مسلم رائے دہندگان کی خاموشی

0

لوک سبھا
انتخابات کیلئے سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں ۔کاغذات نامزدگی داخل ہورہے ہیں اور انتخابی مہم میں ہرامیدوار اورپارٹی مصروف ہوگئی ہے ۔بڑے بڑے لیڈران دورے کرکے انتخابی ریلیاں اور روڈ شو کررہے ہیں ۔ہر طرف الیکشن کا شور ہے۔ لوگ انتخابی جلسوں میں شریک ہورہے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں دعوے خواہ کچھ بھی کریں، عوام میں ایک طرح سے خاموشی چھائی ہوئی۔ ابھی اتنا جوش وخروش نظر نہیں آرہاہے، جتنا نظر آنا چاہئے۔ مسلمان تو ایک طرح سے خاموش ہی ہیں، حالانکہ وہ سب کی نگاہوں کا مرکز ضرور ہوتے ہیں اوران کے ووٹوں پر ہر کسی کی للچائی ہوئی نظر ہوتی ہے ،لیکن ان میں ایک طرح سے مایوسی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ دیگر برادریوں اورکمیونٹیوں کی طرح ان کی توقعات پوری نہیں ہورہی ہیں۔وجہ کچھ بھی ہو ،مسلم ووٹوں پر نہ صرف سیاسی پارٹیوں بلکہ سیاسی مبصرین کی نظریں بھی ہوتی ہیں، کیونکہ ملک میں ایسے بہت سے حلقے ہیں، جہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن رول اد کرتے ہیں۔مسلم ووٹوں کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ مثبت اور منفی دونوں طرح سے اپنا رول ادا کرتے ہیں۔ مسلمان یکطرفہ جس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، تو وہ جیت جاتی ہے اور اگران کے ووٹ تقسیم ہوکر ضائع ہوئے ، تو وہ پارٹی جیت جاتی ہے ، جس کو وہ ووٹ نہیں دیتے ۔حالیہ برسوں میں ان کے فیصلے منقسم ہی رہے ہیں ۔ انہوں نے ہر پارٹی کو آزمایا، لیکن آج بھی ان کے سامنے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ انہیں اس سے کیا ملا؟وہ پہلے سے زیادہ پسماندہ ہوئے ہیں اور ان کے مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھے ہیں۔یہ بات ان کے لئے سب سے زیادہ پریشان کن ہے، کیونکہ امید کی کرن نظر نہیں آرہی ہے اورسیاسی پارٹیو ں کی دلچسپی ان کے ووٹ لینے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔
جب بھی ملک میں انتخابات ہوتے ہیں ، خواہ وہ پارلیمانی ہوں ، یا اسمبلی اور بلدیاتی ، یہ سوال خاص طور سے موضوع بحث بنتاہے کہ مغربی بنگال ، آسام ، بہار اوراترپردیش وغیرہ میں کس پارٹی نے کتنے مسلمانوں کو ٹکٹ دیاہے اور وہاں کے مسلمان کس پارٹی یا اتحاد کو ووٹ دیں گے ؟کیاان کے ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوں گے ، یا تقسیم ہوکر ضائع ہوجائیں گے ؟حالیہ تجربات بتاتے ہیں کہ مسلم امیدوار اتنے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ مسلم ووٹر ان ہی میں کھوجاتے ہیں اور ان کو احساس ہی نہیں ہوپاتا کہ اپنی اپنی پسند کے چکر میں انہوں نے اپنی سیاسی حیثیت اور اہمیت خود ہی ختم کردی۔ سیاسی پارٹیاں صرف امیدوارکھڑی کرتی ہیں، ووٹ دینے کا فیصلہ رائے دہندگان کاہوتا ہے ، لیکن مسلم رائے دہندگان اس حقیقت کو نہیں سمجھ پاتے ہیں اور سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کی طرح وہ بھی الگ الگ خانوں اورگروپوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ عرصے میں مسلم ووٹ انتخابات میں کوئی خاص رول ادانہیں کر پائے ہیں، تاہم ان کی اہمیت ختم نہیں ہوئی ہے، وہ اب بھی برقرار ہے ۔سیاسی پارٹیاں اچھی طرح جانتی ہیں کہ جس دن مسلم ووٹ متحد ہوگئے اور انہوں نے کسی ایک پارٹی کویکطرفہ ووٹ دے دیا، توسارے اندازے غلط ثابت ہوجائیںگے اورنتائج وہ آئیں گے ، جو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔اس کے لئے پہلے جیسے سیاسی شعور کی ضرورت ہے ، اس کے بغیر مسلمان کچھ نہیں کرسکتے ۔اس وقت تو حال یہ ہے کہ وہ خود نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ وہ جو کررہے ہیں ، وہ صحیح ہے یا غلط ؟کہیں ان کا استعمال کوئی اور تونہیں کررہاہے ؟اور ان سے غلط فیصلے تو نہیں کرائے جارہے ہیں ؟ کیونکہ اب مسلمان ان حلقوں میں بھی اپنے پسندیدہ امیدواروں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہے ہیں ، جہا ں پہلے وہ آسانی سے یہ کام کرلیتے تھے ۔
مسلمانوں کے بارے میں ایک شور خاص طور سے مچایا جاتاہے کہ ان کی آبادی بڑھ رہی ہے ، لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دیتایا یہ بات موضوع بحث نہیں بنتی کہ اگر مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے تو پارلیمنٹ اوراسمبلیوں میںان کی نمائندگی کیوں گھٹ رہی ہے ؟جو مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ان دومتضاد باتوں پر سیاسی مبصرین بھی بحث نہیں کرتے کہ حقیقت کیا ہے ؟ اورفسانہ کیا ہے ؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS