ایس ایم عارف حسین
یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ انسان اپنے خونی رشتہ کے درد و دکھ کو ایسے محسوس کرتا ہے گویا وہ خود اس کا ہو۔ دکھ و درد کا یہ احساس بیٹیوں اور ماں باپ کو کس کیفیت سے دوچار کرتا ہے اس پر غور کرنا ضروری ہے۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بیٹیاں ماں باپ کا لخت جگر ہوتی ہیں۔ شادی کے بعد جب بیٹی گھر سے وداع ہوتی ہے تو ماں باپ اپنے آپ کو اس طرح تنہا محسوس کرتے ہیں گویا ان کے جسم کے ایک حصہ کو ہمیشہ کے لیے کاٹ کر علیحدہ کردیا گیا ہو۔ جب بیٹی کہیں دور دراز سے ماں باپ سے گفتگو کرتی ہے تو یقین مانئے بیٹی کی آواز سے ہی ماں باپ اندازہ لگاتے ہیں کہ انکی بیٹی واقعی خوشحال ہے یا پھر کسی ذہنی و جسمانی تکلیف میں مبتلا ہے ۔اگرچہ کہ بیٹی اپنی تکالیف پرہنسی کی چادر ڈالکر خوشی کا اظہار کرتی ہے۔ یہی بیٹی سسرالی افراد کی خدمت کے لیے صبح صادق نیند سے بیدار ہوتی ہے اور دن بھر گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتی ہے۔پھر اگر سسرال والوں کارویہ مختلف ہو تو ذمہ داریوں کے بوجھ کے ساتھ ساتھ ان کے غلط برتاؤ کا ناقابل برداشت بوجھ جو اس پر پڑتا ہے وہ اسے توڑ کر رکھ دیتا ہے۔لگا تار کام ، پیٹ بھر کھانا نہ ملنا،کام کے بوجھ کی وجہ سے تھکان کے باوجود آرام کا موقع نہ ملنا، طبیعت کی خرابی پر بروقت دوا کا انتظام نہ ہونا، اس پر مزید شوہر اور سسرالی افراد کی بے وجہ اوربے موقع گالی گلوج کا سامنا کرنا، ماں باپ و بھائی بہن سے ملاقات پر پابندی حتی کہ سسرال کی جانب سے وقتا فوقتا رقم کامطالبہ، ان سب تکالیف کا سامنا کرتے ہوئے اس کے سینے سے جو ’ کراہ‘ نکلتی ہے وہ ماں باپ کے کانوں کو راست سنائی دیتی ہے اگرچہ کہ ایک دوسرے کے درمیان سینکڑوں اور ہزاروں میل کا فاصلہ ہوتا ہے۔
یہ تمام حالات ماں باپ کو اندر سے رلاتے ہیں اور نتیجہ میں بے ساختہ آنسو بہتے ہیں جسکو ماں باپ کسی رومال یا دستی میں جذب کرلیتے ہیں۔ اس طرح ان دکھ بھرے آنسوؤں کو ماں باپ بڑی خوبی سے چھپانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جس کی چشم دید گواہی زمانہ کے لیے ناممکن ہے۔ حد تو یہاں تک ہوتی ہے کہ بیٹی کی ہر چھوٹی و بڑی آہ و تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے بہتے آنسو رات کے اندھیرے میں ماں باپ کے سراہنے رکھے تکیہ کی روئی میں جذب ہوجاتے ہیں،اس کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں دیکھ پاتا۔یہاں اس امر کا بھی ثبوت ملتاہے کہ ماں باپ اور بیٹی کے درمیان اللہ تعالیٰ نے حس و محبت کا کتنا گہرہ رشتہ چھپا رکھا ہے۔لہذا لوگوں خاص طورپر شوہر و سسرالی افراد کو چاہیے کہ بہو کی شکل میں گھر آنیوالی بیٹیوں کو محبت دیں تاکہ ان کے ماں باپ کے آنکھوں سے دکھ بھرے آنسوں نہ بہیں ورنہ انہیں اپنے مظالم کی وجہ سے اللہ تعالی کے غیض و غضب کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق سے بہت زیادہ محبت ہے اس لئے یہ امر بھی واضح ہے کہ مخلوق کے دکھ سے بھرے بہتے آنسو اللہ تعالیٰ تک راست نمائندگی کرتے ہوئے اس کی رحمت کو جگاتے ہیں۔ یہی رحمت ایک طرف مظلوموں کی حفاظت کرتی ہے تو دوسری طرف ظالموں پر غیض و غضب نازل کرتی ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ واضح کرتی ہے کہ’ ماں‘ کے قدموں کے نیچے جنت رکھی گئی، ’بہن‘ کو جنت میں لے جانے کا سبب بنایا گیا، ’بیوی‘ کو اولاد پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا اور اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک کہا گیا اور’ بیٹی‘ کو رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔ لہذا انسانوں کو چاہیے کہ ماں،بہن، بیوی اور بیٹی کی قدر کریں اور ان کو محبت دیکر دنیاوی زندگی میں خوشیاں بٹوریں اور آخرت میں نعمتوں سے سرفراز ہونے پر یقین رکھیں۔اللہ دنیا کے تمام لوگوں کو بیٹیوں سے محبت کرکے آخرت سنوارنے کا موقع عنایت کرے۔