ابونصر فاروق
آدمی کو جب ناکامی، رسوائی، ذلت، حقارت اور ہزیمت کا سامنا ہوتا ہے تو اُس کوغصہ آتا ہے۔ اور ا س کے ساتھ ایسے حالات پیدا کرنے والے کے لئے اُس کے دل میں شدید نفرت اور انتقام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ انتقام لینے کا جذبہ ایک نفسیاتی عمل ہے۔
انسان کا غصہ اُس کو انتقام کی اُس انتہا تک لے جاتا ہے جہاں اُس کی تسکین ہو سکے۔ انتقام کا یہ عمل کس قدر تباہی و بربادی لائے گا اس کا کوئی اندازہ انتقام لینے والے کو نہیں ہوتا۔ وہ تو بس اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈی کرنا ہی اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہے۔ کبھی کبھی دو فریق میں عمل اور ردّ عمل کاسلسلہ طویل مدت تک چلتا رہتا ہے اور اس سے معاشرے اور ماحول کو وہ نقصان پہنچتا ہے جس کی بھرپائی ممکن نہیں ہوتی۔ اس مسئلے کے حل کے لئے ایک ایسے تیسرے فریق کی ضرورت ہوتی ہے، جو ثالث کا فریضہ انجام دے سکے اور نفرت کو دور کر سکے۔
ہوتا یہ ہے کہ جب انتقامی کارروائی کے نتیجے میں تباہی اور ہلاکت کافی نقصان پہنچا دیتی ہے تب فریقین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اب مصالحت کی کوئی صورت پیدا ہو۔ پھر یا تو اُن کی اپنی کوشش سے یا کسی اور ذریعہ سے تیسرا فریق سامنے آتا ہے اور جیسے تیسے معاملہ طے کراتا ہے۔ اکثر معاملہ طے کرنے میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ اس انداز سے کئے گئے بیچ بچاؤ کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جیسے ہی ہارے ہوئے فریق کو موقع ملتا ہے وہ کامیاب فریق سے اپنا انتقام لینے کی تدبیر کرتا ہے اور فتنہ و فساد کا ماحول دوبارہ گرم ہوجاتا ہے۔
اسلام جو عدل و انصاف قائم کرنے والا ایک مکمل آسمانی نظام حیات ہے صرف وہی اس مسئلے کا مناسب ترین حل پیش کرتا ہے۔ وہ اس مسئلے کی خارجی اور داخلی دونوں تدابیر کرنے کی تلقین کرتا ہے اور تعلیم دیتا ہے۔ سورہ حجرات کا مطالعہ کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ کسی کا مذاق اڑانا، اُس کا تمسخر کرنا، اُس کو برے القاب سے یاد کرنا، بدگمانی کرنا، تجسس کرنا، غیبت اور چغل خوری کرنا ایسی برائیاں ہیں جن سے دلوں کو شدیدچوٹ لگتی ہے اور محبت کی جگہ نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ قرآن پہلے تو اپنے ماننے والوں کو اس سے روکتا اور ایسا کرنے سے منع کرتا ہے۔ اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرانے کی تاکید کرتا ہے۔ ظالم فریق سے لڑکر ظلم کوروکنے کا حکم دیتا ہے۔
’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والوں سے لڑو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو۔ اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (۹)مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے تم پر رحم کیا جائے گا۔ (۱۰)اے لوگوجو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں، آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں۔ (۱۱)اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔
تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمہارے اندر ایسا کوئی ہے جواپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھاناپسند کرے گا۔ دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔(الحجرات:۹تا۱۲)
گویا اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف پر قائم رہنے والے بے لوث، بے غرض اور خدا مست لوگوں کی ایک ٹولی ضرور ہونی چاہئے جو ایسے حالات میں فتنہ و فساد کو خیر و صلاح سے بدلنے کے لئے جہاد کرنے والی ہو۔ اگر مسلم معاشرے میں ایسے لوگ موجود نہ ہوں تو سمجھنا چاہئے کہ مسلم معاشرہ خیر سے محروم ہو چکا ہے۔
داخلی تدبیر کے طور پر قرآن اہل ایمان کی یہ صفت بتاتا ہے کہ وہ غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کی خطاؤں کو معاف کردیتے ہیں۔ غصہ ایک فطری صفت ہے جو انسان کے دل اور دماغ میں موجود رہتی ہے۔ عبادت اور ریاضت سے اس کمزوری پر قابو پانا ہی تقویٰ اور احسان کے درجے تک آدمی کو لے جاتا ہے۔ ایک اعلیٰ درجہ کا مومن پہلے تو غصہ پر ،جو شیطان کا ہتھیار ہے، قابو پا کر خود کو شیطان سے محفوظ کرنے کی تدبیر کرتا ہے اور بشری تقاضوں کے تحت جب ارد گرد کے لوگوں سے کوئی ایسا قصور سرزد ہوجاتاہے جو غصہ اور انتقامی کارروائی کا سبب بن سکتا ہے تو لوگوں کے قصور کو وہ اہل ایمان معاف کر دیتا ہے۔ صبر اور درگزر کا یہ عمل بھی اہل ایمان کی ایک نیکی شمار ہوتا ہے اور اُس کو اس پر اجر و انعام ملتا ہے۔ خیر اور نیکی کا یہ شوق ہی اہل ایمان کو ایک صابر و شاکر اور ضبط و تحمل والا انسان بنادیتا ہے، جس سے معاشرے کو امن و سکون کی نعمت نصیب ہوتی ہے۔
’’جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال۔ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں، ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔ (۱۳۴) اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام اُن سے ہو جاتا ہے یا کوئی گناہ وہ کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو فوراً اُنہیں اللہ یاد آجاتا ہے اور وہ اُس سے اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں، کیونکہ اللہ کے سوا کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو اور وہ جان بوجھ کر اپنی غلطی پر ضد نہیں کرتے۔ (۱۳۵) ایسے ہی لو گوں کا بدلہ اُن کے رب کے پاس یہ ہے کہ و ہ اُن کو معاف کر دے گا اور ایسے باغوں میں اُنہیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔ کیسا اچھا بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کے لئے۔ (آل عمران:۱۳۴تا۱۳۶)
رسول اللہ ؐنے غصہ کے سلسلے میں کس قدر تاکید سے تعلیم دی اور تلقین کی ہے ملاحظہ کیجئے:حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریمؐ کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا کہ مجھے وصیت فرمائیے: آپ نے فرمایا کہ غصہ میںنہ آیا کرو اور اسی کو بار بار دہرایا کہ غصے میں نہ آیا کرو۔(بخاری)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:پہلوان وہ نہیں جو پچھاڑ دے، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ (بخاری/ مسلم)
عطیہؓ بن عُروہ سعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے او ر پانی ہی آگ کو بجھاتا ہے، لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وضو کر لیا کرے۔(ابوداؤد)
ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا:اگر تم میں سے کسی کوغصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے،اگر غصہ چلا جائے تو ٹھیک ورنہ لیٹ جائے۔(احمد، ترمذی)
ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:کسی بندے نے اللہ تعالیٰ کے نزدیک غصہ کے گھونٹ سے افضل کوئی گھونٹ نہیں پیاجس کو وہ رضائے الٰہی کے لئے پئے۔ (مسنداحمد) انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا: جس نے زبان کو روکا تو اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ ڈال دے گا، جس نے غصہ کو روکا تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس سے اپنے عذاب کو روک لے گا اور جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے عذر کو قبول کیا تو اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول کرے گا۔ (بیہقی)
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا: حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا ا ے رب تیرے بندوں میں تیرے نزدیک سب سے معزز کون ہے؟ رب نے فرمایا جو قدرت رکھتے ہوئے معاف کر دے۔(بیہقی)
انتقام لیتے ہوئے عدل کا تقاضہ یہ ہے کہ جتنا ظلم ہوا ہے اتنا ہی انتقام لیا جائے ، اس حد سے آگے بڑھنے کے نتیجے میں مظلوم خود ظالم بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں دو نصیحت آموز واقعات ملتے ہیں۔ شیخ سعدی نے گلستاں میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کا بیٹا اُس کے وزیر کے بیٹے کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ وزیر کے بیٹے نے بادشاہ کے بیٹے کو ماں کی گالی دے دی۔ شاہزادہ روتا ہوا باپ کے پاس آیا اور بولا کہ وزیر کے بیٹے نے ایسا کیا ہے۔ اُس کا مقصد یہ تھا کہ وزیر کے بیٹے کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ بادشاہ عدل پسند تھا، اُس نے بیٹے سے کہا جواب میں تم بھی اُس کو ماں کی گالی دے سکتے ہو، مگر بہتر یہ ہے کہ تم اُسے معاف کر دو۔ یعنی وزیر کے بیٹے سے انتقام اس سے زیادہ نہیں لیاجاسکتا تھا، کہ اُس کو بھی ماں کی گالی دے دی جائے۔
ایک بادشاہ کے ایک پیر صاحب تھے۔ ایک بار اُنہوں نے بادشاہ سے فرمائش کی کہ انہیں ایک لشکر چاہئے۔ بادشاہ نے پیر صاحب سے ضرورت پوچھے بغیر لشکر تیار کرنے کا حکم دیا۔ پیر صاحب ہاتھی پر سوار ہوئے اور لشکر لے کر چلے۔کسی کو نہیں معلوم کہ لشکر کہاں جائے گا اورکس سے جنگ کرنی ہے۔ بس پیر صاحب کا حکم اور بادشاہ کا فرمان۔ شہر سے باہر نکل کر پیر صاحب ایک جھونپڑی کے پاس پہنچے اور ہاتھی پر سے چیخ کر کہا بیوی ٹی وی۔ پھر لشکر کو حکم دیا کہ بس کام ہو گیا واپس چلو۔ جب بادشاہ کے پاس واپس آئے تو اُس نے پیر صاحب سے پوچھا کون سا معرکہ سر کرنا تھا ؟ پیر صاحب نے کہا ایک معمولی عورت نے مجھے میاں ٹیاں کہہ دیا تھا۔ میں نے بھی اُس سے بدلہ لے لیا۔ جا کر کہہ دیا بی وی ٹی وی۔یہ دونوں واقعات بتاتے ہیں کہ عدل و انصاف کے تحت انتقام لینا چاہیں تو کیسے لے سکتے ہیں۔ کسی کے ظلم اور زیادتی پر صبر کرنا ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے۔ ایسی عبادت جس میں خود کچھ نہیں کرنا پڑتا ہے صرف صبر کرنے اور خاموش رہ جانے سے اعلیٰ درجہ کا ثواب اور اجر ملتا ہے۔آج کی دنیا والے یا تو کسی بھی ظلم و زیادتی کا بدلہ لینا فرض سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ظلم کا بدلہ نہ لینا بھی پاپ ہے۔ یا پھر یہ فلسفہ پیش کرتے ہیں کہ کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو اُس کے سامنے دوسرا گال بھی حاضر کر دو کہ ایک اور طمانچہ مار لو۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں اور ان سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔ اسلام عدل و اعتدال کا دین ہے۔ اُس کا سب سے اہم فریضہ اور اعلیٰ درجہ کی عبادت نیکی کو پروان چڑھانا اور برائی کو روکنا اور مٹانا ہے۔ وہ نہ تو بدلہ ضرور لیا جائے یہ کہتا ہے اور نہ ظلم و زیادتی کو بالکل معاف کردینے کا حکم دیتا ہے۔اسلام کے احکام دو حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک کا تعلق انسانوں کی ذاتی زندگی سے ہے اور دوسرے کا تعلق سماج کی اجتماعی زندگی سے ہے۔انفرادی طورپر وہ اہل ایمان کو اُس کے ساتھ جو ظلم و زیادتی کی جارہی ہے اُسے معاف کردینے کا حکم دیتا ہے۔ لیکن دوسرے کے ساتھ اگر ظلم اور ناانصافی کی جارہی ہے تو سماج کا یہ فرض ٹھہراتا ہے کہ پہلے ظلم اور نا انصافی کرنے والے کو سمجھائے اور یہ برائی کر کے جہنم سے جانے سے بچائے اور ا س کی تلقین کرے کہ ظلم نہ کرو۔
اگر ظالم اپنے ظلم سے توبہ نہ کرے اور ظلم و نا انصافی پر ڈھٹائی دکھائے تو سماج مظلوم کے حق میں اُس سے لڑے اور کمزور کو طاقتور کے ظلم اور ناانصافی کا شکار ہونے سے بچائے۔ اس تدبیر سے سماج کا کمزور طبقہ طاقتور طبقے کی دست درازیوں سے محفوظ رہے گا۔مگر صورت حال یہ ہے کہ دور حاضر میں سارے کے سارے مسلمان دنیا پرست، خود غرض اور مطلبی ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے فائدے کو نقصان سے بچانے کے لئے حق کا ساتھ دینے کی جرأت نہیں رکھتے اور ناحق اور نا انصافی سے لڑنے اور اُس کو روکنے کا ارادہ ہی نہیں کرتے۔ غیر مسلم سماج کے ساتھ ساتھ مسلم سماج بھی ہر طرح کی برائیوں ظلم اور ناانصافیوں کا اکھاڑا بنا ہوا ہے۔ مسلمان پڑوسی غیر مسلموں کے مسائل کیا حل کریں گے یہ خود اپنے مسائل میں ایسے الجھے ہوئے ہیں جن سے ان کو زندگی بھر نجات نہیں ملنے والی ہے۔