سراج الدین فلاحی
چند روز قبل آر بی آئی نے ہندوستان کے ہیلتھ سیکٹر کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے 50 ہزار کروڑ روپے کے ایک بڑے پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ آر بی آئی نے کہا ہے کہ کووِڈ کی موجودہ صورت حال میں ہمیں حفظان صحت کے نظام کو معیاری، مستحکم اور سب کے لیے مساوی بنانے کی ضرورت ہے، اس لیے اگر کوئی فرد یا ادارہ حفظان صحت کے ابتدائی، ثانوی اور ثالثی شعبوں میں ویکسین، میڈیکل ڈیوائسز، آکسیجن پلانٹ، پیتھولوجی لیب، وینٹی لیٹر یا اسپتال وغیرہ بنانا چاہتا ہے تو آر بی آئی اسے سستے ریٹ پر آسانی سے لون مہیا کرائے گا۔ گویا آر بی آئی ہیلتھ شعبے میں لیکویڈیٹی بڑھائے گا جس کے لیے وہ 50 ہزار کروڑ روپے کا پیکیج لے کر آ رہا ہے۔ چونکہ آر بی آئی عوام الناس کو براہ راست لون نہیں دیتا، اس لیے اس کی ہدایت پر کمرشیل بینک، NBFCs اور Intermediaries نظام صحت کو درست کرنے کے لیے الگ سے ایک ونڈو کھولیں گے جس میں 3 سال تک کی مدت کے لیے معمولی شرح سود پر خواہش مند حضرات لون لے سکیں گے۔
صحت اور تعلیم سماجی انفرااسٹرکچر کے سب سے اہم اجزا مانے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں، A sound mind in a sound body۔ باوجود اس کے اس پر ہماری سرکار اپنی قومی آمدنی کی بہت قلیل رقم خرچ کرتی ہے۔ اسی لیے ہندوستان میں نظام صحت اقوام متحدہ کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایچ او کے طے شدہ معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو امریکہ اپنی جی ڈی پی کا تقریباً 17 فیصد ہیلتھ پر خرچ کرتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ 12 فیصد، فرانس 11 فیصد، بلجیم 10.4 فیصد، برطانیہ 10 فیصد، یونان 8 فیصد اور ہمارا ملک ہندوستان، جس کی آبادی دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے،اپنی جی ڈی پی کا صرف 3.6 فیصد ہیلتھ پر خرچ کرتا ہے یعنی ہمارا ملک نظام صحت پر سب سے کم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے، چنانچہ کووِڈ کی دوسری لہرنے اسپتال میں بیڈ، ادویات، ویکسین اور آکسیجن وغیرہ کے تعلق سے ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم کی پول کھول کر رکھ دی جس کے نتیجے میں پچھلے چند دنوں کے اندر تقریباً تین سو ڈاکٹرس کے علاوہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے تڑپ تڑپ کر جانیں گنوا دیں۔ بلیک فنگس کا 314 روپے کا انجکشن لوگ 14 ہزار میں خرید رہے ہیں، ویکسین، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ کووِڈ سے نجات کا یہی ایک واحد راستہ ہے، لوگوں کو نہیں مل پا رہی ہے۔ 40 فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں لیکن ہماری سرکار ہے کہ اس کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں ہے۔ یکم فروری کو سرکار نے جب یونین بجٹ میں 35 ہزار کروڑ روپے کی ایک بڑی رقم کووِڈ ویکسین کے لیے مختص کی تھی تو اس وقت سرکار نے خوب واہ واہی لوٹی تھی۔ کہا گیا تھا کہ یہ پیسہ ریاستی سرکاروں کو دیا جائے گا۔ ریاستی سرکاریں کہہ رہی ہیں کہ پیسہ انہیں ابھی تک نہیں ملا۔ قول و عمل کا اس سے بڑا تضاد اور کیا ہو سکتا ہے کہ 2 اکتوبر کو ہندوستان اور جنوبی افریقہ ڈبلیو ایچ او سے درخواست کرتے ہیں کہ ویکسین بنانے والی کمپنیاں پے ٹینٹ کا اپنا حق چھوڑ دیں تاکہ دیگر کمپنیوں کو ٹیکہ بنانے کا موقع مل سکے۔ حالانکہ اپنے ہی ملک میں حکومت جس کے پاس بھارت بائیوٹیک کے ساتھ ٹیکہ بنانے کا مشترکہ پے ٹینٹ ہے، وہ ہندوستان ہی کی دوسری کمپنی کو ویکسین بنانے کا حق نہیں دے رہی ہے جس کی وجہ سے ٹیکہ کاری کا عمل نہایت سست ہے۔
ملک کے 447 اضلاع میں طبی مطالعے کا کوئی نظم ہی نہیں ہے۔ اس سے بڑی ناانصافی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ملک کی 70 فیصد آبادی جو گاؤں میں رہتی ہے، ان کو میڈیکل سہولتوں کا صرف 20 فیصد حصہ ملتا ہے جبکہ 30 فیصد آبادی جو شہری علاقوں میں رہتی ہے، ان کو میڈیکل سہولتوں کا 80 فیصد حصہ حاصل ہے۔ کیا یہی وجہ نہیں ہے کہ آپ کو بڑے اسپتال، نرسنگ ہوم اور ڈاکٹر نہ صرف بڑے شہروں میں ملتے ہیں بلکہ ان میں 70 فیصد پرائیویٹ بھی ہیں۔؟
آپ کو یاد ہوگا کہ ستمبر 2018 میں جب وزیر اعظم مودی نے دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ اسکیم آیوشمان بھارت کے ہندوستان میں شروع کرنے کا زور و شور سے اعلان کیا تھا تو ہر کسی نے تالیاں بجائی تھیں۔ ڈبلیو ایچ او نے اس اسکیم کوگیم چنجر کہا تھا۔ کہا گیا تھا کہ یہ اسکیم ہندوستان کے نظام صحت کو بدل کر رکھ دے گی ، چنانچہ اسے مودی کیئر کا نام بھی دیا گیا تھا۔ اسکیم کے تعلق سے کہا گیا تھا کہ آیوشمان کارڈ دکھا کر 10 کروڑ پریواروں یعنی 50 کروڑ افراد کو ہر سال 5 لاکھ تک کا علاج مفت ملے گا جس کے تحت 24432 سرکاری اور پرائیویٹ اسپتال مختص کیے گئے تھے۔ مزید کہا گیا تھا کہ دنیا میں آج تک ہیلتھ سے متعلق اتنی بڑی اسکیم لانچ نہیں ہوئی ہے جو 50 کروڑ لوگوں کو کَور کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ یہ مفت علاج ملک کے کس حصے میں چل رہا ہے ، اگر کسی کے پاس اس کا علم ہو تو بتائے تاکہ اس مہلک وبا میں آسانی سے لوگ اپنا علاج کراسکیں۔ سرکار کے مطابق، گزشتہ ایک سال کے اندر آیوشمان کارڈ سے 14 لاکھ لوگوں کا علاج کیا گیا جس پر سرکار کا کل خرچ 12 کروڑ روپے آیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکار کا فی فرد 85 روپے خرچ آیا جبکہ سرکار کے مطابق، اسپتال کے صرف جنرل بیڈ کا چارج دو ہزار روپے فی دن ہوتا ہے۔
کہتے ہیں ہندوستان گاوؤں میں بستا ہے۔ دیہی علاقوں کا حال یہ ہے کہ اس میں ڈاکٹر کی بھاری کمی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، ملک کے 447 اضلاع میں طبی مطالعے کا کوئی نظم ہی نہیں ہے۔ اس سے بڑی ناانصافی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ملک کی 70 فیصد آبادی جو گاؤں میں رہتی ہے، ان کو میڈیکل سہولتوں کا صرف 20 فیصد حصہ ملتا ہے جبکہ 30 فیصد آبادی جو شہری علاقوں میں رہتی ہے، ان کو میڈیکل سہولتوں کا 80 فیصد حصہ حاصل ہے۔ کیا یہی وجہ نہیں ہے کہ آپ کو بڑے اسپتال، نرسنگ ہوم اور ڈاکٹر نہ صرف بڑے شہروں میں ملتے ہیں بلکہ ان میں 70 فیصد پرائیویٹ بھی ہیں۔؟ ان اسپتالوں کی فیس کے حوالے سے کوئی ضابطہ کار نہیں ہے۔ یہ اسپتال علاج کی من مانی فیس وصول کرتے ہیں اور مریضوں کو لوٹتے ہیں۔ کیوں نہ لوٹیں، موجودہ وقت میں ڈاکٹر بننا بہت مہنگا سودا ہو گیا ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں ایڈمشن کے لیے ڈونیشن کروڑوں تک پہنچ چکا ہے۔ ایسے میں لوگ لون لے کر ڈاکٹر بنتے ہیں اور مریضوں سے مہنگی اور غیر ضروری ادویات اور معائنہ جات کے نام پر موٹی رقم وصول کرتے ہیں۔ سرکاری ڈسپینسریوں کا حال سب کے سامنے ہے۔ ان میں بنیادی طبی سہولتوں کا اس قدر فقدان ہے کہ ان میں ایکس رے اور خون کی جانچ کا بھی انتظام نہیں ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق، فی ہزار آبادی پر ایک ڈاکٹر ہونا چاہیے جبکہ ہندوستان اس تناسب کو حاصل کرنے میں بہت پیچھے ہے۔ یہاں 10ہزار کی آبادی پر ایک ڈاکٹر ہے۔ آپ صرف طفلی شرح اموات پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ آج بھی فی ہزار نو زائیدہ بچوں میں اوسطاً 30 بچے اپنی پہلی سالگرہ سے قبل فوت ہو جاتے ہیں جبکہ ہندوستان کے پڑوسی ملک چین میں7.4، سری لنکا میں 6.4، نیپال میں 25 اور بھوٹان اور مالدیپ میں یہ شرح 23 ہے۔ وہ بچے جو اپنی پانچویں سالگرہ نہیں دیکھ پاتے، ان کی تعداد ہندوستان میں اوسطاً 37 ہے جبکہ یہ شرح چین میں 8.6 اور سری لنکا میں 7.4 ہے۔ ان کے علاوہ ہر سال تقریباً 5 لاکھ بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے مر جاتے ہیں۔ 15 سے 49 سال کے درمیان کی 50 فیصد سے زائد عورتیں خوراک اور خون کی کمی کی وجہ سے آئرن کی قلت کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار اعداد وشمار ہیں جو ہمارے نظام صحت کو آئینہ دکھا رہے ہیں۔
٭٭٭