قانون سازیہ کو جرائم پیشہ اور قانون شکن افراد کی دست برد سے محفوظ رکھنے کیلئے ضروری ہے ان کے خلاف دائر فوجداری مقدمات کی تفتیش جلد از جلد مکمل ہو اور خاطیوں کو سزایاب کرایا جائے۔لیکن بدبختی یہ ہے کہ ملک کے قانون نافذ کرنے والے، تفتیشی اور تحقیقاتی ادارے آج کل ان ہی سیاست دانوں کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کے خلاف دائرمعاملات کی تفتیش میں قصداً تاخیری حربہ استعمال کیا جارہا ہے۔ ایجنسیوں کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ جمہوریت کے سب سے بڑے ستون مقننہ کے تقدس کی بازیابی سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت اس معاملے میں مداخلت پر مجبور ہورہی ہے۔ سپریم کورٹ نے ایجنسیوں کی سست تفتیش پر ایک بار پھر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عوامی نمائندگان کے خلاف مقدمات کی تیزی سے تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ چیف جسٹس این وی رامنا، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس سوریا کانت پر مشتمل ڈویزن بنچ عوامی نمائندوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کر رہا ہے۔ بنچ نے اس حقیقت پر اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا کہ ڈیڑھ دو دہائیوں سے بڑی تعداد میں مقدمات زیر التوا ہیں اور مرکزی تفتیشی بیورو(سی بی آئی) اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) جیسی ایجنسیاں کچھ نہیں کر رہی ہیں۔ خاص طور پر ای ڈی صرف اثاثے ضبط کر رہا ہے۔بنچ نے کہا کہ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ کئی معاملات میں اب تک فرد جرم بھی داخل نہیں کی گئی ہے۔چیف جسٹس نے مرکزی حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا کہ وہ سی بی آئی اور ای ڈی کے ڈائریکٹرز سے اس معاملے پر بات چیت کریں اور پوچھیں کہ وقت پر تحقیقات مکمل کرنے کیلئے انہیں مزید کتنے افسران کی ضرورت ہے۔ عدالت نے ایک بار پھریہ بھی واضح کیا کہ بدنیتی پر مبنی مقدمات واپس لینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کیلئے ہائی کورٹ کی اجازت ضروری ہے۔ بنچ نے یہ بھی ہدایت کی کہ مقدمات کو لٹکایا نہ جائے۔ عدالت نے کہاکہ منی لانڈرنگ کنٹرول ایکٹ سے متعلق 78 مقدمات گزشتہ 21 برسوں سے زیر التوا ہیں نیز سی بی آئی کے بھی 37کیس ابھی تک زیر التوا ہیں۔ یہ تمام معاملات معزز ارکان قانون سازیہ کے خلاف چل رہے ہیں جو پارلیمنٹ اور ریاستوں کی اسمبلی و کائونسل کاحصہ ہیں ۔
عدالت کے ان ریمارکس کو بجاطور پر سراہا جانا چاہیے۔ صحت مند جمہوریت کے لیے لازم ہے کہ سیاست کو جرائم سے پاک رکھاجائے لیکن آزادی کے بعد سے ہی ہندوستان کی سیاست دھیر ے دھیرے کرکے ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں ہماری مقننہ کے ایک قابل لحاظ حصہ کے خلاف مجرمانہ معاملات درج ہیں۔ جمہوریت کیلئے سیاست کا یہ رویہ دوسرے تمام معاملات سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نہ صرف ایم پی اور ایم ایل اے حضرات بلکہ سیاسی جماعتوں میں نچلی سطح کے لیڈران اور کارکنان بھی مختلف قسم کے جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں اور وہ اسے اپنے لیے اعزازبھی سمجھتے ہیں۔دیکھاجائے تو جرائم پیشہ اور مجرم ہونا انتخابی سیاست میں اہلیت کا پیمانہ بن گیا ہے۔صرف پارلیمنٹ اور اسمبلی کی بات نہیں ہے بلکہ ضلع پریشد، پنچایت اور بلدیاتی اداروں میں بھی زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کیلئے سیاسی جماعتیں ایسے ہی امیدوارو ں کو ترجیح دیتی ہیں۔ قانون ساز اداروںمیں ایک طرح سے ایسے ہی افراد کا غلبہ ہے۔اے ڈی آر کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2019میں منتخب ہوکر پارلیمنٹ پہنچنے والے معززارکان میں سے 45فیصد مجرمانہ معاملات میں ماخوذ ہیں اور ان پر چھوٹے جرائم سے لے کر ڈاکہ، قتل اور عصمت دری سے جیسے معاملات بھی شامل ہیں۔ جب ملک کی سب سے بڑی مقننہ کا یہ حال ہو تو نچلی سطح پر قانون سازاداروں کی صورتحال کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ضلع پریشد، بلدیاتی اور پنچایتی اداروں میں تو ایسے ہی افراد کی اکثریت ہے۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ہمارے نظام میں انتظامی ادارے ان ہی سیاسی حکمرانوں کے تابع ہوتے ہیں جن کے خلاف تحقیقات اور تفتیش کرنا ہوتا ہے۔ اعلیٰ قیادت انتظامیہ کی غیرجانبداری برقرار رکھنے میں اکثر ناکام ثابت ہوتی ہے جس کا نتیجہ ہو تا ہے کہ تحقیق و تفتیش کا عمل رفتار نہیں پکڑتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور ان کی اعلیٰ قیادت بھی ایسے افراد کی کھلی پشت پناہی کرتی ہیں۔ ابھی دو ہفتہ قبل ہی سپریم کورٹ امیدواروں کے مجرمانہ پس منظر کو عام نہ کرنے کے معاملے میں سیاسی جماعتوں پر جرمانہ بھی عائد کرچکا ہے اورعدالت نے اس وقت بھی سی بی آئی کی کارکردگی پرناراضگی ظاہر کی تھی۔اب ایک بارپھر سپریم کورٹ نے سی بی آئی اور ای ڈی کو تیزرفتار تحقیقات کی تازہ ہدایت جاری کی ہے جس پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیے۔ جب تک قانون سازاداروں کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرکے اس کا تقدس بحال نہیں کیاجاتا، اس وقت تک صحت مند جمہوریت اور جرائم سے پاک انصاف پسند معاشرہ کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔
[email protected]
مقننہ کا تقدس بحال رہنا ضروری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS