تیسرے محاذ کی ہلچل

0

ایک دن قبل ہی ایم ڈی ایم کے کے لیڈراورتملناڈوکے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کانگریس اوربائیں بازوسمیت تمام اپوزیشن پارٹیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ذاتی سوچ سے اوپر اٹھ کرہندوستان کو بچانے اورمشن 2024کے لئے متحد ہوجائیں۔ اسے اتفاق کہیں یا منصوبہ بند یا کچھ اور، دوسرے دن ہی نئی دہلی میں جب ڈی ایم کے کے دفترکا افتتاح ہواتو اس پروگرام میں کانگریس کی صدر سونیاگاندھی ، سماجوادی پارٹی کے لیڈر اکھلیش یادو، بائیں محاذ کے لیڈرسیتارام یچوری اورڈی راجہ ، نیشنل کانفرنس کے لیڈر فاروق عبداللہ کے ساتھ ساتھ ترنمول کانگریس اورٹی ڈی پی کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔سیاسی حلقوں میں اس پروگرام اوراس میں اپوزیشن لیڈران کی شرکت کو کافی اہمیت دی جارہی ہے ۔ویسے یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے اتحاد کی اپیل نہ کی گئی ہو۔یاکسی پروگرام میں بڑی تعداد میں ان کی شرکت نہ ہوئی ہو۔ لیکن عموماً دیکھا گیا ہے کہ اتحاد کی اپیلوں یا پروگرام کا اثر محدود پیمانے پر رہا ہے ، دوچاردن موضوع بحث رہنے کے بعد پھر اس پر کوئی بات نہیں ہوتی اورزمین پر ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی ۔ملاقات تک ہی سرگرمیاں محدود رہتی ہیں ۔ باقاعدہ کوئی میٹنگ نہیں ہوتی ۔ حالانکہ ایسے کئی مواقع آئے جب اپوزیشن پارٹیاں ایک ساتھ اسٹیج پر نظر آئیں اوروہ چاہتیں تو اس سے کوئی ٹھوس پیغام دے سکتی تھیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ جب غیر این ڈی اے پارٹیاں ہی اتحاد کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتی ہیں تو دوسرے کیا اہمیت دیں گے ؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف تیسرے محاذ اوردوسری طرف یوپی اے کو زندہ کرنے کی باتیں ہوتی ہیں ۔لیکن جب تیسرے محاذ کی قیادت اوراس میں کانگریس کے رول کی بات ہوتی ہے تو ہر طرف نہ صرف خاموشی چھاجاتی ہے بلکہ اتحادپانی کا بلبلہ بن کر پھوٹ جاتا ہے اور پھر کچھ عرصے کے لئے معاملہ سردخانہ میں چلاجاتا ہے ۔دراصل بی جے پی کی سربراہی والے این ڈی اے کے خلاف تیسرے محاذکی تشکیل کی باتیں تو ہوتی ہیں لیکن اس میں کون سی پارٹیاں شامل ہوں گی اور کہاں کہاں اتحاد ہوگا ، طے نہیں ہوپاتا ۔مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں غیربی جے پی پارٹیاں متحد نہیں ہوسکیں۔حال ہی میں ہوئے 5ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے دوران گو امیں کانگریس، ترنمول کانگریس ، عام آدمی پارٹی اوردیگر پارٹیاں الگ الگ ہی الیکشن لڑی تھیں۔ اترپردیش اوراتراکھنڈ میں غیراین ڈی اے پارٹیوںکا اتحاد نہیں ہوسکا ۔جب ریاستی سطح پر ان پارٹیوں نے اتحاد کرنے سے انکار کردیا تو پورے ملک میں اتحاد کی امید کیسے کی جاسکتی ہے ؟ غورطلب امرہے کہ اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے ان پارٹیوں کو بار بار ووٹوں کی تقسیم کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے لیکن وہ سبق حاصل نہیں کرتیں۔ ایک طرف بی جے پی نے چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرکے مرکزی اقتدار پر قبضہ کرلیا اورملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی اور دوسری طرف اتحاد نہ کرکرکے غیربی جے پی پارٹیاںسکڑتی چلی گئیں ۔ان کے لئے مرکزی اقتدار کا حصول کسی خواب سے کم نہیں ہے ۔
تیسرے محاذ کی تشکیل میں کانگریس کی کیا حیثیت ہوگی ؟اسے اس میں شامل کیا جائے کہ نہیں ؟ محاذ کی قیادت اسے دی جائے یا نہیں ؟ یہ سب ایسے سوالات ہیں جن پر کانگریس خاموش رہتی ہے اور دیگر پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہوپاتا۔ ایک طرف ترنمول کانگریس جہاں یہ کہتی ہے کہ کانگریس کے زوال کی وجہ سے اب علاقائی پارٹیوں کو آگے آناچاہئے تو دوسری طرف شیوسینااوردیگر پارٹیاں کہتی ہیں کہ کانگریس کے بغیر تیسرا محاذنہیں بن سکتا ۔حالانکہ وہ بھی تیسرے محاذ یایوپی اے کی قیادت این سی پی کے لیڈرشرد پوار کو سونپنے کی بات کرتی ہیں ۔ تیسری طرف ایسی بھی پارٹیاں ہیں جو کانگریس کے خلاف کھل کرکچھ توکہتی نہیں ہیں لیکن پارٹی کو نظر انداز کرکے چلتی ہیں اوراس کے ساتھ اتحاد سے دوری اختیارکرتی ہیں ۔کچھ پارٹیاں ایسی بھی ہیں جوجن ریاستوں میں بی جے پی کی متبادل کانگریس ہے ، وہاں وہ کانگریس کی جگہ لینے کے لئے کوشاں ہیں ۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیسرامحاذ بنے تو کیسے؟ اوراس کی قیادت کون سنبھالے گا ؟ گزشتہ 7برسوں میں ایسا کچھ تو نہیں ہوسکا تو آگے کیسے ہوگا ؟بس تھوڑی سی سیاسی ہلچل سے بڑی تبدیلی کی امیدنہیں کی جاسکتی ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS