ڈاکٹر ریحان اختر
اسلام ایک کامل دین اورمکمل دستور حیات ہے، جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے، اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زوردیتاہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتاہے،اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد انسانی معاشرے کی اصلاح کرنا ہے، اور اس طرح اصلاح کرنا ہے کہ دنیا میں تمام انسان امن و امان کی زندگی بسر کریں اور اس طرح زندہ رہیں کہ اخلاق کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹے اور آخرت کی لامتناہی زندگی کے لیے پورے اخلاق و تقویٰ کے ساتھ تیاری کریں ان سے راضی ہو، اسلامی تعلیم کا یہ بنیادی مقصد صرف اس طرح سے حاصل ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہم رسول ﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے یہ معلوم کریں کہ حضور ﷺ نے معاشرے کی اصلاح کس طرح کی تھی۔اسلامی معاشرہ‘ایک نظریاتی معاشرہ ہے جس میں بسنے والے مسلمان اسلامی عقائد اور مسلم نظام حیات کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ اسلامی معاشرہ انسانی حاکمیت کے بجائے اتباع واطاعتِ الٰہی پر مبنی ہوتا ہے۔ اور اس نظامِ اطاعت کی وضاحت علما و صلحاء کرام کرتے ہیں، اور حکام ووالیان اس نظام کی تنفیذ کرتے ہیں۔
تصوف :
تصوف بنیادی طور پر نہ تو ذکر واذکار کا نام ہے اور نہ ہی خاص طور و اطوار کا نام ہے بلکہ یہ اس کی شاخیں ہیں۔ اصل میں تصوف انسان کے اندر بنیادی سطح پر ایسی تبدیلی کرنا مقصود ہے جو انسان کے جملہ خصائل رذیلہ یکسر بدل کر اسے روحانی اقدار کا پیکر بنا دے۔
تصوف لغت کے اعتبار سے
تصوف کا لفظ تفعل کے باب سے ہے اور عربی میں تفعل تکلف کا تقاضا کرتا ہے۔ تصوف اصل ہے اور اس کی فرع متصوف ہے اور ان دونوں میں فرق لغت کے اعتبار سے واضح ہے۔حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ صاحب فرماتے ہیں:الصفا ولایۃ ولہا آیۃ وروایۃ والتصوف حکایۃ للصفا بلا شکایۃ (۱)
یعنی صفائے باطن ولایت ہے اور اس کی علامت اور روایت ہے اور تصوف بلا شبہ صفائی قلب کی حکایت ہے۔ حضرت داتا گنج بخش مخدوم علی ہجویریؒ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’کشف المجوب‘‘ میں شیخ خضری کا یہ قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’التصوف صفاء السرین کدورۃ المخالفۃ‘‘ یعنی باطن کو مخالفت حق کی کدورت اور سیاہی سے پاک اور صاف کر دینے کا نام تصوف ہے (۲)
صاحب المنجد نے لفظ تصوف اور صوفی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’صفی ای تصفتۃ الشی وجعلہ صافیا‘‘ (۳)صفی سے مراد کسی شے کو صاف اور اجلا کر دینا ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی محبت کے ذریعہ صاف ہو جاتا ہے اس کو صافی اور جس کو محبوب حقیقی صاف کر دے اس کو صوفی کہتے ہیں یعنی جو آدمی محبت خداوندی کی وجہ سے نفسانی آلائشوں اور اخلاق رذیلہ سے پاک ہو جاتا ہے اس کو صافی کہتے ہیں اور جو اللہ تعالی کی محبت میں گم ہو جائے اور شدت محبت کی وجہ سے ماسوی اللہ سے منہ موڑے اور ان سے بیزاری کا اظہار کرے وہ صوفی ہے۔ اس مادہ تصوف کے اعتبار سے بندے کے اندر حد درجہ اخلاص اور صدق آجاتا ہے کہ دینوی اعتبار سے آنیوالی ہر مصیبت اور پریشانی کا مقابلہ کرتا ہے اور کسی بھی بڑے سے بڑے آمر کے سامنے سر نہیں جھکاتا بلکہ اپنی جبین اگر خم کرتا ہے تو اپنے مالک حقیقی کے سامنے جھکاتاہے۔ وہ دنیا کے سارے رشتے توڑ کر اسی سے لو لگاتا ہے اور اپنا رشتہ اسی سے جوڑتا ہے۔ اس کے سارے کام اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ اس طرح گزرتا ہے کہ وہ رضائے الہی اور نتائے خداوندی کو پالے۔
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ لفظ صوف سے مشتق ہے جس کا معنی ہے اونی لباس اس کی وجہ مورخین نے یہ بیان کی ہے کہ تابعین اور تبع تابعین کے دور میں نیک بندگان خدا نے سنت انبیاء اور صحابی کی پیروی میں از راہ عجز و انکساری اپنایا تھا اور اسی لباس کی نسبت سے انہیں صوفیاء کہا جانے لگا اور اس طریقہ زندگی کو جو محبوب حقیقی کے ساتھ دل لگا کر اس کی محبت میں فنا ہو جانے سے تشکیل پایا تصوف کا نام دیا جانے لگا۔حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:لقد ادر کن سبعین بدریا لباسہم الصوف۔(۴) میں نے ستر بدری صحابہ کود یکھاکہ ان کا لباس صوف (اون)تھا۔
عبد القادر عیسی شاذلی لکھتے ہیں ’’(صوفی) یہی وہ پاک بندگان خدا ہیں جن کے دل روشن ہیں اور ان کی توجہات دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہیں۔ ایسے لوگ اپنے محبوب حقیقی کے دیدار کے ہر وقت طالب رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان کا علائق دینوی سے منقطع ہونا اور تمام تر دینوی رنگینیوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے محبوب حقیقی کے دیدار کے لئے صف اول میں حاضر ہونے کو تصوف کا نام دیا ہے‘‘۔(۵)
تصوف کا اصطلاحی مفہوم
اگر تصوف کے اشتقاق، لغوی معانی و مطالب پر غور کیا جائے تو بدیہی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ الفاظ کے اختلافات کے باوجود ایک چیز مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ تصوف کا مقصود حاصل قلب و باطن کی صفائی و طہارت سے ہو یا اللہ تعالی سے مخلصانہ دوستی قائم کرنے سے اصحاب صفہ کے ساتھ لباس میں مشہا بہت سے ہو یا پھر ان کی طرز زندگی اپناتے ہوئے مجاہدہ و ریاضت سے یہ سارے کے سارے احوال اس جہت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انسان کی ز ندگی اس طرح منزہ مبرہ اور صاف و شفاف ہو جائے جس میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی ادنیٰ سے ادنی نافرمانی کا شائبہ تک نہ رہے۔ بندے کا ظاہر باطن قلب و روح دل و دماغ گو اس کا اٹھنا بیٹھنا، مرنا جینا اس طرح احکام شریعت کے تابع ہو جائے کہ تمام رذائل اخلاق معصیت اثم وعدوان کے میل کچیل سے اس کی زندگی پاک ہو جائے اور بندے کا دل انوار و تجلیات الہی کا مظہر بن جائے۔
تصوف کی مختصر تاریخ
تصوف کی ابتداء اور تاریخ کے تعلق سے ’’حقیقت تصوف‘‘نامی کتاب میں ہے ’’کہ ۹۴۱ھ میں حضرت ایوان رحمۃ اللہ علیہ نے بمقام جدہ طریق تصوف کو سلسلہ کی صورت میں مرتب فرما کر سلسلہ کا نام ایوان رکھا کئی لاکھ لوگوں نے اس میں شامل ہو کر تربیت حاصل کی۔ (۶)
ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:پہلا شخص جو صوفی کے نام سے مشہور ہوا اس کی تعریف کچھ اس طرح ہے کہ اس آدمی کا نام غوث بن مرہ تھا۔ جس کی والدہ کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی۔ اس شخص کی والدہ نے منت مانگی کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے بیٹا عطا کرے تو میں اس کو کعبۃ اللہ کی خدمت کے لئے وقف کر دوں گی۔ چنانچہ غوث پیدا ہوا اور اس کو کعبۃ اللہ کی خدمت کے لئے مامور کر دیا گیا۔ ایک دن گرمی کی شدت کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گیا۔ اس کی والدہ نے غوث بن مرہ کو اٹھایا تو وہ بے جان سا ہو گیا تھا۔ فوراً کہنے لگیں یہ تو صوفہ ہو گیا ہے اسی دن سے غوث بن مرہ کا نام صوفی پڑھ گیا۔ جن لوگوں نے اس کی طرح زندگی اپنا لی انہیں صوفی کہا جانے لگا۔ بعض مشہور سائنسدان جابر بن حیان کو صوفی کہتے ہیں اور بعض ابو عبد اللہ الصوفی التاثر الاندلسی کو پہلا صوفی قرار دیتے ہیں۔ بعض نے ابو ہاشم کو صوفی اول کہا اور بعض یحییٰ بن معاذ کو پہلا صوفی بتلاتے ہیں۔(۷)
معاشرہ جو کہ خود انسانوں کے مجموعے سے مل کر بنا ہے انسانی مجموعہ کو ہی معاشرہ و سماج کا نام دیا جاتا ہے،ابتدا میں انسان نے بالکل تنہائی کی زندگی بسر کی۔ وہ ہمیشہ دوسرے انسانوں سے اس لئے خائف رہتا تھا تا کہ کہیں کوئی دوسرا انسان اس کو نقصان نہ پہنچا دے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان ایک دوسرے کے عادی ہوتے گئے اور بالآخر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر پر امن زندگی گزارنے لگے اور اسی طرح معاشرہ وجود میں آیا۔ معاشرہ انسانی جسم کی مانند ہے۔ جس طرح انسانی اعضا ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اسی طرح معاشرے کے ادارے اور گروہ ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں رہ سکتے۔آج معاشرتی زندگی میں انسان مختلف مسائل اور چیلنجر کا سامنا کر رہا ہے،امت مسلمہ تمام دیگر امتوں سے افضل ہے اس لئے ضروری ہے کہ اسلامی معاشرہ بھی دیگر تمام امتوں سے افضلیت رکھتا ہو ،مگر آج یوں لگتا ہے کہ دیگر تمام اقوام کے مسائل ہمارے معاشرے میں جمع ہوگئے ہیں۔ ہر طرف بے چینی و اضطراب کا ماحول پیدا ہو گیا ہے مادہ پرستی، بے ضمیری، بے دینی اور خواہشات نفسی عام ہوگئی، اخلاقی و تہذیبی زوال نے انسانی اقدار کو پامال کردیا، معاشرہ لوٹ کھسوٹ، دہشت گردی، استحصال پسندی کا مرتکب ہو گیا ہے۔ ہمدردی کے بجائے بے حیائی عام ہو گئی ہے حرص دولت میں انسانیت کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ایسے سنجیدہ اور پر آشوب دور میں معاشرہ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بقاء امن و امان، اطمینان وسکون اور رواداری کی فضا کو قائم کرنے کے لئے صوفیانہ کردار و متصوفانہ تعلیمات و ہدایات کی بڑی اہمیت اور قدر و قیمت ہے۔ ان سارے مسائل اور خرابیوں کا ایک ہی حل ہے کہ کتاب و سنت کی طرف رجوع کیا جائے۔صوفیاء کرام اللہ کے وہ متقی اور صالح بندے ہیں جو نفسانی اغراض و آلائشوں سے اپنے آپ کو پاک کرتے ہوئے مخلص کے درجے پر فائز ہوچکے ہیں۔ ان کی صحبت، مجلس اور قربت حاصل کی جائے۔ صوفیاء کرام انسان دوست ہوتے ہیں وہ ہر مذہب و ملت کے لوگوں کو مخلوق خدا سمجھتے ہوئے ان سے محبت اور پیار کرتے ہیں۔ صوفیانہ تعلیمات اور متصوفانہ طرق ہمارے معاشرتی مسائل کو بہتر حل کرسکتا ہے۔
نفرت و عداوت :آج معاشرہ جس مہلک مرض میں مبتلا ہے ان میں سے ایک وبا نفرت و عداوت ہے جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر کے چھوڑتی ہے۔نفرت اور محبت دونوں ہی اس دنیا کا حصہ ہیں انکا وجود ایک حقیقت ہے انھیں ختم نہیں کیا جا سکتا مگر یہ ہو سکتا ہے کہ ایک کو دوسرے پر غالب کر دیا جائے۔ محبت چونکہ اللہ کو پسند ہے اس لئے اس کو غالب ہونا چاہئے۔ آج سماج میں نفرت کا غلبہ ہوتا جارہاہے جو یقینا باعث فکر ہے۔ اللہ نے اس دنیا کو محبت سے پیدا فرمایا، محبت کے لئے پیدا فرمایا پھر یہاں نفرت کا کیا کام؟ مگر افسوس کہ انسان نے اسے کئی قسم کی نفرتوں کا مسکن بنا دیا ہے۔ کہیں مذہب کے نام پر نفرت، کہیں زبان کے نام پر تعصب، کہیں رنگ اور نسل کا بھید بھاؤ تو کہیں علاقے کے نام پر جنگ۔دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو اس سے خالی ہو۔ امریکہ اور یوروپ میں سیاہ اور سفید فاموں کے اختلافات عام ہیں۔ عیسائی اور غیر عیسائی کے جھگڑے ہر جگہ دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ لیکن جب ہم تصوف کی تعلیمات پر نظر ڈالتے ہیں تو پا تے ہیں کہ پوری تصوف محبت کی تعلیمات سے بھری ہوئی ہے تصوف کی نظر میں نفرت و عداوت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، تصوف تو محبت کا پیغام ہے اور یہ محبت کو کائنات کی روح مانتا ہے۔ تصوف کی نظر میں یہ دنیا محبت کی جگہ ہے نہ کہ نفرت کی۔ نفرت کی کوکھ سے تخریب جنم لیتی ہے جبکہ محبت تعمیر کی جنم داتا ہے۔ اس دنیا کو محبت کے لئے پیدا کیا گیا ہے، نفرت کے لئے نہیں۔ انسان بھی یہاں تعمیر کے لئے آیا ہے تخریب کے لئے نہیں۔تصوف تو سراسر محبت کا پیغام دیتا ہے لہذا یہاں نفرت کو جگہ نہیں مل سکتی محبت سماج کو جوڑنے والی چیز ہے۔ دشمن کو بھی دوست بنانے والی چیز ہے۔ اسی لئے تصوف میں سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے محبت پر، بھائی چارے پر،ایک دوسرے کی غمخواری پر، تصوف کی تعلیم اگر چہ اپنے پیدا کرنے والے کی پہچان اور اسکی محبت پر مرکوز ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ یہ اس کے بندوں کے ساتھ محبت، اخلاق اور حسن سلوک کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ اس کا ئنات اور اسکی ہر چیز کو صوفی اللہ کا پر تو مانتا ہے، اس لئے وہ سب کا احترام کرتا ہے۔ آدمی جب کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کی ہر چیز سے محبت کرتا ہے۔ تذکرۃ الاولیاء میں حضرت حسن بصری ؒ کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ کسی شخص نے آپ کی غیبت کی جسکی اطلاع آپ کو ملی تو اس کے پاس تازہ کھجوروں سے بھرا طباق بھیجوایا۔ اس کے ساتھ کہلا بھیجا کہ میں آپ کا شکرگزار ہوں جو آپ نے میری غیبت کر کے اپنی نیکیوں کو میرے نامہ اعمال میں منتقل کرایا۔ اس احسان کا بدلہ میں نہیں چکا سکتا۔ تاہم یہ حقیر سا تحفہ قبول فرمائیے۔ اس سلوک کو دیکھ کر وہ بہت شرمندہ ہوا اور آکر معافی چاہی۔(8)
حسن ِ اخلاق :صوفیاء کرام اپنی پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول کی اتباع اور ان کے ذریعے بیان کی گئی تعلیمات و ہدایات کے تابع بن کر زندگی گزارتے ہیں اور حس اخلاق کے وہ نمونے پیش کرتے کہ لوگ ان کے ہاتھ بیعت کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں سماج اخلاقی برائیوں اور بگاڑ کی وجہ سے طرح طرح کے مسائل سے دو چار اور پریشان و حیران نظر آتا ہے۔ سماج سے ان مسائل کا قلع قمع کرنے کے لئے آج بھی ہمیں تصوف اور ایک صوفی کی زندگی ان کے اطوار و اخلاق کا سہارا لینا پڑے گا۔ صوفیاء کرام کے بلند اخلاق کا یہ حال ہے کہ اگر انہیں کوئی برا بھلا کہتا ہے تو مسکرا کر در گزر کرنے پر یقین کرتے ہیں، گالی کا جواب خاموشی سے دیتے ہیںاور غلطی کو معاف کرنا ان کی اولیں ترجیح ہوتی ہے چنانچہ تصوف کی کتب لاکھوں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ امام محمد غزالی علیہ الرحمہ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں:جان لو آپسی محبت، اچھے اخلاق اور اختلاف بد اخلاقی کا نتیجہ ہے۔ اچھے اخلاق باہم محبت الفت اور موافقت کا سبب ہوتے ہیں اور برے اخلاق سے بغض وعداوت، حسد اور ایک دوسرے سے پیٹھ پھیر نے جیسی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جب پیڑ اچھا ہو تو اس کا پھل عمدہ ہوتا ہے۔ (9) حسن اخلاق اور در گزر کے تعلق سے افضل الفوائد میں حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کاا یک واقعہ نقل کیا گیا ہے ’’کہ ایک نوجوان بیٹھا سارنگی بجا رہا تھا آپ کا ادھر سے گزر ہوا تو دیکھ کر آپ لاحول پڑھنے لگے وہ اس سے اسقدر آگ بگولہ ہوا کہ سارنگی سے کھینچ کر آپ کے سر پر دے مارا۔ اس سے نہ صرف بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کا سر پھٹ گیا بلکہ اسکی سارنگی بھی ٹوٹ گئی۔ آپ نے اسے کچھ نہ کہا اور گھر جا کر سارنگی کی قیمت کے ساتھ ساتھ کچھ مٹھائیاں بھی اس کے پاس بھیج دیں اور کہلا بھیجا کہ بھائی تمہاری سارنگی ٹوٹ گئی یہ اسکی قیمت ہے۔ اور سارنگی ٹوٹنے سے جو تمہیں تکلیف ہوئی اسے دور کرنے کے لئے یہ مٹھائی ہے۔ اس اخلاق نے اسے ہمیشہ کے لئے آپ کا گرویدہ بنادیا‘‘۔(10) (جاری)
ذ ہنی تناؤ اور ڈپریشن
دور حاضر میں لوگ خاص کر نوجوان ذہنی تناؤ کا شکار ہو رہے ہیں، لوگوں کی کثیر تعداد ذہنی مرض میں مبتلا ہو رہی ہیں، جس کے باعث خودکشی کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ ماہر نفسیات کا ماننا ہے کہ معاشی بدحالی یعنی دولت کے حصول میں ناکامی، دولت کا نقصان،گھریلو تشدد، کسی عزیز کے بچھڑنے کا غم اور منشیات وغیرہ ذہنی تناؤ کی بنیادی وجہ ہو سکتی ہے۔ آج معاشرہ کی ایک اچھی خاصی آبادی اس مہلک مرض کا شکار ہیں اور اگر اس بیماری کا علاج وقت پر نہ کیا جائے تو سماجی ہم آہنگی اور اطمینان و سکون معاشرے سے جاتا رہے گا۔ ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کے جتنے اور جو اسباب ہیں ان میں سے سب سے بڑے سبب کا تعلق مال و دولت کی چاہت و حصول سے ہے۔ لہٰذا دولت کی چاہت کو اگر کم کیا جا سکے تو یہ مرض بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔تصوف مادہ پرستی اور دولت کی چاہت کو انتہائی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس راستے پر چلنے کی پہلی شرط یہی ہے کہ اپنے مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔ اگر آدمی ایسا نہ کرے تو وہ سلوک کے راستے پر چل بھی نہیں سکتا۔بعض صوفیانہ افکار کو اپنا کر زندگی میں بہت حد تک بدلا ؤ لایا جا سکتا ہے۔ روپے، پیسے زندگی کی بنیادی ضرورت ہیں۔ انکے بغیر ایک قدم چلنا بھی ممکن نہیں، مگر اتنا تو ممکن ہے کہ آدمی اپنی ضرورتوں کو کم کرلے اور جو مل جائے اس پر صبر و شکر کرے۔ دولت کی چاہت میں ایسی دیوانگی نہ اختیار کرے کہ محرومی کی صورت میں اسکی جان پر بن آئے۔اس سلسلے میں صوفیہ کا پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ دولت جمع ہی نہ کرو کہ اس میں دل لگا ر ہے۔سکون قلب کے لئے سب سے بہتر طریقہ صوفیہ کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی دولت دنیا سے دستبردار ہو جائے اور سب کچھ اللہ کے راستے میں خرچ کر دے، مگر اس طریقے پر عمل آج کے انسان کے لئے بہت مشکل ہے۔ اس کے لئے دوسرا طریقہ صوفیہ کے مسلک میں مل جاتا ہے۔ صوفیاء کے نزدیک زائد از ضرورت دولت کے حصول کی طمع انسان کو تناؤ کی طرف لے جاتی ہے لہٰذا اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو بہت سے برے کاموں سے بچا جا سکتا ہے اور حصول دولت کا جنون ڈپریشن اور پھر خود کشی تک نہیں لے جاپائے گا۔
تصوف انسان کو اللہ کی رضا میں راضی ہونے کی تلقین کرتا ہے اللہ کی مرضی میں راضی رہنا اور اس کے آگے سر تسلیم کو خم کر دینا انسان کو ڈپریشن سے بچاتا ہے۔ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کی اجازت کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا ہے۔ ایسے میں انسان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ ہر حال میں اُسی کی مرضی میں راضی رہے۔ایک صوفی کا اس بات پر مکمل اعتماد اور یقین ہوتا ہے کہ آدمی خوش ہو یا نا خوش مگر اللہ کی مرضی کے مطابق ہی اس کا ئنات کا نظام چلتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے اللہ کی مرضی میں راضی ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ مولانا عبد الرحمن جامی نے لکھا ہے’’شیخ ابومحمد العتایدی رحمۃ اللہ علیہ روزانہ صرف اتنا کماتے تھے کہ دو روٹیاں پک سکیں۔ ایک روٹی وہ خود کھاتے دوسری خیرات کر دیتے تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ، چالیس سال ہو گئے میں نے چراغ نہیں جلایا ہے، یعنی اس کے حساب سے ڈرتا ہوں کہ اس کے جلانے کے لئے کتنا کمانا چاہیے، کیونکہ ہر چیز کا حساب ہوگا‘‘۔(10)