سبکدوش فوجیوں نے ملک کو بچانے کا راستہ دکھایا : عبیداللّٰہ ناصر

0

عبیداللّٰہ ناصر

ریگستان کے تھکے ہارے پیاسے مسافر کے لیے جیسے نخلستان کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا حیات نو کا پیغام ہوتا ہے، ویسا ہی کچھ پیغام ہریانہ سے مل رہا ہے، جہاں میوات میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں ایک نو جوان پیش امام سمیت 6افراد کی موت ہوئی ہے، لیکن یہ شاید پہلی بار ہوا ہے کہ عوام کھل کر فرقہ پرست عناصر کے خلاف بول پڑے اور صرف عوام ہی نہیں بی جے پی کو چھوڑ کر سبھی سیاسی پارٹیاں کھل کر اس فساد کے لیے بجرنگ دل اور اس کے دو قاتل کارکنوں مونو مانیسر اور بٹو بجرنگی کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں۔ واضح ہو کہ گزشتہ فروری میں ناصر اور جنید نام کے دو نوجوانوں کو اغوا اکر کے دو دن تک ان پر تشدد کرنے کے بعد مونو مانیسر اور اس کے گرگوں نے ان دونوں کو جیپ میں زندہ جلا دیا تھا، تب سے انہیں راجستھان پولیس گرفتارکرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ہریانہ سرکار نے انہیں تحفظ دے رکھا ہے۔ نوح کا حالیہ فساد بھی مونو کے اشتعال انگیز ویڈیو کی وجہ سے ہوا، ورنہ حسب سابق یہ شوبھا یاترا بھی پرامن گزر جاتی۔ بی جے پی کی حلیف اور نائب وزیراعلیٰ دشینت چوٹالہ تک انہی عناصر کو اس فساد کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ مودی کابینہ میں وزیر راؤ اندرجیت سنگھ نے بھی اسلحہ لے کر شوبھا یاترا نکالنے اور اشتعال انگیز نعرہ بازی کے لیے بجرنگ دل کی مذمت کی ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈا، ان کے بیٹے اور ممبر پارلیمنٹ دپندر سنگھ ہڈا اور قومی ترجمان رہ چکے جنرل سکریٹری نیز انڈین نیشنل لوک دل کے ابھے چوٹالہ وغیرہ نے کھل کر اشتعال انگیزی کرنے اور اس فساد کے لیے بجرنگ دل کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ سبکدو ش میجر جنرل دیال نے ایک ویڈیو جاری کر کے ہریانہ کے سبھی سبکدوش فوجیوں سے اپنے اپنے علاقوں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کی کوشش کرنے کی اپیل کی ہے اور کھل کر بجرنگ دل کی اشتعال انگیزی کی مذمت کی ہے۔ سب سے بڑھ کر علاقہ کے جاٹوں اور گوجروں کی پنچایتوں میں بجرنگ دل کی مذمت کرتے ہوئے اپنے لوگوں کو ان سے دور رہنے اور ہر حال میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کی قرار دادیں منظور کی ہیں۔سیاسی وابستگیوں سے بلند ہو کر حق بات کہنے کی یہ مثال گزشتہ دس برسوں میں تو شاید دیکھنے کو نہیں ملی تھی ۔
گروگرام کے مقتول نوجوان امام کے اہل خانہ کی مالی امداد کے لیے راقم نے فیس بک میں اپیل کی تھی جس کے جواب میں درجنوں ہندو دوستوں نے ان کی مد د کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا ،ادھر بہار میں پپو یادو نے فوری طور سے ایک بڑی رقم دینے کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائیوں کی تعلیم اور بہنوں کی شادی کی ذمہ داری لینے کا اعلان کیا۔ جن ملکی اور بیرونی مسلم دوستوں نے مدد کی، ان کا تو شکریہ ہے ہی، لیکن جن ہندو دوستوں نے میری اپیل پر امداد بھیجی، ان کو سو سو سلام، ان کا ذکر خاص کر کے اس لیے کیا کیوں کہ یہ لوگ ہی بقول بشیر بدر ’اندھیرے میں روشنی کے امام ہیں‘ اور یہی ہندو اس ہندوستان کو فرقہ وارانہ آگ میں جلنے سے بچائیں گے۔
منی پور میں معمولات زندگی کسی طرح معمول پر نہیں آرہے ہیں، تشدد کی تازہ لہر میں مزید 6افراد کی ہلاکت کی خبر ہے۔ کوکی اور میتیئی عوام کے بیچ کھائی گہری سے گہری ہوتی جا رہی ہے، کسی بھی ذمہ دار حکومت کی اولین ترجیح امن قائم کرنا اور عوام کے درمیان باہمی اعتماد، خیر سگالی اور بھائی چارہ کا جذبہ پیدا کرنا ہوتا ہے کیونکہ جب تک ماحول پر امن نہیں ہوگا تب تک امن عامہ برقرار رکھنے پر کھربوں روپیہ خرچ کرنا ہوگا، جس کا لازمی اثر ترقیاتی پروجیکٹوں پر پڑے گا، ترقی اور خوش حالی کے لیے نہ کوئی قدم اٹھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی سرمایہ کاری کی امید کی جا سکتی ہے۔لیکن بی جے پی حکومت اس معاملہ میں بالکل الٹے قدم اٹھا رہی ہے، وہ ہر تنازع میں اکثریتی فرقہ کا ساتھ دے کر ان کے ووٹ بٹورنے اور اپنی سرکار بنانے میں ہی پوری دلچسپی رکھتی ہے، نہ اسے ملک میں پر امن اور خیر سگالی کے ماحول کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی ترقیاتی کاموں کی اور نہ ہی پروجیکٹوں کے لیے سرمایہ کاری کی، ہر جائز ناجائز طریقہ سے الیکشن جیتنا اور اپنی سرکار بنانا ہی اس کا مقصد ہوتا ہے، جہاں الیکشن نہیں جیت سکتی وہاں خرید و فروخت اور ڈرا دھمکا کر، توڑ پھوڑ کرکے اپنی حکومت بنا لیتی ہے۔
منی پور میں فی الحال امن بحالی کا کوئی امکان بھی نہیں دکھائی دے رہا ہے اور ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ ڈبل انجن سرکاروں کی جانب سے ایسی کوئی کوشش بھی نہیں ہو رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ باہمی خیر سگالی، امن و آشتی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، پرامن بقائے باہم یہ سارے الفاظ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی شاخوں بشمول سیاسی شاخ بی جے پی کی ڈکشنری میں ہیں ہی نہیں، وہ دیگر تمام طبقوں خاص کر مسلمانوں، عیسائیوں اوردلتوں پر ایک خاص طبقہ کی بالا دستی چاہتی ہیں اور اسی مقصد کے حصول کے لیے کام کرتی ہیں اور ان کا یہ کام یہ مشن ہمہ وقت جاری رہتا ہے، حکومت میں ہوں یا نہ ہوں، ہاں حکومت میں ہوتے ہیں تو ان کا یہ کام آسان ہوجاتا ہے۔منی پور کی آگ ابھی ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی تھی کہ دو اور بہیمانہ واقعات نے انسا نی دل رکھنے والے عوام کو ہلا کر رکھ دیا، جبکہ فرقہ پرست، تشدد پسند اور نفرتی ذہنیت کے لوگ خوشیاں منا رہے ہیں۔چلتی ٹرین میں مسافروں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے تعینات کی جانے والی ریلوے پروٹیکشن فورس کے ایک کانسٹیبل نے چار لوگوں کو اپنی سروس بندوق سے یہ نعرہ لگاتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا کہ ہندوستان میں رہنا ہے تو مودی یوگی کو ووٹ دینا ہوگا۔مرنے والوں میں الگ الگ ڈبوں میں سفر کر رہے تین مسلم مسافر تھے اور ایک قاتل کانسٹبل کا سینئر پولیس افسر تھا، جو راجستھان کی مینا برادری سے تعلق رکھتا ہے یعنی دلت طبقہ کا تھا۔یہ قتل کیا اشارہ دیتا ہے۔کیا اس نفرتی سوچ کا شکار صرف مسلمان ہیں یا دلت بھی اس کانشانہ ہیں۔ یاد کیجیے کہیں دلتوں کو مونچھ رکھنے پر زدوکوب کیا جاتا ہے، کہیں دلت دولہے کو گھوڑے پر نہیں بیٹھنے دیا جاتا ہے، کہیں دلتوں کے منہ پر پیشاب کیا جاتا ہے۔ شرم اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹرین میں اتنے بہیمانہ قتل کے باوجود قاتل کانسٹبل کو بچانے کی مہم چل رہی ہے، اسے دماغی طور سے معذور بتایا جارہا ہے، وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے مسلم مسافروں کو قتل کرتا ہے، یوگی اور مودی کو ووٹ دینے کی بات کرتاہے اور اسے دماغی طور سے کمزور اور مفلوج بتایا جا رہا ہے، یہ کس کو بیوقوف بنانے کی احمقانہ کوشش ہے؟دوسرا سوال اٹھتا ہے کہ کیا ریلوے پروٹیکشن فورس کے افسروں کو اس کانسٹبل کی ذہنی کیفیت کا پتہ نہیں تھا؟ اگر وہ دماغی طور سے کمزور تھاتو ایسے کانسٹبل کو ڈیوٹی پر کیوں لیا گیا اور اس کے ہاتھ میں بندوق کیسے دے دی گی؟ریلوے کی وزارت کی جانب سے مقتولین کے لیے ہمدردی کا ایک لفظ تک نہیں کہا گیا، مقتول سینئر پولیس والے کے وارثین کو40لاکھ کا معاوضہ دینے کی بات سنائی دے رہی ہے، باقی تینوں مسلم مقتولین تو فیض کے اس شعر کی تشریح ہیں ’’یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا‘‘ ان کو کسی قسم کا معاوضہ دینے کا سوال ہی نہیں۔ مودی کے دس سالہ دور حکومت میں 25-30 مسلمان ماب لنچنگ یا ایسے ہی واقعات میں ہلاک کیے جا چکے ہیں، کسی ایک کو بھی معاوضہ نہیں ملا ہے، اس کی تو امید کرنا ہی فضول ہے۔
راہل گاندھی نے بہت پہلے آگاہی دی تھی کہ آر ایس ایس نے پورے ملک میں نفرت کا پٹرول چھڑک دیا ہے اور ایک چنگاری بھی پورے ملک کوجلا کر راکھ کر سکتی ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ کب اور کہاں منی پور یا ہریانہ ہو جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا، کب کہاں برین واش کیا گیا، کوئی نفرت میں اندھا شخص کس بے گناہ کو موت کے گھات اتار دے کچھ نہیں کہا جا سکتا، ہاں اگر ہریانہ کی ہی طرح بیدار ذمہ دار شہریوں نے ہمت دکھائی تو نفرت کی اس آندھی کو روکا جاسکتا ہے ورنہ یہ ملک نازی، جرمنی، فاشسٹ اٹلی ہی نہیں یوگوسلاویا، سری لنکا، شام، افغانستان اور پاکستان کے راستہ پر چل پڑا ہے، 2024میں اس آگ کو بجھانے کا آخری موقع ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS