دور حاضر میں بعثت رسول کی معنویت۔
امام علی فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن،
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کی مختصر حالات اور مقصد بعثت رسول کی معلومات یقیناً ہر مسلمان کو ہونا چاہئے اور بحیثیت امتی ہونے کے ہماری یہ ذمہ داری بھی ہے کہ ہم اپنے محسن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو پڑھیں اور بعثت رسول کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
20/اپریل571ء ،پیر کے دن ربیع الاول کے مہینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔مشہور تاریخ 12ربیع الاول ہے لیکن محققین کے نزدیک یہ ربیع الاول کی 9 تاریخ تھی۔
( سیرت النبی:1/109از علامہ شبلی رحمہ اللہ، الرحیق المختوم :83)۔
اگر ہم عصر حاضر میں بعثت رسول کی معنویت و مقاصد پر نظر ڈالیں تو اسکی بے شمار شاخیں نظر آتی ہیں جنکا ذکر کرنا طول مضمون کا سبب بنے گا لہٰذا عصر حاضر میں بعثت رسول کی دو چند معنویت و مقاصد کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
(1) ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دینا : اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری کائنات کے انسانوں اور جنوں کے لئے نبی اور رسول بنا کر مبعوث فرمایا ،آپ کی بعثت جس زمانے میں ہوئی وہ زمانہ اور اس زمانے کے لوگ شرک و ضلالت اور گمراہی کے اندھیروں میں سرگرداں پھر رہے تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپ کو کلمہ لا الہ اللہ کی دعوت کا حکم دیا کہ لوگو کو اس بات سے آگاہ کر دیں کہ وہ جنکی بھی عبادتیں کر رہیں ہیں یہ سب کے سب باطل اور منگھڑت معبود ہیں ان کا حقیقی معبود ایک ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے، اللہ تعالیٰ نے بعثت کے اس مقصد کو قرآن مجید میں یوں بیان کیا۔
ترجمہ : (ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگوں) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو)
(سورۃ النحل /36)۔
یاد رکھیں کہ طاغوت کا اطلاق شریعت کی اصطلاح میں ہر اس چیز پر ہے جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جائے گویا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گمراہ کو مذہب اسلام کی دعوت دی کیونکہ مذہب ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسانوں کے اندر انسانیت کی روح پھونکتی ہے چونکہ مذہب کی رہنمائی کے بغیر کسی بھی شعبہ حیات میں انسان ترقی اور کامیابی کے مسلمہ اصولوں سے ہمکنار نہیں ہوسکتاہے، یہی وجہ ہے کہ جوں جوں ترقیاتی منصوبوں اور اکتسابات میں اضافہ ہورہا ہے ، وہیں عوام کی دلچسپی مذہب سے بڑھ رہی ہے۔اگر ماہرین ومحققین اور تجزیہ نگاروں کی مانیں تو ان کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی میں نہ صرف مذہب کی ضرورت ہوگی بلکہ مذہب کا احیا اور فروغ بھی ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یوروپ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے، امریکہ میں اگرچہ مذہب سے لاتعلقی کا اظہار عام ہے لیکن دوسری طرف اعداد و شمار اشارہ کرتے ہیں کہ 1950کی دہائی کے مقابلے آج وہاں پر زیادہ لوگ خدا پر یقین رکھتے ہیں۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی، شعور و آگہی کو اعتدال، متوازن اور سنجیدہ رکھنے کے لیے مذہب اور مذہبی تعلیمات کا بنیادی کردار ہے۔ مذہب نوع انسانی کو جذباتیت اور بے راہ روی کی طرف نہیں لے جاتا ہے بلکہ اس کے اندر غور وفکر اور تعقل پسندی پیدا کرتا ہے، فہم وفراست سے نوازتا ہے، آ ج لوگ کسی بھی مذہب کے افراد کی ذاتی خامیوں کو مذہب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں جبکہ یہ نظریہ یا فکر غلط ہے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب اپنے متبعین ومعتقدین کو غیراخلاقی اعمال کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بھی طرح کے غیر سنجیدہ فعل وعمل، بد عنوانی اور تخریب کاری میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ صرف اس کا اپنا ذاتی فعل وحرکت ہے، اس کا مذہب یا دین ودھرم ذمہ دار نہیں ہے۔
(2) لوگوں کو زندگی کے بنیادی اختلافات سے نکالنے اور رضائے الہٰی کے مطابق زندگی گزارنے کی رہنمائی کرنا:
محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پہلے عرب میں بیحد اختلافات پائے جاتے تھے، لوگ ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے، بھائی بھائی کا دشمن بنا تھا، انکی آپسی لڑائی برسوں چلتی رہتی تھی، ایک باپ جب مرنے کے قریب آتا تھا تو مرنے سے پہلے بیٹے کو وصیت کرتا تھا کہ فلاں سے ہماری لڑائی ہے، اسکی اونٹنی نے ہماری اونٹنی سے پہلے پانی پیا تھا لہذا اسکا بدلہ لے کر رہنا۔
لیکن جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی اور جب آپ نے اپنا مشن چالو کیا تو لوگوں کے اصول زندگی میں پائے جانے والے تمام تر اختلافات کا حل وحی الہٰی کی روشنی میں پیش کیا، اور ان کو یہ بتایا کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف ایک اللہ کی عبادت ہو، اگر ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی میں غور و فکر کریں تو اس بات کا علم ہو جائیگا کہ صحابہ کرام کی زندگی کے ہر لمحات جہاں توحید و سنت کی اتباع تھی وہیں وہ نفوس قدسیہ صرف اور صرف رضائے الہٰی کے متلاشی تھے ،اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس مشن کو یو ں بیان کیا،
ترجمہ : (اس کتاب کو ہم نے آپ پر اس لئے اتارا ہے کہ آپ ان کے لئے ہر اس چیز کو واضح کر دیں جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور یہ ایمان داروں کے لئے راہنمائی اور رحمت ہے)
۔(سورۃ النحل/64)۔
قارئین دور حاضر میں اگر ہندوستانی شہریوں کی بات کی جائے تو لوگوں کی زندگی میں بے شمار اختلافات پائے جا رہے ہیں اور اسی اختلاف کی وجہ سے آج ملک بہت پیچھے جا چکا ہے، یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اتحاد واتفاق باعث خیر و برکت اور اجتماعی عروج و ارتقاء کا موثر ترین ذریعہ ہے جبکہ افتراق و انتشار ‘تباہی و بربادی’ غربت و افلاس کا پیش خیمہ ہے۔ تاریخ عالم کے مطالعے سے یہ بات پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں وہی قومیں اپنی عظمت کے پرچم لہراتی ہیں جنہوں نے آپسی بغض و عناد اور اختلاف و انتشار سے دور رہ کر اپنی پوری توانائی ملکی، ملی، سماجی اور سیاسی اصلاح میں صرف کیں اس کے برعکس وہ قومیں جو خانہ جنگی کا شکار ہوکر الگ الگ ٹولیوں میں بٹ گئیں انہیں زندگی کے ہر شعبے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور زندگی کے ہر شعبے میں انہیں ناکامی و نامرادی ہی ہاتھ آئی۔
موجودہ صورتحال میں میں سنی مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کسی بھی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں، سنی مسلمان معاشیات، اقتصادیات، سیاسیات، بلکہ زندگی کے تمام اہم شعبوں میں تشویش ناک حد تک بچھڑتے جارہے ہیں۔ عالمی تجارتی منڈیوں میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہوتی جارہی ہے، آپس کے اختلاف و انتشار نے انہیں پوری طرح کھوکھلا کر ڈالا ہے اسی لئے مسلمانوں کو آپسی اختلاف و انتشار کی تشویش ناک صورتحال سے نمٹنے کے لئے آپسی مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ساتھ ساتھ قرآنی اور اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونا بھی ضروری ہے۔ اسلام نے ہر موڑ پر فرد پر جماعت کو ترجیح دی ہے۔ انفرادیت کے بجائے اجتماعیت کو باعث فتح و نصرت قرار دیا ہے، فرمان رسالت ہے:
یداﷲ علی الجماعۃ (مشکوٰۃ) اﷲ تعالیٰ کی حمایت جماعت کے ساتھ ہے۔
انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے Unity is Strength یعنی اتحاد ایک عظیم قوت ہے۔ اس کی تعبیر حافظ ملت علامہ عبدالعزیز محدث مراد آبادی نے اس طرح کی ’’اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت‘‘ یہ حقیقت ہے کہ جو قوم متحد ہے وہ زندہ ہے اور جو اختلاف کا شکار ہے وہ مردہ ہے یاقریب المرگ ہے۔
(3) لوگوں کو تعلیم دینا اور ان کا تزکیہ نفس کرنا :
اللہ رب العالمین نےجہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امام اعظم بنا کر مبعوث کیا وہیں آپ کو معلم اعظم بنایا اور آپ نے لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دی، اللہ تعالیٰ نے آپ کی بعثت کے اس مقصد کو قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا۔ ترجمہ : وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے،یقینا ی اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔(سورۃ الجمعہ)۔
قارئین کرام آج کے دور میں ہر شخص خواہ وہ عالم ہو جاہل ہر کوئی علم کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے، ہر شخص بڑھے لکھے آدمی کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے صحابہ کو تعلیم دی ہے اسلام نے بھی علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔
اگر تعلیم کی بات کریں تو اسکی دو قسمیں ہیں۔
ایک علم لدنی جسے علم وہبی بھی کہتے ہیں اور دوسرا علم کسبی ہے۔
علم لدنی یا وہبی ایسے علم کو کہتے ہیں جو بذریعہ وحی و الہام منجانب اللہ عطا ہوتی ہے اور اس میں انسان کی کوشش کو ذرہّ برابر بھی دخل نہیں ہوتا ہے۔
دوسرا علم وہ ہے جس کی استعداد تمام انسانوں میں رکھ دی گئی ہے، اسے دورِ جدید کی اصطلاح میں سائنسی علوم کہا جاتا ہے، ایسے علوم کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ترجمہ: کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمان سے پانی اتارتا ہے۔ پھر ہم طرح طرح کے پھل اس سےپیدا کرتے ہیں جن کے رنگ الگ الگ ہیں اور پہاڑوں میں بعض سفید ٹکڑے ہیں اور بعض سرخ ہیں ان کے رنگ جدا جدا ہیں اور کالے سیاہ رنگوں والے بھی ہیں۔اور اسی طرح لوگوں میں نیز زمین پر چلنے پھرنے والے جانداروں میں اور چوپایوں میں سے ایسے ہیں کہ ہر ایک کے رنگ جدا جدا ہیں۔(سورہ الفاطر:28-29)۔
معزز قارئین! دور حاضر میں مسلمان دنیوی تعلیم سے کوسوں دور ہیں جسکی وجہ سے مسلم قوم تنزلی کا شکار ہو چکی ہے حالانکہ قرآن ہمیں دنیوی تعلیم حاصل کرنے پر بھی زور دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ نے جناب حضرت محمد مصطفی کو نبی ورسول بناکر علم وحکمت کے بے شمار علوم عطا فرماکر بھیجا۔ جن کی وحی کی ابتدا ہی لفظ ’’اِقْرَأْ‘‘ ۔۔۔۔۔”پڑھیے‘‘ سے ہوئی۔حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے، پھر بھی آقا نے فرمایا: ’’بے شک میں معلّم بناکر بھیجاگیاہوں۔‘‘ نیز فرمایا: ’’بے شک حکمت کے موتی مومن کی گم شدہ متاع ہے، جہاں سے ملے وہ اس کے حاصل کر نے کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپ پر قرآنِ مجید جیسی عظیم الشّان کتاب نازل کی، اس کتاب میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کوکائنات میں غور وفکر کرنے کی ترغیب اور بہت تاکید کی، متعدد آیات میں بنی آدم کو حکم دیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غوروفکر کرو ! اس کی نشانیوں کو غور سے دیکھو۔
یہی وجہ تھی کہ آٹھویں صدی عیسوی سے لے کر تیرھویں صدی تک کا یہ زمانہ علم وحکمت کا اسلامی دور تھا، اس دور میں فلسفہ، طب اور سائنس کے فراموش شدہ علوم کو مسلمانوں نے نہ صرف زندہ کیا، بلکہ اپنی جدید تحقیقات سے ان کو ایک نئی سمت دی، ابوہاشم خالد بن یزید جسے علم کیمیا کا بانی کہا جاتاہے انہوں نے اس موضوع کے متعلق کئی کتابیں لکھیں۔البیرونی نے ان کو مسلمانوں کا سب سے پہلا حکیم تسلیم کیا گیا ہے۔ جابر بن حیان جو حضرت جعفر صادق v کے شاگردتھے، انہوں نے گندھگ وغیرہ کے تیزاب اور دھاتوں کو رقیق اور پھر گیس بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔
ان مسلمان سائنس دان کی کتابوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا گیا۔ ایک اور بھی مسلمان گزرے ہیں جن کانام ابوعلی حسن بن الہشیم ہے، جنہیں یورپ والے ملک الہیزن کہتے ہیں۔ اس طرح سے کئی ایسے مسلمان سائنسدان گزرے ہیں۔ اس زمانے میں کئی مسلمان سائنسدان حیران کن طور پر مختلف ایجادات کے موجد بنے۔ ابن الہیثم،جابر بن حیان،ابنِ سینا،المقدسی،البیرونی اورابنِ بطوطہ جیسے بڑے مسلمان سائنسدانوں نے جدید مشاہدات اور تحقیقات کی روشنی میں وہ علوم دریافت کیے کہ آج بھی ان کی برابری کوئی نہیں کرسکتا۔ یورپ کی موجودہ سائنسی ترقی ان مسلم سائنسدانوں کی مرہونِ منت ہے، ان کی کتابیں یورپ کے لیے ایک رہنماکی حیثیت اختیار کرگئیں، آج بھی الشّفاء اور القانون کے حصے ان کے نصاب میں شامل ہیں۔
بہر حال! پتہ یہ چلا کہ قرآن ہمیں صرف دینی علوم کو ہی حاصل کرنے کی تاکید نہیں کرتا بلکہ دنیوی علوم کی جانب بھی توجہ مرکوز کراتا ہے۔ لیکن آج مسلمانوں کا حال یہ بن چکا ہے کہ مسلمان تعلیم کے میدان میں بہت ہی پیچھے نظر آتے ہیں، حالانکہ کہ ہندوستان میں بے شمار مدارس ہیں لیکن ان مدارس میں صرف دین کی ہی تعلیم دی جاتی ہے، دنیوی تعلیم کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور اگر کوئی مدرسہ کا طالب علم دینی تعلیم کے ساتھ دنیوی تعلیم بھی حاصل کرتا ہے تو اس طالب علم کو اس نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا جس نگاہ سے ایک خالص مدرسے کے طالب علم کو دیکھا جاتا ہے، بہر کیف آج مسلمانوں کی تنزلی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے دنیوی تعلیم کو پس پشت ڈال دیا اس لئے آج اس بات کی ازحد ضرورت ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ دنیوی تعلیم پر بھی خصوصی طور پر توجہ دی جائے اور وہ طالب علم جو صرف دنیوی تعلیم ہی کو اپنا مشن بنا لیتے ہیں ان سے بھی گزارش ہے کہ وہ دینی تعلیم کو نظر انداز نہ کریں کیونکہ دینی تعلیم فرض عین ہے اور دنیوی تعلیم فرض کفایہ ہے۔