ذات و برادری کی بنیاد پر مردم شماری سماجی انصاف کا تقاضہ

0

محمد حنیف خان

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی بنیاد ذات وبرادری پر ہے۔اگر ہندو میتھالوجی کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے مطابق ابتدائے آفرینش ہی ورن (ذات)کی بنیاد ہے۔جس کو سماج کی بنیاد ہی قرار دیا گیا ہے۔آج بھی اگر کبھی کوئی بات ہوتی ہے اور اس پر انگلی اٹھائی جاتی ہے تو یہی کہہ کر اس کا دفاع کیا جاتا ہے کہ اس کے بغیر سماج کا آگے بڑھ پانا مشکل ہے لیکن جدید ہندوستان میں ذات و برادری کی اب کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔بعض ذاتوں سے متعلق تو سخت قوانین وضع کردیے گئے کہ ان کو ان کی ذات کے نام سے نہیں پکارا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے تفوق اور توہین کی بو آتی ہے۔
جدید ہندوستان کی سیاست کے دو بنیادی مرکز ہیں ،اول مذہب اور دوم ذات و برادری۔یہ دونوں مل کر سیاست دانوں کو اعلیٰ کرسیوں تک پہنچاتے ہیں، اس لیے جدت کے باوجود ذات و برادری کا مسئلہ وقتاً فوقتاً سر اٹھاتا رہتا ہے۔ اہم بات یہ ہے جو سیاست داں ذات و برادری کی بنیاد پر مردم شماری کی حمایت کرتے ہیں اور وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ اس کی بنیاد پر مردم شماری ضرور کی جانی چاہیے وہ تو اس کو اپنی سیاست کی بنیاد بنانا ہی چاہتے ہیں جو لوگ اس کے انکاری اور مخالف ہیں، اس کے بطن میں بھی اسی ذات و برادری کی ہی سیاست ہے۔جہاں 2024میں لوک سبھا کے انتخابات ہوں گے، وہیں مارچ 2022میں اترپردیش اور اس کے بعد دیگر متعدد ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہوں گے۔اسی کے پیش نظر ایک بار پھر مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا جانے لگا ہے کہ حالیہ مردم شماری ذات و برادری کی بنیاد پر کی جائے مگر مرکز کی بی جے پی حکومت اس کے لیے تیار نہیں ہے۔حالانکہ یہی پارٹی جب لوک سبھا میں حزب مخالف کی حیثیت رکھتی تھی تو نہ صرف حامی تھی بلکہ اس کا یہاں تک کہنا تھا کہ اگر ذات و برادری کی بنیاد پر مردم شماری نہیں کرائی جاتی ہے تو چھوٹی ذاتوں کے ساتھ حد درجہ نا انصافی ہو گی اور اس کے گنہگار ہم سب ہوں گے مگر آج وہ اس کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ اس کو اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں اس کی وہ سوشل انجینئرنگ دھڑام سے زمین پر نہ آجائے جس کی وجہ سے وہ اقتدار میں آئی ہے،آدی واسیوں اور قبائیلیوں کی مردم شماری ہمیشہ اسی بنیاد پر ہوتی آئی ہے لیکن اس کے علاوہ کبھی کسی طرح کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں یہاں تک کہ2011 میں سوشیو اکنامک کاسٹ سینسس(ایس ای سی سی)پر مبنی تفصیلات جمع کی گئی تھیں۔مرکز میں اس کی حامی بی جے پی کی حکومت ہونے کے باوجود 2016میں جب اس کی تفصیلات عام کی گئیں تو ذات وبرادری کی تفصیلات کو چھوڑ کر دیگر تفصیلات ہی عام کی گئیں۔یہ تفصیلات وزارت سماجی بہبود کو سونپ دی گئیں جس نے ایک کمیٹی بنادی تھی اس کی رپورٹ آج تک منظرعام پر نہیں آئی ہے،جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکمراں پارٹی کیا چاہتی ہے۔

اگر مردم شماری ہوجائے تو اس کے کئی فائدے ہیں، ذاتوں کی تعداد کا اندازہ لگ جانے کے بعد اس کے حساب سے فلاحی اسکیمیں بنائی جاسکتی ہیں، ہرطبقے کو ضرورت کے اعتبار سے سہولیات فراہم کرانے کا منصوبہ تیار کیا جا سکتا ہے،اس طرح ملک کو غربت و افلاس سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ مردم شماری اسی لیے کرائی بھی جاتی ہے تاکہ ملک میں عوام کی تعداد کا درست اندازہ ہوسکے اور اسی کے اعتبار سے فلاحی اسکیمیں تیار کی جاسکیں۔

ذات کی بنیاد پر مردم شماری سے موجودہ سیاسی وسماجی نظام کے تہہ وبالا ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ ہے کیونکہ یہ وہ قدیم ہندوستان نہیں ہے جب ذات وبرادری کی بنیاد پر سماج میں کام سونپے اور بزور قوت ان سے کرائے جاتے تھے بلکہ اب قانون کی حکمرانی ہے جس میں ہر شخص برابر ہے،سب کو یکساں حقوق حاصل ہیں،کوئی کسی کو کسی بھی کام کے لیے مجبور نہیں کر سکتا ہے،ایسے میں یہ مردم شماری ایک میں جہاں احساس برتری پیدا کرسکتی ہے تو دوسرے کو آسمان سے زمین پر بھی اتار سکتی ہے جس سے سماجی تانے بانے کے الجھ جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
زیادہ تر علاقائی پارٹیاں اس بات کی خواہاں ہیں کہ ذات وبرادری کی بنیاد پر مردم شماری کی جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ان کی تعداد کتنی ہے۔ایسی صورت میں مرکزی حکومت کے لیے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔چونکہ بی جے پی کی رہنمائی میں این ڈی اے کی تشکیل ہوئی تھی جس میں چھوٹی بڑی متعدد علاقائی پارٹیاں بھی شامل ہیں۔اگر مردم شماری کی بنیاد پر چھوٹی ذاتوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں حکومت میں حصہ داری کے لیے یہ پارٹیاں اس کی ناک میں دم کر سکتی ہیں۔اس سے بھی بڑا ایک خطرہ ہے کہ یہ پارٹیاں ریزرویشن میں اضافے کا مطالبہ کر سکتی ہیں،چھوٹی چھوٹی ذاتیں جو او بی سی میں شامل ہیں وہ اپنے لیے الگ الگ تعداد کے حساب سے ریزرویشن کا مطالبہ کر سکتی ہیں، ایسے میں حکومت کے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی ہوجائے گی اور اگر یہ تعداد کم ہوئی تو اس پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے جا نے کا خدشہ ہے کیونکہ آج بھی سماج سے لے کر سرکار تک اونچی ذاتیں نظر آتی ہیں اور ان کو ہی تفوق حاصل ہے۔ایسے میں حکمراں پارٹی کسی طرح کا خطرہ مول لینے کی ہمت نہیں کر پا رہی ہے۔
اگر یہ مردم شماری ہوجائے تو اس کے کئی فائدے بھی ہیں،ذاتوں کی تعداد کا اندازہ لگ جانے کے بعد اس کے حساب سے فلاحی اسکیمیں بنائی جاسکتی ہیں، ہرطبقے کو ضرورت کے اعتبار سے سہولیات فراہم کرانے کا منصوبہ تیار کیا جا سکتا ہے،اس طرح ملک کو غربت و افلاس سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔مردم شماری اسی لیے کرائی بھی جاتی ہے تاکہ ملک میں عوام کی تعداد کا درست اندازہ ہوسکے اور اسی کے اعتبار سے فلاحی اسکیمیں تیار کی جاسکیں۔ ہندوستان میں سب سے پہلے 1881میں پہلی بار مردم شماری ہوئی تھی،ہر دس برس پر ہونے والی مردم شماری میں سبھی ذاتوں کو شمار کیا جاتا تھا اور اس کے حساب سے اسکیمیں بنائی جاتی تھیں مگر 1931کے بعد سے دوبارہ ذات وبرادری کی بنیاد پر مردم شماری نہیں کرائی گئی اور اگر کرائی گئی تو کبھی اس کی تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔اسی کی بنیاد پر آج 90برس بعد بھی یہ مانا جاتا ہے کہ او بی سی کی آبادی 52فیصد ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کسی کو نہیں معلوم کہ کس ذات کے کتنے افراد ہیں ؟سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرذات و برادری کی بنیاد پر مردم شماری کیوں بند کی گئی؟ پہلے انگریزوں نے اس طرح کی تفصیلات کو عام نہیں کیا اور آزادی کے بعد سودیشی حکومت نے بھی وہی راہ اختیار کی تو اس کا ایک سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اس طرح کی تفصیلات کے عام ہونے کے بعد پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کا حوصلہ کسی میں نہیں رہا اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے جو مبنی برحقیقت ہے کہ اس طرح کا فیصلہ کبھی او بی سی کے ہاتھ میں نہیں رہا ہے ہمیشہ اونچی ذاتیں آگے رہیں اور ان ہی کو تفوق حاصل رہا، ایسے میں وہ ہزاروں برس کے نظام کو توڑنے کا عمل کرکے اپنے پیر پر کلہاڑی نہیں مارنا چاہتی تھیں۔وہ سماجی انصاف اور انسانی مساوات کی باتیں تقریروں اور پمفلٹوں میں تو کرتی ہیں، انتخابی منشوروں میں زور و شور سے اس کا دعویٰ بھی کرتی ہیں مگر زمینی سطح پر ایسا قدم نہیں اٹھاتیں جس سے سماجی انصاف کے تقاضے پورے ہوتے اگر ایسا ہوتا تو ذات و برادری کی بنیاد پر مردم شماری کرائی جاتی اور ہر طبقے کو اس کی آبادی کے مطابق حکومت میں حصہ داری دینے کے ساتھ ہی ایسی اسکیمیں بنائی جاتیں جن سے ہر ذات مستفید ہوتی۔
ذات و برادری کی بنیاد پر ہونے والی مردم شماری کے فائدے کو اگر مذہبی تناظر میں دیکھا جائے تو اس کا فائدہ صرف اکثریتی طبقے کو ہی ملے گا،اقلیتی طبقات کے لیے اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ملک کی اقلیت کی سب سے بڑی اکثریت مسلمان ہیں جو جنرل اور او بی سی میں تقسیم ہیں،جن میں جنرل کے مالی اعتبار سے کمزور افراد کو دس فیصد اور او بی سی کو 27فیصد ریزرویشن اس کٹیگری کے غیر مسلموں کی طرح مل رہا ہے،چونکہ اس سب سے بڑے اقلیتی طبقے کی اب کوئی سیاسی حیثیت رہی نہیں ہے، اس لیے او بی سی میں شامل چھوٹی چھوٹی ذاتوں کو ان کی درست تعداد کا پتہ ہوجانے کے باوجود کچھ نہیں ملنے والا ہے۔اس مردم شماری کا فائدہ صرف ان ہی ذاتوں کو ملے گا جن کی اپنی بیدار سیاسی قیادت و طاقت ہے،جو حکومت کو اپنی دھمکیوں اور عمل سے زیر کر سکتی ہیں۔یہاں جب سبھی مسلمانوں کی حیثیت صفر ہوکر رہ گئی تو پھر ان میں سے چھوٹی ذاتوں کی کیا بساط ہے۔اس لیے مسلمانوں کو سب سے پہلے اپنی سیاسی قوت کی طرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے جب کہ اہل حل و عقد خصوصاً بی جے پی کو سماجی انصاف کے تقاضوں کے مطابق جیسا کہ پہلے اس کا خود یہی موقف رہا ہے او بی سی میں شامل چھوٹی چھوٹی ذاتوں کی تعداد اس مردم شماری میں واضح کرائے، اس کے مطابق اسکیمیں تیار کرے اور ان کو نچلے پائیدان سے اوپر کی طرف لے جانے کا اپنا فریضہ ادا کرے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتی ہے تو یہ مانا جائے گا کہ بی جے پی سماجی انصاف کے بجائے منو اسمرتی میں بنائے گئے قوانین کے مطابق نئے ہندوستان کو بھی ڈھالنا چاہتی ہے اور ان ہی خطوط پر ہندوستان کو لے جانا چاہتی ہے،جہاں سماجی انصاف اور انسانی مساوات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS