کانگریس اس وقت جس دور سے گزررہی ہے ۔شاید ہی 137سال کی اپنی تاریخ میں اسے اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو واپس پاناتو دور پارٹی کے سامنے وجود کا مسئلہ پیداہوگیا ہے۔کانگریس کا حال یہ ہے کہ 2قدم آگے بڑھتی ہے تو 4قدم پیچھے آجاتی ہے ۔حال ہی میں شمال مشرق کی 3ریاستوں ناگالینڈ، تریپورہ اورمیگھالیہ کے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کا جوحشر ہوا ، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔تینوں ریاستوں میں مجموعی طورپر 180سیٹیں ہیں اورکانگریس کو صرف 8سیٹیںملیں۔ناگالینڈمیں کھاتہ ہی نہیں کھلا جبکہ میگھالیہ میں 5اورتریپورہ میں 3سیٹوں پرقناعت کرنی پڑی ۔پارٹی کیلئے اطمینان کی بات صرف یہی ہے کہ ضمنی اسمبلی انتخابات میں حلیف پارٹیوں کی مددوحمایت سے مہاراشٹر میں قصبہ پیٹھ سیٹ بی جے پی سے اورمغربی بنگال میں ساگردیگھی سیٹ ترنمول کانگریس سے چھین لی اورایک سیٹ تملناڈومیں جیتی ۔اس جیت سے مغربی بنگال میں پارٹی کا کھاتہ کھل گیا ،جبکہ یہ انتخابات ایسے وقت ہوئے تھے جب حال ہی میں راہل گاندھی کی طویل’ بھارت جوڑویاترا ‘ختم ہوئی تھی اورپارٹی صدر کا انتخاب ہوا ، جس سے گروپ 23-کے خاتمہ اورپارٹی کے اندر اختلافات دور ہونے کا پیغام دیا گیا ، لیکن انتخابات میں اس کا کوئی اثر ظاہر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ نہ پارٹی کے لیڈران میںوہ حوصلہ اورسرگرمی نظر آرہی ہے اورنہ پارٹی کے کارکنان میں وہ جوش وجذبہ ، جس کا مظاہرہ بی جے پی کے لیڈران وکارکنان کرتے ہیں ۔
کانگریس اس وقت2ریاستوں راجستھان اورچھتیس گڑھ میں اپنے بل بوتے پر اقتدارمیں ہے، جبکہ بہاروجھارکھنڈ میں مخلوط حکومت میں شامل ہے ۔مدھیہ پردیش میں اقتدارمیں آکر باہر ہوگئی ۔ مہاراشٹر میں مخلوط حکومت سے باہر ہوئی تو بہار میں اس خلاکو پرکیا ۔باقی پورے ملک میں اس کا برا حال ہے ۔مسلسل 2پارلیمانی انتخابات سے وہ لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈرکا درجہ حاصل نہیں کرپارہی ہے ،جبکہ ملک بھرکی اسمبلیوں کی جہاں 4033 ممبران ہیں ، ان میں سے صرف 658 کانگریس کے ہیں، جن میں سے 269صرف راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ہیں۔ اس وقت ملک میں ہر 16واں ممبر اسمبلی پارٹی کا ہے ۔سب سے قدیم پارٹی کے صرف 16فیصدممبران ہونا یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ پارٹی کی حالت دگرگوں ہے ، 2014 میں جب کانگریس مرکزی اقتدارسے باہر ہوئی تھی ، تو ملک بھر میںاس کے 24 فیصد ممبران اسمبلی پارٹی کے تھے ۔کمزور ہوتے ہوتے پارٹی کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ 4 ریاستوں میں اس کا کوئی ممبراسمبلی نہیں ، جبکہ 9ریاستوں میں اس کے ممبران کی تعداد دہائی میں بھی نہیں ہے۔ بڑی ریاستوں میں اس کی حالت تشویش ناک ہے۔ اترپردیش میں صرف 2اور بہار میں 19 ممبران ہیں ۔ مغربی بنگال میں برائے نام ایک ممبراسمبلی ہے ۔3 ہندسہ میں صرف راجستھان میں پارٹی کے ممبران اسمبلی ہیں۔ جس گجرات میں سابقہ اسمبلی انتخابات میں پارٹی اقتدارکی دہلیز کے قریب پہنچ گئی تھی۔ وہاں دسمبر کے اسمبلی انتخابات میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا اور امسال کا آغاز 3ریاستوں میں ہار سے ہوا ، انجام کیا ہوگا ، کچھ پتہ نہیں۔اب پارٹی کو کس کرشمہ کی امید ہے ؟اگلاانتخاب کرناٹک میں ہونے والا ہے ، جہاں پارٹی کو بہت زیادہ امیدیں ہیں ۔ اگروہاں بھی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اگلے سال 2024 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس بی جے پی کو ہرانے کا خواب کس طرح دیکھ سکتی ہے ؟
پارٹی نے اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کیلئے ہر حربہ آزمایا ۔ کبھی ’ اکیلا چلو‘کی پالیسی اپنائی،تو کبھی علاقائی اورچھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی،یہاںتک کہ اب ان کمیونسٹوں کے ساتھ اتحاد کررہی ہے ، جن کے خلاف ہمیشہ پارٹی رہی خصوصاکیرالہ میں۔ غیرگاندھی ملکاارجن کھڑگے کوپارٹی کا صدر بنایا اور دلت چہرے کو آگے کیا پھر بھی’ مرض بڑھتاگیا جوں جو ں دواکی ‘کی مصداق بن کر رہ گئی ۔کوئی بھی حربہ یا حکمت عملی کارآمد ثابت نہیں ہورہی ہے ۔ پارٹی ایک بار پھر اتحاد کی راہ پر چلنے کی بات تو کہہ رہی ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ قومی سطح پر اس کی قیادت کو علاقائی پارٹیاں تسلیم کریں گی ؟کیونکہ جن علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرناہے ، ان کے اورکانگریس کے ووٹر یکساں ہیں ، پھر وہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے اپنے لئے کیسے خطرہ مول لے سکتی ہیں ؟
[email protected]
کانگریس کا حال
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS