی چینل پر 56 میں سے 36، ٹائمس ناؤ پر 29 میں سے 29 ڈبیٹس میں فرقہ وارانہ مواد شامل ہیں۔ ان چینلوں پر کہیں ’ڈی این اے‘ٹیسٹ کرایا جا رہا ہے تو کہیں ہندو مسلم کا ’دنگل‘ ہو رہا ہے اور کہیں’آر پار‘ کی لڑائی جاری ہے۔ یہ چینل نوپور شرما جیسے کردار بنا تے ہیں جس کے گستاخانہ بیان سے پورے ملک میں آگ لگی ہوئی، صرف اتنا ہی نہیں زی نیوز چینل پر کنیڈا کے ایک پاک نژاد شہری کا پروگرام ’فتح کا فتویٰ‘ پیش کیا جاتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں پر کیچڑ اچھالا جا تا ہے اور غزوۂ ہند کا شوشہ چھوڑ کر ملک میں مسلم مخالف ماحول تیار کیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اونچی ٹوپی اور لمبی داڑھی والے مولوی نما لوگوں کو، جن کے پاس نہ علم ہو تا ہے، نہ ضمیر، ڈبیٹس میں بلایا جاتا ہے اور بھگوا دھاری لوگوں سے ان کی بحث کرائی جا تی ہے۔ ایک ڈبیٹ میں سپریم کورٹ کی ایک خاتون وکیل ایسے ہی ایک نام نہاد مولوی کو تھپڑ رسید کر دیتی ہے جو اپنے آپ کو مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ترجمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ طے شدہ پروگرام کے تحت ان ڈبیٹس میں اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑا یا جا تا ہے، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی آگ بھڑکائی جاتی ہے۔ گزشتہ 10 سال سے ہمارا نام نہاد میڈیا جسے ’گودی میڈیا‘ بھی کہا جا تا ہے، یہی کھیل کھیل رہا ہے جس کے نتیجہ میں گھر میں کیا پکا ہے اور فرج میں کیا رکھا ہے، اس جرم میں اخلاق کا گھر گھس کر قتل کر دیا جا تا ہے۔ فروخت کرنے کے لیے گائے لے جا نے والے پہلو خان کو گئو کشی کے اندیشہ میں موت کے گھاٹ اتار دیا جا تا ہے، عید منانے کے لیے جا رہے کمسن جنید کو چلتی ٹرین میں زندہ انسانوںکے درمیان موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے، تبریز انصاری کو ناکردہ گناہ کی پاداش میں کھمبے سے باندھ کر پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا جا تا ہے اور اب ادے پور میں کنہیالال درزی کا سر اس لیے قلم کر دیا جاتا ہے کہ اس نے نوپور شرما کی حمایت کی تھی۔ صرف اس کا سر ہی تن سے جدا نہیں کیا جاتا، اس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کر دی جا تی ہے۔ ایسی ہی ایک دل دہلا دینے والی واردات دوسال پہلے بنگال کے ایک مزدور ظفرل کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس کو شمبھو نام کے ایک شخص نے کلہاڑی سے کاٹ ڈالا تھا۔ اس مذہبی جنون اور پاگل پن اور سماج میں بڑھ رہے دل دہلادینے والے واقعات اور تشدد، عدم برداشت اور فرقہ وارانہ خلیج پیدا کرنے کے لیے ہمارے نام نہاد میڈیا کے ساتھ وہ سیاستداں اور حکمراں بھی ذمہ دار ہیں جو مذہب کو سیاست کا آلہ کا بنا رہے ہیں، ہمارے اس خیا ل کی تصدیق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ سے بھی ہو تی ہے جس میں سپریم کورٹ کی فاضل بینچ نے نوپور شرما کے ایک معاملہ میں سماعت کرتے ہوئے جہاں نوپور شرما کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بتا یا اور ان کے گستاخانہ بیان کو پو رے ملک کو آگ میں جھونکنے کے لیے ذمہ دار قرار دیا اور ٹی وی پر آکر ملک سے معافی مانگنے کی ہدایت کی وہیں میڈیا کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ جو معاملہ عدالت میں زیر سماعت تھا اس کو ٹی وی بحث کا موضوع کیوں بنا یا گیا۔ بینچ نے میڈیا سے پوچھا کہ کیا اس کے پیچھے کوئی ایجنڈہ ہے؟ ہمارا نام نہاد قومی میڈیا کتنا بے شرم اور ڈھیٹ ہو چکا ہے، وہ سپریم کورٹ کی گرفت پر اتنا بوکھلا گیا کہ اس نے ان ججوں پر ہی الزامات لگانے شروع کر دیے۔ ٹی وی چینلوں نے آزادیٔ اظہار کے نام پر ججوں کو آڑے ہاتھوں لے رکھا ہے اور ان پر الزامات لگا ئے جا رہے ہیں کہ وہ ایک مخصوص فرقہ ( مسلمان) کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ آخر اتنی جرأت میڈیا کو کہاں سے آگئی کہ ہمارا میڈیا توہین عدالت پر اتر آیا۔ آخر کب میڈیا کے اس بد بختانہ رویہ کی نکیل کسی جائے گی، کسی جائے گی بھی کہ نہیں، سوال یہ ہے کہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہمارا میڈیا آزادیٔ اظہار کے نام پر ملک میں ایسی فرقہ وارانہ ڈبیٹس کو جا ری رکھے گا جہاں ایک نو پور شرما نہیں سیکڑوں نوپور شرما اور ریاض اختری اور غوث علی ہندوستانی سماج کے فرقہ وارانہ تانے بانے کو تاتار کرتے رہیں گے اور ہمارے صدیوں کے بھائی چارہ کو لہو لہان کرتے رہیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS