یوگیندر یادو
میرے ایک قریبی دوست کا آسام سے ای میل آیا جس میں انہوں نے پوچھا ’’کیا ہم عدالتوں سے درخواست کرسکتے ہیں کہ وہ مداخلت کرکے ہر سال آنے والے سیلاب کو رکوا سکے گی۔‘‘یہ بات انہوں نے کچھ جھجھک کے ساتھ لکھی شاید ان کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، اور یہ کہ انہوں نے یہ سوال صحیح جگہ بھی اٹھایا ہے یا نہیں۔ دیگر بات یہ کہ یہ صاحب جوکہ اکثر مجھ سے بات کرلیا کرتے تھے ان کوجھجھک محسوس کیوں ہوئی، ان کو اس بات کا یقین تھا کہ اگر پرشانت بھوشن اگنی پتھ کے خلاف پٹیشن دائر کرتے ہیں تو ملک تباہی سے بچ جائے گا یا گیہوں کی برآمد، یا برآمدات پر مکمل پابندی کا معا ملہ وغیرہ ہو یہ سب معاملے میرے لئے اہم ہیں لیکن میں ابھی اس نتیجے پر نہیں پہنچ پایا ہوں کہ کیا ان تمام مسائل کا حل قانون کے ذریعہ نکالا جاسکتا ہے۔ یہ خمیازہ ہے پرشانت بھوشن کو اپنا دوست بنانے کا۔ میں اکثر پرشانت بھوشن سے ان تمام ایشوز پر رائے مشورہ کرتا رہتا ہوں۔
میں نے دیکھا ہے کہ اس قسم کی درخواستوںکے الگ الگ زمرے ہوتے ہیں۔ یہ سب میرے دوست چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا سیاسی نظام قانونی مداخلت سے سدھر جائے۔ 1960 اور 1980کی دہائی میں میں نے کئی دفعہ سوچا کہ موجودہ First-past-the-post voting انتخابی نظام کو تبدیل کردیا جائے۔ پھروہ دور بھی آیا جب انتخابی اصلاحات کا معاملہ مباحث کا حصہ بنا۔ یہ اس وجہ سے ہوا کیونکہ ہندوستان کے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر ٹی این سیشن اس قسم کے مطالبات کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ مطالبات بڑھنے لگے۔ ایک دوریہ آیا کہ جب یہ رائے دی گئی کہ ہم غیرسنجیدہ امیدواروں کو انتخابی عمل سے دور رکھیں،یا یہ کہ ہمیں انتخابات میں کسی بھی ایک پارٹی کو مکمل اکثریت نہ ملنے کے اس رجحان Fragmentation of the verdict کو روکنا چاہئے۔ ایک مشورہ یہ بھی آیا کہ ہمیں جرائم پیشہ اور کرپٹ لیڈروںکو منتخب ہونے سے روکنا چاہئے اورپھر ہر روز اس قسم کے مشوروں کی لسٹ طویل ہوتی گئی۔ بعد میں یہ مطالبہ اٹھا کہ ہمیں ذات یا فرقہ واریت کی بنیاد پر ووٹ کی اپیل کرنے والوں سے نجات حاصل کرنی چاہئے اور ان کو الیکشن لڑنے سے روکنا چاہئے۔بعد میں ایک مشورہ یہ بھی آیا کہ ہمیں انتخابات میں کئے جانے والے مطالبات اور وعدوںکو ایک قانونی بساط دے کر ان پر عمل آوری لازمی قرار دے دینی چاہئے۔
جب کبھی بھی میرے سامنے اس قسم کے مطالبات اورمشورے آتے ہیں تو مجھے وہ لطیفہ یاد آتا ہے جس میں ایک شخص بجلی کے کھمبے کے نیچے اپنی گمشدہ چابیاں تلاش کر رہا تھا۔ جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ بھائی تم نے اپنی چابیاں کہاں گرائی تھیں تو اس نے کہا کہ وہاں دور جہاں اندھیرا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا تو اپنی گمشدہ چابیاں تم اس بجلی کے کھمبے کے نیچے کیوں تلاش کر رہے ہو تو اس نے بڑی معصومیت سے جواب دیا میں اپنی چابیاں یہاں اس لئے تلاش کر رہا ہوں کیونکہ یہاں پر روشنی ہے۔ میرے خیال میں وہ تمام لوگ جوکہ سیاست میں ہونے والی تمام خرابیوں کا علاج قانونی، عدالتی یا ادارہ جاتی مسائل میں تلاش کر تے ہیں، وہ اسی معصوم شخص کی طرح ہیں جوکہ اپنی کھوئی ہوئی چابیاں بجلی کے کھمبے کے نیچے تلاش کر رہا ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ معاملہ وہ لوگ اٹھا رہے ہیں اور عدالتی مداخلت کا مطالبہ کر رہے ہیں جن کا تعلق عام آدمی کے مسائل سے نہیں ہے اور عام آدمی اپنی خواہشات کو جمہوریت میں تلاش کرتا ہے۔
1996میں میںنے ایک آرٹیکل لکھا تھا یہ انتخابی اصلاحات کے بارے میں تھا۔ یہ آرٹیکل سمینار جوکہ ایک انگریزی ماہنامہ ہے، کے 440ویں ایڈیشن میں شائع ہوا جو اپریل 1996 میں منظر عام پر آیا۔ اس آرٹیکل کا عنوان تھا ’متوسط طبقہ کی خواہش سے بالاتر‘۔اس کے بعد سے کچھ نہیں ہوا اور اتنا ہواکہ جولوگ میرے ہمدرد تھے ان میں سے کچھ مجھ سے ناراض ہوگئے۔ بعد میں میں نے ایک اور آرٹیکل لکھا جس میں میں نے تفصیل اور انتہائی سنجیدگی سے یہ بتایا کہ میں کیا بات کہنا چاہتا ہوں کہ آج کے دور میں اصلاحات کیوں اور کس حد تک ضروری ہیں۔ میں نے اس آرٹیکل میں تفصیل سے یہ بتانے کی کوشش کی کہ کس طرح سیاسی اصلاحات کو پایہ تکمیل تک پہنچا یا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ لوگ جوکہ سیاسی خامیوںاور خرابیوںکو قانون کے ذریعہ حل کرنا چاہتے تھے ان کے جوش میں کوئی کمی نہیں آئی۔ شاید ہم ایسا ملک ہیں جوکہ جادوئی متبادل کی تلاش کرتے ہیں۔ ہم کو اس قدر جلدی ہے اورہمارے پاس اتنا کم وقت ہے کہ ہم بیماری کی تشخیص بھی نہیں کر پارہے ہیں اور ہم یہ بھی پتہ نہیں لگا پارہے ہیں کہ بیماری واقعی میں کیا ہے؟ ہم اس قدر عجلت میں ہیں کہ ہم معالج اور علاج کو چیک کرنے میں بھی اپنا وقت لگانا نہیں چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر مرض کا علاج یہیں ہو اور ابھی ہو۔
علاج جو بیماری سے زیادہ خطرناک ہے
اس پوری داستان میں تازہ ترین مطالبہ یہ سامنے آیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے اور ان سیاسی پارٹیوں کے وعدہ کرنے اور مراعات تقسیم کرنے پر پابندی کی بات کی جارہی ہے جو اس طرح کے وعدے کرتی ہیں۔ ان مراعات کو بلاوجہ کی مراعات قرار دیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ سے کہا جارہا ہے کہ وہ اس قسم کی مراعات روکنے کے لئے کام کرے۔ ورنہ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اس قسم کے وعدے کرنے والی پارٹیوں کے انتخابی نشان کو واپس لے لے۔ اس عرضی کا معیار کیا ہے اور عرضی داخل کرنے والا کس قسم کا آدمی ہے اس پر ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ بس اتنا کہنا چاہوںگا کہ اشونی اپادھیائے ایک وکیل ہیں، بی جے پی کے چھوٹے لیڈر ہیں اور اکثر غلط وجوہات سے خبروں میں نظرآتے ہیں۔ ان کو فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔ اس وقت ہمیں سپریم کورٹ کی ان مجبوریوں پر فوکس نہیں کرنا چاہئے جس کے تحت سپریم کورٹ کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ الیکٹورل بانڈس کے کیس میں کوئی سماعت کر سکے۔ الیکٹورل بانڈس کیس کا معاملہ براہ راست سیاسی اصلاحات سے جڑا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ اپنا قیمتی وقت اس قسم کی غیرسنجیدہ عرضیوں پر خرچ کر رہا ہے۔ جیسا کہ اخبارات میں آیا ہے کہ نئی بینچ چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کی قیادت میں قائم ہوئی ہے اور اس بینچ میں مرکزی سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں ایک موقف واضح کرے اور اس بات کا فیصلہ کرے کہ کیا مفت دی جانے والی مراعات جاری رہیںگی یا نہیں۔اس معاملے کی اگلی سماعت 3؍اگست کے لئے مقرر کی گئی ہے۔
ایک وقت کے لئے یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ مفت کی مراعات ایک بیماری ہے جوکافی گہرائی تک پھیلی ہوئی ہے تو ہم اس سے تعلق فکرمندافراد سے کیا مندرجہ ذیل سوالات پوچھ سکتے ہیں۔
یہ مرض کتنا سنگین ہے؟ کیا یہ معاملہ ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہوگا؟ یا اس بیماری کا علاج ممکن ہے؟ کیا ہم اس بیماری کا علاج کرسکتے ہیں؟ کیا ہم اس بیماری کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں؟ کیونکہ اس بیماری کا علاج کرنا بیماری سے زیادہ مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر یہ ایسا مرض ہے جس کا علاج کیا جاسکتا ہے تو اس کا طبیب کون ہوگا؟ اور اس کی دوا کیا ہوگی؟
اب میں کچھ دیر سوچ کر یہ بتا سکتا ہوں کہ سیاسی پارٹیوں کو ان کے انتخابی نشان سے محروم کر نے اور ان کے الیکشن جیتنے کے امکانات کو کم کرنے کی تجویز بیماری سے بدتر علاج ہے۔ کسی کے پاس بھی اس قسم کا اختیار نہیں ہونا چاہئے۔ کوئی بھی ادارہ عوام سے زیادہ بااختیاراور طاقتور نہیں ہونا چاہئے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی اپنی معتبریت اس سے بھی کم نہ ہو جتنی اب ہے تو الیکشن کمیشن آف انڈیا کو اس قسم کے اختیارات نہیں دینے چاہئے۔ میرے خیال میں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں جوحلف نامہ داخل کیا ہے وہ کافی حد تک صحیح ہے۔ الیکشن کمیشن نے کہاہے کہ اس سوال پرووٹر کو ہی فیصلہ کرنا چاہئے۔ کچھ اخبارات میں یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ چیف جسٹس آف انڈیا کی قیادت والی بینچ نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ کیا فائنانس کمیشن کو اس معاملے میں ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ کسی بھی ادارہ کو اس قسم کے معاملہ پر اختیار نہیں ملنا چاہئے۔ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ جمہوریت کو ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کسی بہانے سے اپنے سیاسی حریف کو ہم الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیں۔ہمارے ملک میں ایسا کوئی بھی متبادل نہیں ہے اورنہ ہی کھلنا چاہئے۔
کیا مفت مراعات بیماری ہیں؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بیماری کا کیا علاج ہے۔ قبل اس کے کہ ہم کسی دوسرے علاج کی طرف جائیں میرے ذہن میں ایک بات آرہی ہے کہ جمہوریت میں سیاست کو اپنے آپ کو کنٹرول کرنے کا ایک آلہ کار ہونا چاہئے۔ آپ جمہوریت کو خارجی خطروں سے روک سکتے ہیں۔ لمحاتی غلطیوں سے بچا سکتے ہیں ، کسی ایک شخص کی غلطیوں اور حماقتوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اکثریت کی بے اعتدالیوں سے بچا سکتے ہیں مگر آپ جمہوریت کو عوام سے بچا نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر مفت مراعات لوگوںکومتوجہ کرتی ہیں تو آپ اس متعلق عوام کو آگاہ کرسکتے ہیں۔ آپ ان وعدوں اور اعلانات کے کھوکھلے پن کو دوسرے اعلانات اور اقدام سے بے نقاب کر سکتے ہیں۔
آپ میڈیا کو اتنا بااختیار بنا سکتے ہیں کہ وہ ان پارٹیوں اوران لیڈروں سے یہ پوچھے کہ وہ اس قسم کے وعدے کیوں کرتے ہیں جو پورے نہیں کئے جاسکتے ہیں۔ اگر لوگوں کی غالب اکثریت طویل مدتی اقدامات پر ان دلفریب وعدوںکو فوقیت دیتی ہے تو آپ اس کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتے۔ایسے حالات میں آپ کے پاس اس قسم کے حالات سے نمٹنے کیلئے جمہوریت کو ختم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
اب میں اس بیماری کے بارے میں سوچتا ہوں۔ ہم مفت مراعات کو بیماری یا پریشا نی کیوں سمجھتے ہیں۔ ہمیں یہ لگتا ہے کہ یہ پالیسیاں غیرذمہ دارانہ ہیں اور ان سے قومی اقتصادی وسائل کی بربادی کا راستہ کھلتا ہے۔ میں کسی حد تک مفت بجلی کی پالیسی کو غلط قرار دیتا ہوں۔ لیکن مجھے اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ ہم کیوں صرف ان اقتصادی پالیسیوںپر زیادہ فوکس کرتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عام آدمی کو دی جانے والی غیرذمہ دارانہ مراعات ہیں۔ ہم کیوں فکرمندنہیں ہوتے ان بڑی اسکیموںکے بارے میں جو بڑے پیمانے پرٹیکسوں میں کٹوتی کی بات کرتی ہیں۔ یا بڑے بڑے فائدے پہنچانے والی ہوتی ہیں۔ یا امیر لوگوں کے قرضہ جات معاف کرنے کی شکل میں ہوتی ہیں۔
کیا یہ بات کہنا غیرمناسب نہیں ہے کہ صرف غریب ووٹر ہی ان غیرمناسب وعدوں اورمفت مراعات کے لئے ووٹ دیتا ہے یا یہ وعدہ اور مراعات اس قدر غیر واجبی نہیں ہیں۔ شاید یہ لوگ جمہوریت کی اساس کو سمجھتے نہیں۔ یا یہ کہ عوام معیشت کی اہمیت کو اقتصادی ماہرین کے مقابلے میں زیادہ سمجھتے ہیں۔
شایدعوام نے سمجھ لیاہے کہ عام حالات میں معمول کی پالیسیوں سے ان کا اتنا فائدہ نہیں ہو گا ، اور ان کو اب اسی طرح مفت مراعات سے جتنا حاصل ہو سکتا ہے ہو جائے گا۔ عوام کو لگتا ہے کہ کچھ براہ راست ملنے والی مراعات اور کچھ عدد اشیا ہی ہیں جو ان کو واقعی میں دستیاب ہو سکتی ہیں۔ اسی لیے ووٹر ان اشیاء اور اعلانات کے پیچھے ووٹ دینے کے لیے بھی بھاگتے ہیں۔ وہ لوگ جو ان مراعات کے لیے فکر مند رہتے ہیں یہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جن کو ایک مرتبہ ماہر اقتصادیات امرتیہ سین نے عقل مند احمق قرار دیا تھا۔
یوگیندر یادو جے کسان آندولن اور سوراج انڈیا کے تاسیسی بانی ہیں۔