نوح میوات کے تشدد کا سچ: اودھیش کمار

0

اودھیش کمار

نوح میوات کے تشدد کو جو بھی گہرائی سے دیکھے گا وہ تشویش میں مبتلا اور خوفزدہ ہوجائے گا۔ میں دو ساتھیوں سماجی کارکنان بھارت راوت اور جمعیۃ علماء ہند کے چیف مولانا صہیب قاسمی کے ساتھ کرفیو اور خوف کے دوران ان سارے مقامات پر گیا جہاں تشدد ہوا تھا۔ علاقہ کے لوگوںسے ملنے کی کوشش کی اور جن سے ملاقات ہوپائی ان سے بات چیت کرکے صورت حال کا جائزہ لیا اور فساد کی وجہ و اس کی باریکیوں کو سمجھا۔ مذہبی یاترا کو لے کر اس سے پہلے اس طرح کا تشدد ہندوستان میں نہیں ہوا تھا۔ جو لوگ اسے عام کشیدگی یا دو فریقوں کے ٹکراؤ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں انہیں وہاں جاکر سچائی دیکھنی چاہیے۔ کسی بھی تشدد، کشیدگی یا مسئلے کی جو بھی سچائی ہو اسے چھپانے کی کوشش ہوگی تو نہ سچے قصوروار پکڑے جائیں گے اور نہ ہی ان کے دوبارہ ہونے کے خدشات کو ختم کیا جاسکے گا۔ جل ابھیشیک یاترا نلہر مہادیو مندر سے نکل کر فیروزپور جھرکا جانے والی تھی۔ نلہر مہادیو مندر اراولی کی پہاڑیوں کے دامن میں ہے۔ وہاں سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے جو نوح شہر کی جانب سے آتا ہے۔ وہاں سے آگے دو طرف راستے نکلتے ہیں، جن میں ایک میڈیکل کالج ہوتے ہوئے نوح شہر جاتا ہے اور دوسرا سیدھے نوح شہر میں مرکزی شاہراہ تک۔ مندر سے کافی دور تک کوئی بستی نہیں ہے۔ جبکہ یاترا نکلنے والے راستے پر 50گز کی دوری پر آپ کو گاڑیوں اور دیگر سامانوں کے جلنے کے باقیات نظر آنے لگیں گے۔ جب وہاں بستی ہے ہی نہیں تو اتنی گاڑیوں کے جلانے کا سبب کیا ہوسکتا ہے؟
معلوم ہوا کہ یاترا آگے بڑھی، کچھ لوگ آگے نکل گئے، کچھ بیچ میں تھے اوران ہی بیچ والوں سے حملے کی شروعات ہوگئی تھی۔ اس کے بعد لوگوں کو جان بچانے کے لیے مندر کی جانب واپس دوڑنا پڑا۔ یاترا میں خواتین اور بچے بھی تھے۔ پیچھے پہاڑ سے بھی گولیاں چلائے جانے کی بات بتائی جارہی ہے۔ کچھ لوگ جو آگے نکل گئے تھے ان پر بھی آگے سے حملے ہوئے۔ جس ابھیشیک کو گولی مارنے اور گلا کاٹنے کی خبر آئی ہے وہ تھوڑا آگے میڈیکل کالج چوک کا سانحہ ہے۔ وہاں جانے پرسب کچھ سمجھ میں آجاتا ہے کہ مندر میں جان بچا کر چھپے لوگوں کو نکالنے میں پولیس کو بہت زیادہ وقت کیوں لگا ہوگا؟ مندر کے آگے خالی جگہ ہے یا مندرسے آگے کی بستیوں سے حملے اور پولیس کے ساتھ مقابلے اتنے شدید تھے کہ کسی کو لے جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ پولیس نے کچھ گھنٹے تک پرتشددعناصر کو شکست دینے کی کوشش کی، لیکن کافی وقت ہونے پر فائرنگ کور دیتے ہوئے تھوڑی تھوڑی تعداد میں پولیس پہرے کے ساتھ پولیس کی گاڑیوں میں آہستہ آہستہ لوگوں کونکالنا شروع کیا،جس کی وجہ سے اس کارروائی میں کافی رات ہوگئی۔ نوح میں 80فیصد مسلم اور 20فیصد ہندو آبادی ہے۔ کرفیو اور کشیدگی کی وجہ سے وہاں کے لیڈروں کو تلاش کرنا اوران سے ملنا مشکل ہے۔ نوح شہر میں عام آدمی پاٹی کے لیڈر فخرالدین علی اپنے گھرپر ملے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے حملہ کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتاتھا۔ پولیس کے ساتھ جس طریقہ سے لوگ مورچہ بندی کرکے حملے اور آگ زنی کررہے تھے، اس سے صاف لگتا ہے کہ پوری پلاننگ کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پلاننگ میوات میں نہ ہوکر شاید راجستھان کے علاقے میں ہوئی ہے۔ اتنا ہی نہیں وہاں کے لوگوں کا یہ کہناہے کہ اگریاترا نوح سے نکل کر بڑکلی چوک تک پہنچ جاتی توشاید کئی ہزار لوگ مرسکتے تھے۔
خیال رہے کہ یاترا سو گز بھی نہیں چل پائی کہ نوح شہر میں تشدد کرنے والا گروپ الگ الگ سمتوں میں تقسیم ہوگیا، جس کی وجہ سے بھی مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کافی کم رہی۔مذکورہ گروپ کے کچھ لوگ دکانیں لوٹنے اور جلانے لگے تو کچھ بسوں کو روک کر اور مسافروں کو اُتار کربسوں میں آگ لگانے لگے۔ نوح سائبر تھانہ کا منظر بھی آپ کو بہت کچھ سمجھا دے گا۔ ایک نے توڑپھوڑ کرتے ہوئے بس کو سائبر تھانہ کی دیوارٹکرادی جس سے دیوارٹوٹ گئی اور پولیس کی گاڑیاں چکناچورہو گئیں۔اس سے صاف لگتا ہے کہ حملہ آوروں کا ہدف سائبر تھانہ کے ریکارڈ کو ختم کرنا تھا۔ میوات پورے ملک میں سائبر کرائم کاسب سے بڑا مرکزہے۔گزشتہ دنوں ہی وہاں 300 سے زیادہ چھاپے پڑے اور بڑی تعداد میں لوگ پکڑے گئے اورکافی سامان برآمد ہوا۔ دوسری جانب کچھ ویڈیوکو بھی کشیدگی کا سبب بتایا جارہا ہے ،مان لیں کہ یاترا نکالنے والوں نے کشیدگی پیدا کی تو سائبر تھانہ پر حملہ کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے تھی۔ سڑک پر چلتی بسوں سے لوگوں کو اُتار کر ان کو بے عزت کرنا اور بسوں کو جلانے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔ اگرویڈیو میں کچھ قابل اعتراض یااشتعال انگیز تھاتو اس کی شکایت پولیس انتظامیہ سے ہونی چاہیے نہ کہ اتنے مقامات پر شدید حملے۔ صدر تھانہ اور الگ جلی پڑی ہوئی گاڑیوں کے باقیات دیکھیں تو عام کاروں میں لوہے کے علاوہ کچھ نہیں بچا ہے۔ اس طرح گاڑیوں کو جلانا بالکل تربیت یافتہ اور پروفیشنل لوگوں کا کام ہے۔ فوری غصہ اور اشتعال انگیزی میں گاڑیوں کو تھوڑابہت نقصان پہنچ سکتا ہے، دھو-دھو کرکے منٹوں میں خاک نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ باضابطہ تیاری ہوئی، ٹریننگ دی گئی اوروسائل مہیا کرائے گئے۔ اتنی مقدار میں پٹرول جمع کرکے چندمنٹوں اور گھنٹوںمیں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔کچھ عمارتوں کو بلڈوزر سے منہدم کیا گیا ہے، جن سے پتھر و دیگر سامان چلایا جانا ویڈیو میں صاف نظر آرہا ہے۔ اراولی کی پہاڑیوں سے پتھر کاٹے جاتے ہیں۔ ان کو ڈھونے والے ڈمپروں کی تعداد کافی ہے، اس لیے پتھر کہیں آئیں تو عام طور پر شبہ نہیں ہوتا۔ نوح سے 20کلومیٹر دور بڑکلی کی صورت حال بھی خوفزدہ کرنے والی تھی۔ وہاںنوح ضلع کے بی جے پی جنرل سکریٹری کی تیل مل کو پوری طرح جلادیا گیا، کھڑی دو گاڑیاں بھی آگ کے حوالے کردی گئیں۔ لوگوں نے بتایا کہ حملے 2بجے کیے گئے جب کہ پولیس 12بجے رات کے بعد پہنچی۔ وہاں 20-22دکانیں جلی ہیں، جو ایک ہی کمیونٹی کے لوگوں کی ہیں۔ وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ ہم ابھی بھی رات میں جاگ کر ڈرتے ہوئے اپنی دکانوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مین چوک پر مرکزی مسلح پولیس فورس کے کچھ جوان ہیں، لیکن تحفظ کے لیے کوئی پولیس نہیں ہے۔ سوال ہے کہ اتنی دور دکانوں کو نشانہ کیوں بنایا گیا؟ اتنے بڑے پیمانہ پر آگ لگانے کے لیے سامان اور اتنی تعداد میں لوگ اچانک نہیں آسکتے۔ نوح میں بھی ایک ہی کمیونٹی کی دکانیں لوٹی اور جلائی گئیں۔ اس طرح آپ پورے تشدد کی تصویر بنائیں تو طویل وقت کی تیاری صاف نظر آئے گی۔ کیونکہ جگہ-جگہ میٹنگوں اور لوگوں کو تیار کیے بغیر، ساتھ ہی ان کو وسائل مہیا کرائے اور ان کو ٹریننگ دیے بغیر اس طرح کا تشدد ممکن نہیں ہے۔ میوات خوف اور کشیدگی کے حالات سے گزر رہا ہے۔ پولیس انتظامیہ کی ناکامی واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ دوپہر 12بجے تھوڑے وقت بعد یاترا پر حملہ ہوا۔ جو تھوڑے بہت پولیس والے یاترا کے ساتھ تھے انہیں بھی بھاگ کرجان بچانی پڑی۔ لوگ حملوں کے دوران مندر کی جانب بھاگنے کے لیے مجبور تھے۔جبکہ پولیس بھی وہاں 5بجے کے آس پاس پہنچی۔ تب تک پورا شہرفسادیوں کے کنٹرول میں تھا۔ یہ صورت حال بدلنی چاہیے۔ جو حملے میں شہید ہوئے، جن کی املاک تباہ کی گئیں، انہیں فوراً پورا معاوضہ ملے، ان کے اندر تحفظ کا جذبہ پیدا ہو، تشدد کرنے اور کرانے والوں کو محسوس ہوکہ انہیںان کے جرم کی سزا ملنی یقینی ہے، یہ سب انتظامیہ اور سرکار کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی، غیرسیاسی، مذہبی اور سماجی گروپ بھی دونوں کمیونٹیز کے درمیان جائیں، ان کے اعتماد کوبحال کریں اور ان نوجوانوں کو جو انتہاپسندانہ خیالات کی جانب جاچکے ہیں، واپس مین اسٹریم میں لانا ضروری ہے۔ اس کے لیے لمبے عرصہ تک کام کرنا ہوگا۔rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS