دنیا کے حالات امید افزا نہیں!

0

کریمیا کا تنازع جس طرح پیدا ہوا اور روس نے جس طرح اسے اپنے ساتھ ملایا، اس وقت دنیا کے سبھی لوگ یہ نہیں سوچتے تھے کہ ایک دہائی کے اندر ہی روس، یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑ دے گا مگر دنیا کے حالات پر نظر رکھنے والے لوگوں نے اس اندیشے کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح یہ بات کہی جا رہی ہے کہ یوروپی ملکوں کے لیے یوکرین جنگ کا اصل موڑ تب آئے گا جب یوروپ میں موسم سرما کی ابتدا ہوگی، کیونکہ جاڑے کے دن کاٹنے کے لیے یوروپ بڑی حد تک روس کی گیس پر انحصار کرتا ہے، اس لیے دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ موسم سرما کی ابتدا پر یوروپی ملکوں کا روس کے تئیں کیا رخ ہوتا ہے۔ ان کے لوگ جاڑا برداشت کر پاتے ہیں یا نہیں۔ پھر یہ کہ یوکرین جنگ جس طرح آگے بڑھتی جا رہی ہے، پابندیوں کا زیادہ اثر روس پر نہیں پڑا ہے، اس سے یہ خدشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ روس یوکرین تک نہیں رکے گا۔ وہ ان ملکوں تک اپنا دائرۂ اثر بڑھانا چاہے گا جو ممالک وارسا پیکٹ کے تحت آتے تھے مگر سوویت یونین کے بکھراؤ کے بعد ان میں سے کئی ناٹو میں شامل ہو گئے تھے، اس لیے یوکرین جنگ کے تناظر میں اگر دنیا کے حالات کو دیکھا جائے تو امید افزا نظر نہیں آتے، کیونکہ ایک یوکرین کی جنگ کا اثر ہی دنیا پر پڑ رہا ہے، ان ملکوں میں گیہوں کی قلت محسوس کی جا رہی ہے جنہیں روس اور یوکرین گیہوں ایکسپورٹ کرتے تھے۔
چین کی ’قرض-جال‘ میں ضرورتمند ملکوں کو پھنسانے کی پالیسی دھیرے دھیرے دنیا بھر کے ملکوں کی سمجھ میں آنے لگی ہے۔ وہ یہ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ چین ایک توسیع پسند ملک ہے۔ وہ کب کس ملک کے علاقے پر دعویٰ کر دے،کہنا مشکل ہے۔ اس بات کو تقویت اس لیے بھی ملتی ہے، کیونکہ اس نے شرقی بحیرۂ چین میں جنوبی کوریا اور جاپان کے علاقوں پر دعویٰ کر رکھا ہے تو جنوبی بحیرۂ چین میں کئی ملکوں کے علاقوں پر دعویٰ کر رکھا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ جنوبی بحیرۂ چین کا علاقہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ اس علاقے میں 28ارب بیرل تک ہونے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ یہ راستہ سمندری راستے کے لحاظ سے بے حد اہم راستہ سمجھا جاتاہے۔ دنیا کی 3.37 ٹریلین ڈالر کی تجارت اسی راستے سے ہوتی ہے۔ ایک ٹریلین، 10 کھرب ہوتا ہے، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس راستے کی عالمی تجارت کے لیے اہمیت کیا ہے۔ چین اپنے 80 فیصد ایندھن کا امپورٹ اسی راستے سے کرتا ہے جبکہ چین کی مجموعی تجارت میں سے 39.5 فیصد تجارت اسی راستے سے ہوتی ہے، اس لیے اس راستے پر قبضہ جمائے رکھنے کے لیے چین کے امریکہ سے ٹکرانے کا اندیشہ ہے۔ اسی طرح چین پورے تائیوان پر حق جماتا ہے یعنی اسے اپنا ہی علاقہ مانتا ہے مگر امریکہ اور دیگر ممالک ایسا نہیں مانتے۔ اس ایشو پر بھی چین کے امریکہ سے ٹکرانے کا اندیشہ ہے۔ اس ایشو پر چین کتنا سنجیدہ ہے، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ امریکہ کی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے تائیوان کے ممکنہ دورے کی خبروں نے ہی چین کو مشتعل کر دیا ہے اور اس نے یہاں تک دھمکی دے دی ہے کہ اگر نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا تو اس کے ’سنگین نتائج‘ برآمد ہوں گے۔ وہ سنگین نتائج کیا ہوں گے، فی الوقت یہ کہنا مشکل ہے، کیونکہ چین،امریکہ سے براہ راست ٹکرانے سے بچتا رہا ہے مگر وہ یہ اشارہ بھی دیتا رہا ہے کہ تائیوان کو وہ ہر حال میں حاصل کرے گا،اس لیے یہ کہنا آسان نہیں ہے کہ کب تائیوان کے خلاف چین کوئی مذموم کارروائی کی پہل کر ڈالے مگر ایسا ہونے کی صورت میں یہ بات طے ہے کہ امریکہ چپ نہیں بیٹھے گا،کیونکہ چین، روس نہیں ہے۔ وہ اقتصادی طور پر کافی مستحکم ہو چکا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ اقتصادی محاذ پر امریکہ کو چین 2028 تک پیچھے چھوڑ دے گا۔ بحریہ میں چین نے کافی طاقت حاصل کر لی ہے۔ وہ فضائیہ کو مضبوط بنا رہا ہے، بری افواج کو بھی جدید بنا رہا ہے، اس لیے بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ امریکہ، زیادہ برسوں تک چین کو برداشت کرے گا مگر امریکہ اور چین کے مابین اگر باضابطہ فوجی ٹکراؤ کی صورتحال بنی تو نہ امریکہ تنہا ہوگا اور نہ چین۔ یہ بات طے سی ہے کہ دونوں اپنے اتحادیوں کے ساتھ لڑیں گے۔ اسی لیے دنیا پر غدائی بحران کا منڈلاتا خطرہ کوئی چھوٹا خطرہ نہیں ہے۔ یہ کب سنگین سے سنگین ہو جائے گا، اس کی فی الوقت پیش گوئی ممکن نہیں مگر دنیا کے بدلتے حالات اندیشے پیدا کرنے والے ہیں اور یہ اندیشے دنیا کے غریب ممالک اور غریب لوگوں کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ٹکراؤ کی صورتحال ان ملکوں کے مابین پیدا ہو رہی ہے جوایٹم بموں سے لیس ہیں۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS