صورتحال تشویشناک!

0

اگر کسی گھر کا ایک فرد سنگین بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کا راست یا بالواسطہ اثر گھر کے دیگر لوگوں پر بھی پڑتا ہے لیکن وبا کا دائرۂ اثر ایک گھر یا چند گھروں تک محدود نہیں ہوتا۔ کورونا وائرس ایک عالمی وبا ہے۔ اس کے دائرہ ٔاثر میں دنیا کے 221 ممالک اور علاقے ہیں۔ رواں سال کی ابتدا تک 82 کروڑ، 50 لاکھ طلبا کی تعلیم پر کورونا وائرس نے اثرات مرتب کیے تھے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ کورونا لوگوں کی صحت اور ان کی جان کے لیے ہی مہلک ثابت نہیں ہوا ہے، اقتصادیات اور تعلیم کے لیے بھی نقصاندہ ثابت ہوا ہے۔ کورونا متاثرین کی تعداد کے لحاظ سے وطن عزیز ہندوستان، امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اور دوسرا ایسا ملک ہے جہاں متاثرین کی تعداد 3کڑور سے زیادہ ہے۔ رواں سال کی ابتدا میں ایسا لگتا تھا کہ کورونا وائرس سے نجات مل گئی ہے، اقتصادی سرگرمیاں بحال ہو جائیں گی، اسکول کھل جائیں گے مگر کورونا کی نئی لہر نے دیکھتے ہی دیکھتے حالات بد سے بدتر بنا دیے۔ بڑی تعداد میں لوگ کورونا سے متاثر ہونے لگے، اموات ہونے لگیں۔ ایسی صورت میں بند اسکولوں کو کھولنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا ۔ کوشش یہ کی گئی کہ طلبا کی تعلیم کا نقصان نہ ہو۔ آن لائن کلاسز کا جو سلسلہ گزشتہ برس شروع ہوا تھا، اس سال اسے دراز کرنا پڑا مگر حکومت یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ عالمی وبا کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں طلبا کی تعلیم کیسی چل رہی ہے، آن لائن تعلیم کی سہولتیں کتنے طلبا کو دستیاب ہیں۔ اس سلسلے میں ایک رپورٹ وزارت تعلیم کی طرف سے جاری کی گئی ہے جو تشویش میں اضافہ کرنے والی ہے، کیونکہ 7 ریاستوں میں 40 تا 70 فیصد طلبا کی رسائی ڈیجیٹل ڈیوائسز تک نہیں ہے۔ 22 ریاستوں اور 7 مرکز کے زیرانتظام علاقوں پر تیار کی گئی رپورٹ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کن ریاستوں میں صورتحال بدترین اور کن ریاستوں میں اچھی ہے۔ مدھیہ پردیش میں بغیر ڈیجیٹل رسائی والے طلبا کی تعداد 70 فیصد ہے تو ایسے طلبا کی تعداد بہار میں 58.09 فیصد اورآندھرا پریش میں 57 فیصد ہے یعنی مدھیہ میں 30 فیصد، بہار میں 41.91 فیصد اور آندھرا پردیش میں 43 فیصد طلبا ہی آئن لائن تعلیم حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ وہ دیگر ریاستیں جہاں صورت حال تشویشناک ہے، ان میں آسام، جھارکھنڈ، اتراکھنڈ اور گجرات شامل ہیں۔ آسام میں بغیر ڈیجیٹل تک رسائی والے طلبا کی تعداد 44.24 فیصد، جھارکھنڈ میں 43.42 فیصد جبکہ اتراکھنڈ میں 41.17 فیصد اور گجرات میں 40 فیصد ہے۔اعداد و شمار کی عدم موجودگی کی وجہ سے اترپردیش اور مغربی بنگال میں آن لائن تعلیم کی صورتحال سامنے نہیں آسکی ہے۔ تمل ناڈو کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس نے اپنے طلبا میں 5.15 لاکھ لیپ ٹاپ کی تقسیم کی ہے۔ اس وقت اسی طرح کے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے مگر ابھی تو یہی سوال جواب طلب ہے کہ کیا طلبا کے لیے تعلیم کا حصول آسان بنانا سبھی ریاستی حکومتوں کی ترجیحات میں سرفہرست ہے؟
تمل ناڈو میں بھی آن لائن کلاسز کی سہولتیں سبھی طلبا کو دستیاب کرانے کے لیے کچھ اور کیے جانے کی ضرورت ہے، کیونکہ متذکرہ رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تمل ناڈو میں 14.51 طلبا کی رسائی ڈیجیٹل ڈیوائسز تک نہیں ہے۔ ریاستوں میں سب سے اچھی صورت حال کیرالہ میں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں دہلی میں ہے۔ کیرالہ میں بغیر ڈیجیٹل رسائی والے طلبا کی تعداد 1.63 فیصد ہی ہے۔ اسی طرح دہلی میں بغیر ڈیجیٹل رسائی والے طلبا کی تعداد 4 فیصد ہے۔ شرح خواندگی میں ملک کی پوزیشن بہتر سے بہتر بنانی ہے تو بدلتے حالات کے تقاضوں پر توجہ دینی ہوگی، طلبا کی نئی ضرورتوں کو پورا کرنا ہوگا۔ کورونا کے پھیلاؤ سے پہلے جیسے پسماندہ گھروں کے طلبا کو کاپی، کتاب، یونیفارم اور دیگر اشیائے ضروریہ مہیا کرانے پر توجہ دی جاتی تھی اسی طرح انہیں لیپ ٹاپ یا ٹیب یا اسمارٹ فون کے ساتھ انٹرنیٹ کنکشن کی سہولتیں بھی دستیاب کرانی ہوں گی تبھی حالات میں تبدیلی آئے گی۔ طلبا کو جدید سہولتیں دستیاب کرانا اس لیے بھی ضروری ہے، کیونکہ دعوے سے یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ کورونا کی تیسری لہر نہیں آئے گی اور حالات یوں ہی بہتر رہیں گے جیسے ابھی ہیں۔ حالات اگر خدانخواستہ اچانک خراب ہو گئے تو پھر طلبا کو سہولتیں کیسے مہیا کرائی جا سکیں گی، اس سوال پر غور کرنے میں تاخیر نہیں کی جانی چاہیے۔ یہ بات بالکل نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ کسی ملک کی اصل ترقی سائنس اور ٹیکناجی کی ترقی مانی جاتی ہے اور یہ ترقی تعلیم پر توجہ دیے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS