شیر خدا داماد رسول حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ

0

از قلم : مجاہد عالم ندوی
استاد : ٹائمس انٹرنیشنل اسکول محمد پور شاہ گنج ، پٹنہ
رابطہ : 8429816993

آپ کا نام علی ، کنیت ابو تراب اور ابو الحسن ، لقب حیدر اور خطاب امیر المؤمنین تھا ، آپ کے والد کا نام ابو طالب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد تھا ، آپ رسول اللّٰہ کے چچا زاد بھائی تھے ، ہجرت سے اکیس سال قبل آپ کی ولادت ہوئی ۔

ابو طالب کثیر الاعیال تھے ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کا بوجھ کم کرنے کے خیال سے حضرت علی کو اپنی پرورش میں لے لیا ، جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کیا گیا اس وقت علی کی عمر آٹھ سال تھی ، ایک مرتبہ انہوں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو حیران ہوئے اور پوچھا ، ٫٫ یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ٫٫ میں اللّٰہ تعالٰی کا نبی ہوں ، تم بھی شرک چھوڑ کر اللّٰہ تعالٰی کی توحید پر ایمان لے آؤ ٬٬ ۔
چنانچہ بچوں میں آپ ( حضرت علی ) سب سے پہلے مسلمان ہوئے ، اب حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہنا شروع کر دیا اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی اللّٰہ تعالٰی کی عبادت بھی کرتے ، جب اللّٰہ تعالی نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ اپنے رشتے داروں کو دین اسلام کی دعوت دیں تو حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ہی جا کر سب خاندان والوں کو بلا کر لائے ، جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آپ کو ہجرت کا حکم ملا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ پر حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو سُلا دیا ، گویا جان کا خطرہ تھا لیکن حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے بے مثال جرأت کا ثبوت دیا اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جگہ پر سو گئے ، جب دشمنوں نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جگہ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو پایا تو کفِ افسوس ملتے رہ گئے ، اس کے بعد حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ تین روز تک مکہ میں رہے ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جن لوگوں کی امانتیں آپ کو لوٹانے کی غرض سے دے کر گئے تھے ، آپ نے وہ امانتیں لوگوں کو واپس کر دیں اور اس کے بعد آپ بھی مدینہ کو ہجرت کر گئے ، مسجد نبوی کی تعمیر میں آپ بھی اینٹ اور گارا لا کر دیتے تھے ۔

حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نہایت بہادر تھے ، انہوں نے بے شمار جنگوں میں شرکت کی اور دشمنوں کو زبردست جانی نقصان پہنچایا ، آپ سب سے پہلے جنگ بدر میں شریک ہوئے اور اسلام کے ایک زبردست دشمن ولید کو قتل کیا ، فتح کے بعد مال غنیمت سے حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو ایک زِرہ ، اور ایک تلوار ملی ۔

سن 2 ہجری میں حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا نکاح آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا سے ہوا ، ان سے آپ کے دو صاحبزادے حضرت حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اور حضرت حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ پیدا ہوئے ، یہ دونوں بھی دینی علم اور فراست میں اعلٰی درجہ رکھتے تھے ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے ان نواسوں سے بے انتہا محبت کرتے تھے ، حتیٰ کہ اگر نماز میں یہ بچے آ کر مخل ہوتے تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کو کچھ نہ کہتے بلکہ پیار سے ان کو الگ کر دیتے تھے ۔

آپ شروع میں محنت مزدوری اور مال غنیمت پر گزارا کرتے تھے ، فتح خیبر کے بعد آپ کو جاگیر مل گئی ، حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے بدری ہونے کے سبب ان کا پانچ ہزار درہم وظیفہ مقرر کر دیا ، جب حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو بیت المال سے بقدر ضرورت وظیفہ لینے لگے ، آپ کی تمام آمدنی فقراء اور مساکین پر خرچ ہوتی تھی ، خود سادہ رہتے اور روکھا پھیکا کھاتے تھے ، آپ پیوند لگے کپڑے بھی پہن لیتے تھے ۔

حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نہایت صائب الرائے تھے ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اکثر ان سے مشورہ لیتے تھے ، رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی آپ کی اس خوبی کو پسند فرماتے تھے ، اسی وجہ سے آپ یمن کے قاضی مقرر کیے گئے اور بہترین قاضی ثابت ہوئے ، آپ نے جن مقدمات کا فیصلہ جس طرح کیا آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی ان کو ایسے ہی قائم رکھا ، آپ نے مقدمات کا فیصلہ کس طرح کیا ، اس کے لئے دو واقعات درج ذیل ہیں ۔

( 1 ) ایک شخص کو چوری کے الزام میں حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے سامنے پیش کیا گیا اور دو گواہ بھی لائے گئے ، حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی نے گواہوں سے کہا کہ اگر تمہاری شہادت چوٹی ثابت ہوئی تو تمہیں سخت سزا دی جائے گی ، کچھ دیر بعد دیکھا کہ دونوں گواہ نو دو گیارہ ہو گئے ، آپ نے ملزم کو بے گناہ کر چھوڑ دیا ۔

( 2 ) ایک اور معاملے میں آپ نے انتہائی درجے کی فراست کا ثبوت پیش کیا ، مقدمہ یہ تھا کہ دو شخص کہیں جارہے تھے ، دونوں میں سے ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں جبکہ دوسرے کے پاس تین روٹیاں تھیں ، جب دونوں کھانے کے لئے بیٹھے تو وہ وہاں ایک تیسرا شخص بھی آ گیا ، انہوں نے عرب مہمان نوازی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس شخص کو بھی اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرلیا ، کھانے سے فارغ ہو کر اس شخص نے ان دونوں کو آٹھ درہم دیے ، جس شخص کی پانچ روٹیاں تھیں اس نے پانچ درہم اپنے پاس رکھے اور باقی تین اپنے ساتھی کو دے دیے جس کی تین روٹیاں تھیں ، لیکن تین روٹی والا شخص اس تقسیم پر راضی نہ ہوا اور نصف درہم یعنی آٹھ درہم میں سے چار درہم طلب کیے ، مقدمہ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے سامنے پیش ہوا ، انہوں نے سارا ماجرا سن کر تین روٹی والے شخص سے کہا کہ تم اپنے ساتھی کی بات مان لو نفع میں رہو گے ، نہیں تو مجھے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا پڑے گا ، وہ شخص اس بات پر راضی نہ ہوا ، آخر میں حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فیصلہ کیا کہ جس شخص کی پانچ روٹیاں تھیں اس کو سات درہم دیے جائیں اور جس شخص کی تین روٹیاں تھیں اس کو ایک درہم دیا جائے ، اب تو وہ شخص جس کی تین روٹیاں تھیں ہکا بکا رہ گیا ، ذرا آپ غور تو کیجیے یہ فیصلہ برحق کیسے ہوا ؟ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے نا انصافی کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ، حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا کہ ان دونوں نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ تینوں نے برابر روٹیاں کھائی ہیں ۔

حضرت علی نے یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا کہ اگر ہر روٹی کے تین تین ٹکڑے کیے جائیں تو ہر شخص نے ایک روٹی میں سے ایک ٹکڑا کھایا ، کل روٹیاں تھیں اٹھ ، اس لیے کل ٹکڑے ہوئے چوبیس ، اس طرح ہر شخص نے اٹھ اٹھ ٹکڑے کھائے ، جس شخص کی پانچ روٹیاں تھیں ان میں سے پندرہ ٹکڑے ہوئے جن میں سے آٹھ ٹکڑے اس شخص نے کھائے باقی سات مہمان نے اور جس شخص کی تین روٹیاں تھیں ، ان میں سے نو ٹکڑے ہوئے جن میں سے آٹھ ٹکڑے اس شخص نے کھائے اور باقی بچا ایک ٹکڑا وہ مہمان نے کھایا ، لہٰذا پانچ روٹی والے شخص کے سات ٹکڑے مہمان نے کھائے اس لیے سات درہم اس کو دئیے گئے ، جب کہ تین روٹی والے شخص کا ایک ٹکڑا ہی مہمان نے کھایا اس لیے اس کو ایک درہم دیا گیا ، ہو گیا نا انصاف!

غرض حضرت علی نے اپنی فہم و فراست سے بہت سے فیصلے کیے ، حضرت علی کو آج بھی لوگ نہایت عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، وہ اعلیٰ درجے کے مدبر اور منتظم بھی تھے ۔

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS