زین شمسی
کچھ دنوں پہلے ’’ادبی صحافت‘‘ پر ایک سمینار کا شور سنائی دیا۔ بڑے بڑے صحافیوں کے مجمع نے سمینار کو چارچاند لگادیے۔ تفصیل تو معلوم نہیں ہوسکی، مگر وہاں موجود لوگوں کے چہرے یہ ضرور بتارہے تھے کہ اس موضوع کے ساتھ انصاف کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ’’ادبی صحافت‘‘ پر یہ پہلا سمینار تھا، اس موضوع پر بہت سارے سمینار ملک کے کئی حصوں میں منعقد کیے جاتے رہے ہیںاور جب جب اس عنوان پر سمینار ہوتا ہے تو میرے محدود ذہن میں یہ سوال کلبلانے لگتا ہے کہ آخر یہ ’’ادبی صحافت‘‘ ہے کیا؟ یہ سوال میں نے ان صحافیوں سے بھی پوچھا، جنہیں ادبی صحافت کے بڑے بڑے انعامات مل چکے ہیں۔ کچھ جوابات سے میں ذرا مطمئن ہوا، کچھ جواب سمجھ میں نہیں آئے۔ دراصل یہی نہیں بلکہ ایسے کئی عنوانات ہیں جو آج کل اردو ادب میں زورشور سے اپنی موجودگی درج کرا رہے ہیں، جیسے دلت ادب، نسائی ادب، ادبی صحافت، اردو زبان و ادب میں ہندوؤں کا حصہ، اردو کے غیرمسلم ادبا و شعرا وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اردو کا جو وسیع دائرہ ہے، اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوچکا ہے، تاہم اس سلسلہ کو کئی بار دھچکا بھی پہنچ چکا ہے۔ اس کے لیے آپ علامہ اقبال کی مثال لے سکتے ہیں۔ ٹیگور اور اقبال کے موازنہ میں جو سب سے بڑا فرق یہ پایا گیا کہ ٹیگور عالمی شاعر تھے اور اقبال پر شاعر مشرق، شاعر امت، شاعر اسلام کا ٹھپہ لگادیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ نوبل پرائز کے معاملہ میں اقبال کی شکست یقینی ہوگئی تھی۔
پریم چند جنہوں نے شہرئہ آفاق افسانے تخلیق کیے۔ غریب، لاچار، مزدور اور عورتوں کے مسائل کو دنیا بھر میں اٹھایا۔ اب انہیں دلت ادب کے زمرے میں ڈال دیا گیا، یعنی ان کے افسانے جو دلتوں کے استحصال پر قلمبند کیے گئے، وہ دلت ادب کے زمرے میں آگئے۔ ایک عظیم فنکار کا قد اس سے کتنا چھوٹا ہوگیا ہے، آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ دائرہ کوو سیع کرنا آج اردو ادب کی سب سے بڑی ضرورت ہے لیکن دائرہ کو تنگ کرنے کا رواج جاری و ساری ہے۔
ادبی صحافت کو سمجھنے کی کوشش میں نہ جانے میں نے کیا کیا نہیں سوچ ڈالا۔ ایسی صحافت جس میں ادب کی چاشنی ہو، وہ صحافت جو ادب کے بارے میں اطلاع فراہم کرتی ہو، ایسی صحافت جس کی زبان ادبی ہو یا پھر ایسی صحافت جو اردو دنیا پر محیط ہو۔ بعد میں ایک نکتہ ملا، جس سے یہ ثابت ہوا کہ ادبی کتاب کے علاوہ اگر کسی طرح کا ادب اخبار، میگزین یا جریدے میں شائع ہوتا ہے، اسے ادبی صحافت کہتے ہیں۔ مگر یہاں پر بھی یہی سوال کھڑا ہوتا ہے کہ اگر وہ ادبی صحافت ہے تو بعد میں وہ خالص ادب میں تبدیل نہیں ہوسکتی اور اگر وہ صحافت ہے تو پھر وہ خالصتاً صحافت نہیں ہے۔ کوئی بھی فن پارہ یا تو صحافت ہے یا پھر ادب۔ ادب کی اشاعت کا طریقہ اگر بدل جائے تو اسے صحافت کے زمرے میں کیسے رکھ سکتے ہیں۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ہوتا رہے تو کچھ نہ ہونے سے اچھا ہے۔ دراصل اردو ادب کا ہی دائرہ محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اب اس کے اصناف کو ہی لے لیجیے، قصیدہ، مرثیہ،داستان، انشائیہ، قطع، رباعی، مسدس، مخمس جیسے اصناف اب اردو ادب سے غائب ہوگئے۔ کل ملاکر افسانہ، ناول، غزل اور مختلف طرح کی نظمیں ہی ادبی اصناف پر راج کررہی ہیں۔ اسی طرح صحافت میں بھی دیانت داری اور سچ لکھنے کا رواج کم ہوتا جارہا ہے تو ایسے میں ان دونوں کی کل ٹھیک کرنے کے بجائے دونوں کو مشترک کرکے ایک نئی راہ ادبی صحافت کی نکال دی گئی اور اس پر دھڑادھڑ مضامین لکھے جانے لگے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ جام جہاں نما ہو، الہلال ہو، قومی آواز ہو یا راشٹریہ سہارا ہو، تمام اخبارات نے ادبی مضامین شائع کیے تو کیا اب اس کے لیے ایک نیا باب بنایا جانا چاہیے۔ ایسے میں تو پھر سائنسی صحافت، طبی صحافت، کھیل صحافت، روزگار کی صحافت، تمام طرح کے موضوعات بنتے ہیں۔ خیر بات وہی ہے کہ کچھ نہ کچھ کیا جانا چاہیے تب تک جب کوئی کام کرنے کو نہ رہے۔
نیشنل بک ڈپو، نئی دہلی سے ایک دعوت نامہ ملا کہ بچوں کی کتابوں کے ترجمہ کے لیے ایک ورکشاپ میں حاضر ہونا ہے۔ ’’بچوں کی کتابیں‘‘ اس عنوان پر بھی نظر ٹھہرنا واجب ہے مگر یہ عنوان موضوع بحث بھی ہونا چاہیے۔ جب ہم بچوں کی کتاب کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس کا موقف کیا ہوتا ہے۔ ایسی کتاب جو بچوں پر لکھی گئی؟ ایسی کتابیں جو بچوں کے لیے لکھی گئیں۔ ایسی کتابیں جو بچوں کے ذہن کو سامنے رکھ کر لکھی گئیں، یا پھر ان کے والدین کو بچوں کی پرورش کے سلسلہ میں کچھ اصلاحات پر مبنی باتیں لکھی گئیں۔ آخر کس زمرے کو ہم بچوں کی ’’کتاب‘‘ کے زمرے میں رکھیں گے۔ نیشنل بک ڈپو چونکہ خالص اردو ادارہ نہیں ہے، اس لیے اس کی پالیسی دیگر اردو اداروں کی پالیسی سے مختلف ہے۔ یہاں تمام 22زبانوں کو سامنے رکھ کر ایک طرح کی پالیسی بنائی جاتی ہے۔ اسی لیے جب باتیں ’’بچوں کی کتاب‘‘کی ہوں گی تو اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ خالص بچوں کے لیے ہوں یعنی ایسی کتاب جس میں بچے اپنی ذہنی نشوونما کے حساب سے اس کے قصے یا تصاویر سے خود کو قریب محسوس کریں۔ ہاں اس کی بھی درجہ بندی اس طرح کی گئی ہے کہ 3سے 5سال کے بچوں کے لیے، 6 سے8سال کے بچوں کے لیے، 9سے 12سال کے بچوں کے لیے کتابیں۔ اس درجہ بندی کا مقصد یہ ہے کہ ہر عمر کے بچے کی دلچسپیاں عمر کے حساب سے تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ اسی لیے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس عمر کا ذہن کس طرح کی کہانیوں کو پسند کرسکتا ہے۔ گویا کتاب کے انتخاب سے پہلے بچوں کی نفسیات کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے اور جب نتیجہ آجاتا ہے تبھی کتابوں کو لکھوانے یا اس کا ترجمہ کرانے کے لیے ادارہ ورک شاپ منعقد کراتا ہے۔ جس میں ان لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے جو دو لسانی علم رکھتے ہیں یا پھر کئی کتابوں کے مترجم ہوتے ہیں یا پھر بچوں کی کتابوںکے خالق ہوتے ہیں۔ ورکشاپ سے قبل این بی ٹی کے ڈائریکٹر یووراج ملک کی تقریر میں اردو کے تئیں جو پیار نظر آیا، وہ حیران کن بھی تھا اور باعث مسرت بھی۔ انہوں نے جب یہ کہا کہ اردو زبان میں سب کچھ ہے، فنکاری ہے، آرٹ ہے، کیلی گرافی ہے۔ بھارت کے تمام لوگ اردو ہی بولتے تھے اور جو اردو بولتے تھے، بعد میں جب جدوجہد آزادی کا مرحلہ آیا تب دیگر زبانوں کا رواج پیدا ہوا تاکہ بھارت کے دیگر لوگوں میں جو اردو نہیں بول پاتے تھے، میں آزادی کی آگ پیدا کی جاسکے۔ یوں بھی این بی ٹی میں پی ایم یووا مینٹرشپ اسکیم جب سے شروع ہوئی یہاں اردو کے کام میں اضافہ ہوا ہے۔ طلبا کے لیے مصنف بننے کی راہ کھلی ہیں۔ انہیں 50ہزار روپے ماہانہ کے طور پر 6ماہ کے لیے 3لاکھ روپے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنا پروجیکٹ بغیر کسی پریشانی کے مکمل کرسکے۔ مگر اس کی کاوشیں بھی خاطرخواہ نہیں۔
اردو زبان و ادب کے سلسلہ میں مباحث کی ازحد ضرورت ہے، کیوں کہ بہار جیسے صوبے میں بھی اب لوگوں نے اردو سے دوری بنالی ہے۔ بہت مشکل سے ہی کوئی گریجویٹ کے طالب علم اردو کو صحیح طریقے سے لکھ اور بول سکتے ہیں۔ اس لیے اب اردو والوں، اردو اداروں، اردو تنظیموں اور اردو سے وابستہ این جی اوز کو اردو کو بچانے، اردو کو پڑھانے اور اردو کو بڑھانے کی ذمہ داری کو اولیت پر رکھنا چاہیے۔ ورنہ کچھ نہ کچھ کرنے کی عادت اردو جیسی پیاری زبان کو بستر مرگ پر پہنچا دے گی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]