5 ریاستوں اترپردیش، اتراکھنڈ، پنجاب، منی پور اورگوا میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ملک میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ یا تو ڈیجیٹل انتخابی مہم چل رہی ہے یا لیڈران زمین پر اترکر ’ڈور ٹو ڈور‘ ووٹ مانگ رہے ہیں ۔ انتخابات پر کورونا کا پورا اثر نظر آرہا ہے ۔کورونا کی جو گائیڈلائن سرکار لوگوں کو جاری کرتی ہے، اسی طرح کی گائیڈلائن الیکشن کمیشن سیاسی پارٹیوں کے لئے جاری کررہا ہے۔ اس طرح انتخابی مہم کے دوران وہ شور شرابہ ہے جو انتخابات میں عموماً دیکھنے کو ملتا ہے ۔سیاسی لیڈران کے بیانات کسی طرح میڈیا میں آجاتے ہیں لیکن رائے دہندگان کیا سوچ رہے ہیں اوروہ کیا چاہتے ہیں، یہ چیز میڈیا میں نہیں آپارہی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ نہ توحکمراں جماعت انتخابات میں ایشوز پر بات کررہی ہے اورنہ اپوزیشن۔صرف ہوا میں الزام تراشیاں ہورہی ہیں اورکچھ کیچڑ اچھالے جارہے ہیں، جن سے عوام کو نہ کوئی فائدہ ہونے والا ہے اورنہ ان کا کوئی مسئلہ حل ہونے والا ہے۔ ابھی تک سیاسی پارٹیوں نے جتنے امیدواروں کا اعلان کیا، اگر ان کی فہرست کاتجزیہ کیا جائے تو اس میں ذات پات اورکمیونٹی کا فیکٹر صاف صاف نظرآرہا ہے یعنی ہر پارٹی کھل کر تو نہیں لیکن ٹکٹوں کے ذریعہ ذات پات اور مذہب کی سیاست کررہی ہے ۔کچھ تقریروں میں اشارتاًیا انتخابی مہم کے لئے علاقوں کا انتخاب کرکے اپنی سیاست کا اظہار کردیتی ہیں اورکچھ خاموشی سے اپنا کام کررہی ہیں۔ ذات پات اور مذہب کی سیاست کافیکٹر دیگر ریاستوں میں اتنامحسوس نہیں ہوتا لیکن جتناملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ہے۔ ریاست میں کسان فیکٹر اپنی جگہ پرہے، جسے ریاست کے کسان اٹھارہے ہیں اور وہ اپنے مسائل ومطالبات کی بنیادپر ووٹ دینے کی اپیل کررہے ہیں، لیکن سیاسی پارٹیوں کی توجہ ذات پات اورمذہب پر مبذول ہے ۔کیونکہ اس کے ذریعہ وہ رائے دہندگان کو آسانی سے رجھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں پسماندہ طبقات اورمسلمانوں کو سینٹر میں رکھ کر سیاست کررہی ہیں اوران کے ووٹوں کو حاصل کرنے یا تقسیم کرکے ضائع کرنے کے لئے سرگرم ہیں لیکن دلت سیاست پر اترپردیش میں ایک طرح سے خاموشی چھائی ہوئی ہے جبکہ ایک دور تھاجب دلت سیاست ریاست میں خوب ہوتی تھی، لیکن گزشتہ ایک دہائی سے اس پر نہ بحث ہوتی ہے اورنہ سیاسی پارٹیاں اورلیڈران بات کرتے ہیں،جبکہ گزشتہ 3انتخابات سے دیکھا جارہا ہے کہ ریزرونشستیں فیصلہ کن رول اداکررہی ہیں۔ جس پارٹی کی جھولی میں وہ جاتی ہیں ، اسی کی حکومت بنتی ہے ۔
اترپردیش میں 403اسمبلی حلقے ہیں ، ہرحلقہ اوروہاں کے ووٹر اپنی اہمیت رکھتے ہیں، جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔کیونکہ ایک ایک سیٹ جوڑ کر ہی کوئی بھی پارٹی حکومت سازی کے لئے مطلوبہ جادوئی ہندسہ تک پہنچ پاتی ہے۔لیکن ان 403اسمبلی سیٹوں میں 86ریزرونشستیں ایسی ہیں۔جہاں کے ووٹر تو خاموش رہتے ہیں لیکن ان کا فیصلہ دوررس اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگرگزشتہ 3اسمبلی انتخابات کی بات کریں تو ان ریزرو نشستوں پر جس کا دبدبہ رہا، اس نے اقتدارکے حصول میں بازی ماری۔ 2007میں بہوجن سماج پارٹی کو ان میںسے 62نشستیں ملیں تو اس کی حکومت بنی ، 2012میں سماجوادی پارٹی کے کھاتے میں 56سیٹیں گئیں تو اکھلیش یادونے 5برسوں تک حکومت کی اورپچھلے 2017کے الیکشن میں بی جے پی کو 78سیٹوں پر کامیابی ملی تو وہ اقتدارمیں آئی ۔مطلب صاف ہے کہ انتخابی نتائج اورحکومت سازی میں ریزرونشستوں کا اہم رول ہوتا ہے۔ کوئی بھی پارٹی کھل کریہ بات نہیں کہتی لیکن اندرونی طور پر وہ اسے اہمیت ضرور دیتی ہے اوراسی کے حساب سے ٹکٹوں کی تقسیم کرتی ہے اورانتخابی مہم چلاتی ہیں ۔
دلت سیاست پہلے بھی تھی ، آج بھی ہے اورشاید آگے بھی رہے گی ۔پہلے یہ کھل کر ہوتی تھی، اب خاموشی سے ہوتی ہے ۔اس سے ایک بات اورسمجھ میں آتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ان ریزرو نشستوں کے رائے دہندگان باری باری سے پارٹیوں کو آزمارہے ہیں ۔تبھی تو 3انتخابات میں 3الگ الگ فیصلے کئے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگلی بار ان حلقوں کے لوگ کس کے حق میں فیصلہ کریں گے ۔؟ کس کی نیاپار لگائیں؟ اورکس کی نیا ڈبودیں گے ؟ان کاجو بھی فیصلہ ہوگا، وہ ماضی کی طرح اہم ہوگا ۔یوپی کے الیکشن میں یہ خاموش فیکٹرجتنی امیدیں سیاسی پارٹیوں سے کرتا ہے اتنی ہی امیدیں ان حلقوں کے لوگ سیاسی پارٹیوں سے کرتے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہی ہے کہ پسماندہ فیکٹر زیادہ مؤثر ثابت ہورہا ہے جسے اچھالاجارہا ہے یا ریزرونشستیں۔
[email protected]
اترپردیش کی ریزرونشستوں کا رول
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS