چند ہفتوں میں یوکرین کی سرزمین کو جیتنے اوراس پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھنے والا روس 9ماہ بعد بھی جنگ میں پھنسا ہوا ہے اور شاید اب اس کو احساس ہونے لگا کہ اس نے یوکرین پر حملہ کرنے کا فیصلہ عجلت میں کیا تھا۔ کئی علاقوں سے روس کواپنی فوج کو واپس بلاناپڑاہے۔ مگریہ بھی حقیقت ہے کہ مغربی ممالک کو بھی اپنی حقیقت اور مشرقی اور مسلم ملکوں کو اہمیت کا احساس ہوگیا ہے۔ ابتدا میں علاقائی تنازع سمجھے جانے والے معاملہ نے عالمی سیاسی نظام کو پلٹ دیا ہے۔ اس پورے تنازع اور جنگ میں سب سے زیادہ فائدہ ترکی اور سعودی عرب کا ہوا ہے۔ ترکی نے غیرجانبدارانہ رول ادا کرکے دونوں فریقوں روس اور یوکرین میں مصالحت کراکے دنیا کو لاحق غذائی بحران کی شدت کم کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اس تنازع پر پوری دنیا دوخانوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی ہے مگر ترکی نے کسی بھی فریق کا آنکھیں بند کرکے ساتھ نہ دے کر غیروابستہ ہوکر اپنا رول ادا کیا ہے۔ اور ابھی ماہرین یہ فیصلہ نہیں کرپائے ہیں کہ ترکی کو کس سے روس(مشرق) سے یا یوکرین (مغرب اور ناٹو ) سے زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ ترکی اس دوران ہم مذہب اور مغربی ایشیا کے ساتھ مراسم استوار کرنے اور یہاں تک کہ اقتصادی تعاون حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ ترکی اپنے جنگی سازوسامان یوکرین کو مہیا کرارہاہے،یوکرین جنگ میں ڈرون ہتھیاروں نے سب سے اہم رول ادا کیا ہے۔ ترکی اور ایران ڈرون تیار کرنے میں ماہر ہیں۔ ترکی نے یوکرین کو اپنی منفرد ساخت کا ڈرون(Bayralxter Drones)اور اچوک نشانہ لگانے والے ٹی آر ایل جی 230میزائل سپلائی کرکے اپنی معیشت کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں تھوڑی بہت مددحاصل کرلی۔ ترکی نے اینٹی سب مرین بحری جہاز (Anti Submarine Navel Ship)کے ذریعہ اپنے سمندری علاقوں کو روسی جارحیت سے بچانے میں کامیابی حاصل کی۔ ترکی کے ڈرون اچوک نشانے اور دشمن کی جارحیت سے بچ کر نکل جانے کے لیے مشہور ہیں۔ ترکی آئندہ چند سالوں میں ڈرون سازکارخانے یوکرین میں لگانے کا منصوبہ بنارہاہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا یوکرین کے اندر ترکی کی سرمایہ کاری اور مفادات وتنصیبات پرجارحیت کو لے کر روس اور ترکی میں کوئی مفاہمت ہوگئی۔ خیال رہے کہ روس اور ترکی صرف یوکرین پر ہی منفرد انداز کی دوستی نبھاررہے ہیں بلکہ ان دونوں کا رول شام، لیبیا، آرمینیا اور آذربائیجان میں بھی ہے۔ ایسا لگتاہے کہ شام اور لیبیا میں روس اور ترکی ایک دوسرے کے ساتھ تال میل کررہے ہیں۔
اس تنازع کے بعد ایک اورخطے کی اہمیت بڑھی ہے تو وہ براعظم افریقہ ہے۔ تمام بڑی طاقتوں نے براعظم افریقہ کا رخ کیا ہے۔ یہ وہی خطہ ہے جس کے مکینوں اور شہریوں کو حقیر سمجھا گیا اور آج تک مغربی ممالک مختلف حیلوں اور بہانوں سے نئے انداز کی سامراج کو چلا رہے ہیں اور یہاں کے ذخائر، معدنی اور انسانی اپنے مفاد پرستانہ فائدوں کے لیے اپنی اپنی سرزمین میں منتقل کررہے ہیں۔ روس نے اس صورت میں اپنی گڈول بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور افریقہ کے غربت زدہ ملکوں مالے، جبوتی، سوڈان اور صومالیہ کو مفت میں اناج فراہم کررہاہے۔ شاید اب روس ترکی کے ساتھ مفاہمت اورتال میل کرکے اپنے مفادات اور اثر ورسوخ کوافریقہ تک پھیلانے کی کوشش کررہاہے۔ اس کی حکمت عملی سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان تال میل اور آپسی تعاون میں اضافہ ہوگا۔
ترکی ایک طرف روس اور یوکرین کے درمیان مصالحت کرارہاہے تو دوسری جانب اپنے مفادات کو دانتوں سے پکڑ کر چل رہا ہے۔ اپنے مفادات ومقاصد کے حصول کے لیے روس کو غوطہ دینے سے بھی باز نہیں آرہاہے۔ شام میں کردباغیوں اور سرحدپار سے ترکی کے اندر دہشت گردانہ کارروائی کرنے کا الزام لگاکر ترکی نے فوجی کارروائی کی ہے۔
شام کے اندر روس کی افواج ہیں اور وہ بشارالاسد کی حکومت کا ساتھ دے رہی ہیں مگر کردباغیوں اور دیگر فریقوں کے فوجی ٹھکانوں پرحملہ کرنے کے معاملہ میں روس نے ترکی کی طرف سے آنکھ موند لی ہے۔ اس کے علاوہ ترکی نے اپنے کنٹرول والے آبنائے باسفورس جو کہ یوروپ اورایشیا کے درمیان آبی سرحد ہے۔ یہ مکمل کنٹرول کرکے جہازوں کی آمد و رفت پرسختی کردی ہے۔ ظاہرہے کہ روس جو کہ یوروپ اور امریکہ وغیرہ کی پابندیوں کا شکار ہے، اس سے اس کی آبی راہداری سے گزرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس معاملہ پر روس نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ یہ خاموشی بلاوجہ نہیں ہے۔ عالمی برادری کے بائیکاٹ کے درمیان ترکی اور روس کے درمیان تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت 35بلین امریکی ڈالر ہے جو بڑھ کر 60بلین ڈالر پہنچنے کی امید ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں میں توانائی کے میدان میں بھی تعاون میں بھی اضافہ ہورہاہے۔ خیال رہے کہ یوروپی ملک ہونے کی وجہ سے ترکی پر یوروپی اقوام اور یونین کے اصولوں اور ضابطوں پرعمل آوری کابھی دباؤ ہے۔ ترکی بحرروم میںTurk Stream Gas Piplelineتعمیر کراکے توانائی کی منتقلی کو آسان اور بہتربنانے کا منصوبہ رکھتاہے مگر موجودہ حالات میں اس پائپ لائن کی تعمیر ممکن ہوسکے گی، اس کا امکان کم ہی ہے۔
روس نے یوروپی ملکوں کو توانائی کی سپلائی کے معاملہ میں پریشان کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے، یوروپ میں سردی کا سخت موسم شروع ہوچکا ہے، عام آدمی کو اس میں پیٹرولیم مصنوعات بجلی، پانی اور قدرتی گیس کی شدید ضرورت ہوگی۔ کئی ملکوں میں توانائی اور بجلی کا بحران شروع ہوچکا ہے۔ فرانس جیسے ملک میں پٹرول کی کمی اس قدر شدید ہوگئی ہے کہ سپلائی کو لے کر سڑکوں پر تشدد کے واقعات بڑھ گئے تھے۔ کئی ممالک تقریباً اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ روس پٹرول اور قدرتی گیس کی سپلائی کو کنٹرول کرکے یوروپی ملکوں میں اندرونی خلفشار اور تشدد جیسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کررہاہے، تاکہ ان کی توجہ یوکرین پرروس کی جارحیت سے ہٹ جائے اور یوکرین اپنی جنگ میں خود الجھا رہے۔n
یوکرین بحران: توانائی کی سیاست اور یوروپ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS