ملک کی آزادی اور ترقی میں اردو کا کردار ناقابل فراموش

0

محمد غفران آفریدی
نئی دہلی (ایس این بی) : انڈو اسلامک ہیریٹیج سینٹر کے زیر اہتمام منعقد قومی سمینار میں معروف دانشوروں نے اردو زبان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے
کہاکہ اردو بہت قدیم زبان ہے اورہندوستانی تہذیب میں اردو پوری طرح سے موجودہے،اردو کو سب سے زیادہ نقصان تقسیم وطن سے ہوا ہے ،البتہ اردو زبان
کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے ،اسے بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹرمیں ’اردو: ہندوستانی زبان‘کے عنوان سے منعقد پروگرام میں موجود معروف
دانشوروں نے کہا کہ دیوالی اور ہو لی جیسے تہوار کی مناسبت سے اردو زبان سے اچھی شاعری کسی زبان میں نہیں ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اردو
پوری طرح سے ہندوستانی زبان ہے۔اہم شخصیات نے اپنی گفتگو میںمزےد کہاکہ ہندوستان کی آزادی اور اس کی ترقی میں اردو کے کردارکو فراموش
نہیںکیاجاسکتاہے۔ اس موقع پرمہمان خصوصی کے طور پرانڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن کے ڈائریکٹر جنرل پروفےسر سنجے دویدی نے کہا کہ اردو
ایک ہندوستانی زبان ہے اور اس میں کوئی تنازع نہیںہے،اگر ملک تقسیم نہ ہوا ہوتاتو نزاع کی یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی،جب ہندوستان ایک تھا تو اردو اخبارات کے
زیادہ تر مالکان اور ایڈیٹر ہندو تھے، ان اخبارات نے وطن آزادی کے لیے آواز بلند کی۔ پروفیسر دویدی نے مزید کہا کہ گوپی چند نارنگ نے مغرب کے علم کو
اردو میں شامل کرکے اسے وسعت دی،اگر تاجر اردو میں پیسہ لگا رہے ہیں تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اردو کی ایک مارکیٹ اور مستقبل ہے۔
مہمان ذی وقار کی حیثیت سے شر یک پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ اردو میرے نزدیک ثقافت اور ماں کا درجہ رکھتی ہے، آزادی کے بعد پاکستانیوں
نے تقسیم کے نتیجے میں شاہ ولی اللہ، سرسید اور اردو کواغوا کرنے کی کوشش کی لیکن آج ہندوستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان اردو ہے۔
پروفیسر واسع نے مزید کہاکہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن مذہب کو زبان کی ضرورت ہوتی ہے،زبان مکالمے کے لیے ہوتی ہے، جھگڑے کے لیے نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مدارس میں پڑھائی جانے والی زیادہ تر کتابیں نول کشور جی کی ہی ہیں، اسی طرح ہندی میں رس خان، رحیم شانی اور بسم اللہ کامقام کم
نہیںکیا جا سکتاہے۔آئی آئی ایچ سی کے ڈائریکٹر پروفیسر لیاقت حسین معینی نے کہا کہ حضرت امیر خسروؒ نے اردوزبان کو طاقت دی۔ انہوں نے کہا کہ
صوفیائے کرام نے اردو کو مقامی سرزمین سے جوڑا،صوفیا نے اردو ادب پر بطور خاص زور دیاہے۔انہوںنے مزید کہا کہ منشی نول کشور کی خدمات کو
فراموش نہیں کیا جا سکتا، جب ہندو شاعر نعت اور حمد لکھ رہے تھے تو اقبال رام پر نظم لکھ رہے تھے، یہ جامع احساس اردو کی طاقت ہے،لہٰذا اردو زبان نہیں
ثقافت کا نام ہے۔ قومی کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممتاز مندوبین میںپروفیسر سید محمد اشرف (آئی آر ایس)، پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین (جے اےن
ےو)، ڈی یو کے پروفیسر ہردے بھانو پرتاپ، بنارس ہندو یونیورسٹی سے ڈاکٹر رشی شرما، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ڈاکٹرحنا آفرین اور پٹنہ یونیورسٹی کے
پروفیسر عبدالواحد، صفدر امام قادری، جامعہ ہمدرد سے ڈاکٹر محمد احمد نعیمی اور ڈاکٹر محمد فضل الرحمن، کشمیر سے ڈاکٹر توصیف احمد وانی اور ظہور
چشتی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈاکٹر سراج اجملی اور پروفیسر ڈاکٹر محمد علی اشہرقدیر، ہری دیو جوشی جرنلزم یونیورسٹی جے پور سے پروفیسرمحمد
اخلاق احمد عثمانی ودیگربھی شامل رہے۔
اس دوران اردو کی ترقی وترویج کےلئے بیش بہاخدمات انجام دینے والی اہم شخصیات کو ’تہذیب اردو‘ کے اعزاز سے نوازا گیا، جن میں عبدالماجد نظامی (
گروپ ایڈیٹر،روزنامہ راشٹریہ سہارا)،ڈاکٹرخورشید ربا نی (مدیر اعلیٰ تہذیب اردو چینل،دہلی)،ڈاکٹر محمد یامین انصاری (روزنامہ انقلاب)، محمدطارق فریدی (
ایڈیٹر ان چیف ،زی سلام)، معین شاداب (عالمی سہارا نیوز چینل)، پروفیسر حفیظ الرحمن (جے این یو)،نواب علی اختر زیدی (صحافت)،ڈاکٹر ابھے کمار(فری لانس
جرنلسٹ)، سیدمنظور ظہور (صوفی میڈیا انٹرنیٹ سروس)ودیگر کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ پروگرام میں کل 3 سیشن ہوئے جس میں ملک بھر کی نامور
یونیورسٹیوں کے تقریباً 40 اسکالرز پروفیسرز، ریسرچ اسکالرز اور اردو صحافیوں نے اپنے تحقیقی مقالے پڑھے۔ سیمینار کے بعد مرکز اور ریاستوں کے نام
اردو کو ترقی دینے کی قرارداد پاس کی گئی۔قبل ازیںمہمانوں کا استقبال سینٹر کے وائس چےئر مین ڈاکٹرسید شجاعت علی قادری نے کیا،جبکہ آخرمیںسمینار کے
روح رواںمولانامحمد ظفر الدین برکاتی نے سبھی مہمانان کا شکریہ ادا کیا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS