جو چپ رہے گی زبان خنجرلہوپکارے گا آستین کا

0

شاہنواز احمد صدیقی
کچھ مغربی طاقتیں ایک طرف انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی سی)کو تسلیم کرنے اور اس کو خاطرخواہ اختیارات دینے کے قائل نہیں ہیں مگر دوسری طرف افریقی ملکوں میں مبینہ مظالم کی تفتیش کے معاملے پر یہی طاقتیں ان ممالک اور ان حکومتوں کو گھیرنے کی کوشش کرتی ہیں جو ان کی نظر میں اچھی نہیں ہیں۔ پچھلے دنوںاس بابت انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی کئی تنظیموں کا ایک ٹویٹ سامنے آیا ہے جس میں دارفر کے معاملے پر سوڈان کو گھیرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سوڈان کی حکومت پر الزام ہے کہ وہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی سی) کے ساتھ دارفر میں کئے گئے مظالم کی تفتیش میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ مغربی ممالک کا یہ رویہ اس وقت بالکل مختلف نظرآتا ہے جب اسرائیل مغربی کنارے مقبوضہ یروشلم اور غزہ کی کھلی ہوئی جیل میں مقید آبادی کو بدترین مظالم کا شکار بنارہا ہے۔ پچھلے دنوں عالمی میڈیا ہائوس الجزیرہ کی ایک ہردلعزیز صحافیہ جو نہ تومسلمان تھی اور نہ ہی فلسطین کی شہری مگر فلسطینی نژاد امریکی شہری تھی اس کو بڑی سفاکی کے ساتھ اسرائیل فوج نے سر میں گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ اس اندوہناک قتل کی واردات کی اور جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی اسرائیل کی پرانی روایت کی پوری دنیا نے مذمت کی تھی۔ مگر اس معاملے میں جب کیس آئی سی سی عدالت میں جاتا ہے تو اس کی کوئی سنوائی نہیں ہوتی۔ مظالم چاہے فلسطین میں ہورہے ہوں یا یوکرین یا دارفر میں، قابل مذمت ہیں۔ کسی بھی سرکاری غیرسرکاری یا سرکار سے حمایت یافتہ کوئی بھی ادارہ اس قسم کے مظالم کرتا ہے تو اس کا دفاع کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں عالمی رائے عامہ کے دبائو میں اسرائیلی حکومت نے تسلیم کیا کہ اس غیرمعمولی بہادر اور جرأت مند فلسطینیوں کی دل صحافی شیریں ابوعقلہ کی موت فوج کی گولی سے ہوئی تھی۔ اسرائیلی فوج نے اس معاملے کی تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔شیریں کا پورا خاندان انصاف کی تلاش میں دربدر بھٹکتا رہا اورآخرکار پچھلے دنوں امریکہ پہنچ کر وہاں کے برسراقتدار جماعت کے لوگوں سے ملاقات کی۔ شاید یہ انہی مظلوم خاندان کی کوششوںکا نتیجہ تھا کہ اس معاملے پر کارروائی ہوئی اور اب جاکر کسی حدتک اسرائیلی حکام نے اس بات کو تقریباً تسلیم کرلیا ہے کہ اس واردات کے لئے اس کی فوج ہی ذمہ دار ہے۔
مقبوضہ فلسطین میں کسی بھی آزادادارے یا صحافی کے لئے کام کرنا بہت زیادہ مشکل ہے۔ جولوگ ان علاقوں میں کام کر رہے ہیں وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ صحافی ہی نہیں ان علاقوںمیں کام کرنے والی رضاکار تنظیمیں فلسطینی اتھارٹی یا حماس کے زیرانتظام کام کرنے والے رضاکاروں ملازمین کو بھی اسی طرح کی مشکلات اور دشواریوںکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسرائیل جب سے معرض وجود میں آیا ہے تب سے ہی تمام انسانی حقوق، اظہارخیال کی آزادی جیسے اصولوں کو جوتے کی نوک پررکھتا آرہا ہے۔ اس کا وجود ہی فلسطینیوں کو بے گھر کرکے عمل میں آنے کی طویل داستان ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ عالمی برادری اور تنظیمیں اس کی دروغ گوئی او ر بربریت آمیز حرکتوں کو مسلسل نظرانداز کر رہی ہیں۔ 2006 میں انتخابا ت کے بعد مغربی کنارے اور خاص طورپر غزہ کی پٹی میں دہشت گردی کے نام پر اسرائیل سرکاری ملازموں، رضاکاروں اور مقامی انتظامیہ کے قانون نافذ کرنے والے افراد کو نشانہ بناتا رہا ہے۔ پچھلے دنوں غازہ پر تین چار دن کی فوجی کارروائی میں اس نے تقریباً 50 بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اسرائیل کی سفاکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ایک قبرستان میں بم مار کر وہاں موجود بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس کارروائی میں 17بچے جاں بحق ہوئے تھے۔ رضاکار تنظیموں نے بے گناہوں اور معصوم بچوں کو بربریت کا شکار بنانے پر اپنی آواز بلند کی تھی اور سوشل میڈیا پر کچھ ایسی تکلیف دہ تصویریں وائرل ہوئی تھیں جس سے کہ اسرائیل کی سفاکی دنیا کے سامنے آئی۔
اسرائیل نے اس سلسلے کو بند کرنے کے لئے انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں پر شکنجہ کسنا شروع کردیا۔ خیال رہے فلسطین میں کچھ ایسے ادارے ہیں جوکہ بین الاقوامی ایجنسیوں اور اقوام متحدہ کے لئے باقاعدہ کام کرتے ہیںاور یہ ادارے فلسطینی مظلوموں کے بارے میں اعداد وشمار اور اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔ اسرائیل چونکہ انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔ اس کو یہ بات گوارہ نہیں کہ سوشل میڈیا یا عالمی اداروںکے سامنے اس کے کرتوتوں کا پردہ فاش ہو۔ انسانی حقوق تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہر طرح سے مظلوموں کے حق میں بلند ہونے والی آواز کو کچلا جائے۔
شیریں ابوعقلہ کو 11؍مئی 2022کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کیا گیا جب وہ اسرائیل کی فوجی کارروائی کے دوران اپنے فرائض منصبی انجام دے رہی تھیں۔ جینن کے مقام پر ہونے والی اس کارروائی میں اسرائیلی فوج فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کر رہی تھی۔ شیریں دور سے اس پوری کارروائی کوکوور کر رہی تھیں۔ ذرائع کے مطابق وہ کارروائی اس خاص مقام سے 200میٹر دور پوزیشن لی ہوئی تھیں اور کارروائی کو کوور کر رہی تھیں۔ اسرائیل کی مسلح افواج آئی ڈی ایف کے اہلکاروں کی گولی سے شیریں کا سر پھٹ گیا جس میں ان کی موقع پر ہی موت ہوگئی تھی۔ جب تک پوری عالمی برادری کا دبائو اسرائیل پر نہیں پڑا اس نے یہ بات تسلیم نہیں کی کہ اس ہونہار صحافیہ کی موت اس کی فوج کی گولی سے ہوئی تھی۔ جبکہ آڈیو اور ویڈیو شواہد موقع پر موجود افراد اس طرف اشارہ کر رہے تھے ۔
اسرائیل کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ نہ صرف اس نے شیریں کو گولی ماری بلکہ اس کے جنازے کی بے حرمتی بھی کی تھی۔ جب ان کو تدفین کے لئے چرچ لے جایا جارہا تھا تو اسرائیلی فوج نے دھکامکی کرکے اس جنازے کی بے حرمتی کی۔ اس کے ویڈیو بھی پوری دنیا نے دیکھا۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمودعباس کے ترجمان نبیل ابورضی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج اور وہاں کی حکومت اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں صد فی صد یقین ہے کہ اس کارروائی کے پس پشت اسرائیل ڈیفنس فورسز کے اہلکار ہیں۔ بعد میں اسرائیل نے یہ تسلیم تو کیا کہ یہ گولی اس کی فوج کی طرف سے چلائی گئی تھی مگر دعویٰ کیا کہ یہ جان بوجھ کر کی گئی کارروئی نہیں تھی۔ صحافیوںکی ایک نمائندہ تنظیم دی کمیٹی ٹوپروٹیکٹ جرنلسٹس (The Comittee to Protect Journalists) کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا مذکورہ بالا بیان بہت تاخیر سے آیا ہے اورنامکمل ہے۔ یہ بیان مظلومہ کے اہل خانہ کے خواہشات کو پورا کرنے والا نہیں ہے جو چاہتے ہیں کے قاتل کیفر کردار تک پہنچیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق ادارے نے بھی ایک رپورٹ جاری کرکے کہا تھا کہ جس وقت ان کو گولی لگی تو وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ اپنا کام کر رہی تھیں وہ ہیلمٹ پہنے ہوئے تھیں۔ ان کی جیکٹ سے صاف دکھ رہا تھا کہ وہ پریس سے وابستہ ہیں۔
شیریں جس طریقے سے موت کے گھاٹ اتاری گئیں اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ کارروائی جان بوجھ کر نشانہ لگاکر انجام دی گئی ہے۔ فوج کی اس کارروائی میں شیریں کا ایک ساتھی بھی زخمی ہوگیا تھا۔ ابوعقلہ کے خاندان کا کہنا ہے کہ یہ قتل جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات کو مسترد کردیا کہ وہ اس طرف کھڑی تھیں جہاں پر ’’دہشت گرد‘‘ کارروائی انجام دے رہے تھے۔ امریکی دفترخارجہ کے ایک ترجمان نے بھی اس بابت اپنا موقف ظاہر کیا تھا۔ جس گولی سے شیریں کی موت ہوئی تھی اس کی تفتیش امریکی حکام کی نگرانی میں کی گئی تھی۔ اس وقت تک حکام اس نتیجے تک نہیں پہنچے تھے کہ مارنے والہ کی نیت ہوسکتی ہے۔ کیونکہ شواہد اور شیریں کے جسم کے اعضا اس قدر مسخ ہوگئے تھے کہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکتا تھا۔ امریکی دفترخارجہ نے آخرکار اس بات کو تسلیم کرلیا تھا کہ شیریں ابوعقلہ کو جو گولی لگی تھی وہ اسرائیلی فوج کی طرف سے آئی تھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل اس قسم کی سیکڑوں وارداتوں کو انجام دینے کے باوجود بھی ذمہ داری سے بچتا ہے اور کیا عالمی برادری، مغربی ممالک خاص طور سے امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کو کس حد تک کٹہرے میں کھڑا کریںگے۔ کیا بین الاقوامی عدالت اس معاملے میں اپنا رول ادا کرے گی یا صرف چند طاقتور ملکوںکے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ جائے گی۔
قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبان خنجرلہو پکارے گا آستین کا

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS